جمعہ، 26 اگست، 2016

طوائف کی کہانی۔ امام مسجد کی زبانی




نوراں کنجری ۔۔۔۔شہریار خاور
دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب محکمہ اوقاف نے زبردستی میری تعیناتی شیخو پوریکے امیر محلے کی جامعہ مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی. وجہ یہ تھی کے میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاوڈ سپیکر پے تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا. شومئی قسمت کے وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا. نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا. بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ. جو سنتا تھا ہنستا تھا یا پھر اظھار افسوس کرتا تھا

محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی تنخواہ کا ایک معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو میری پوسٹنگ کا سن کے ایک آنکھ دبا کر بولا
قبلہ مولوی صاحب، آپ کی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں. میں تو گویا زمین میں چھ فٹ نیچے گڑ گیا 
پھر اللہ بھلا کرے میری بیوی کا جس نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا کے امامت ہی توہے، کسی بھی مسجد میں سہی. اور میرا کیا ہے؟ میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی. پردے کا کوئی مسلہ نہیں ہوگا. اور پھر ہمارے کونسے کوئی بچے ہیں کے ان کے بگڑنے کا ڈر ہو

بیوی کی بات سن کر تھوڑا دل کو اطمینان ھوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا. بچوں کا ذکر چھڑ ہی گیا تو یہ بتاتا چلوں کے شادی کے بائیس سال گزرنے کے باوجود اللہ نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا. خیر اب تو شکوہ شکایت بھی چھوڑ چکے تھے دونوں میاں بیوی. جب کسی کا بچہ دیکھ کر دل دکھتا تھا تو میں یاد الہی میں دل لگا لیتا اور وہ بھلی مانس کسی کونے کھدرے میں منہ دے کر کچھ آنسو بہا لیتی

سامان باندھ کر ہم دونوں میاں بیوی نے اللہ کا نام لیا اور لاہورجانے کے لئے ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہوگئے. بادامی باغ اڈے پے اترے اور ہیرا منڈی جانے کے لئے سواری کی تلاش شروع کی. ایک تانگے والے نے مجھے پتا بتانے پر اوپر سے نیچے تلک دیکھا اور پھر برقع میں ملبوس عورت ساتھ دیکھ کر چالیس روپے کے عیوض لے جانے کی حامی بھری. تانگہ چلا تو کوچبان نے میری ناقص معلومات میں اضافہ یہ کیہ کر کیا کے

میاں جی، جہاں آپ کو جانا ہے، اسے ہیرا منڈی نہیں، ٹبی گلی کہتے ہیں پندرہ بیس منٹ میں ہم پوہنچ گئے. دوپہر کا وقت تھا. شاید بازار کھلنے کا وقت نہیں تھا. دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا. وہ ہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں، میلے کرتوں کیغلیظ دامن سے ناک پونچھتے ننگ دھڑنگ بچے، نالیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پے مڈلاتی بیحساب مکھیاں. سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے اور ان سے بحث کرتی کھڑکیوں سے آدھی باہرلٹکتی عورتیں فرق تھا تو صرف اتنا کے پان سگریٹ اور پھول والوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں. دوکانیں تو بند تھیں مگر ان کے نئے پرانے بورڈ اصل کاروبار کی خبر دے رہے تھے

مسجد کے سامنے تانگہ کیا رکا، مانو محلے والوں کی عید ہوگیی. پتہ نہیں کن کن کونے کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل کر جمع ہونے لگیں. ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پے اٹھا لیا.

ابے نیا مولوی ہے

بیوی بھی ساتھ ہے. پچھلے والے سے تو بہتر ہی ہوگا

کیا پتہ لگتا ہے بہن، مرد کا کیا اعتبار؟

ہاں ہاں سہی کہتی ہے تو. داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک

عجیب طوفان بدتمیز تھا. مکالموں اور فقروں سے یہ معلوم پڑتا تھا کے جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں، شرفاء کے محلے میں کوئی طوائف وارد ہوئی ہو. اس سے پہلے کے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا، خدا خوش رکھے غلام شببر کو جو مولوی صاحب مولوی صاحب کرتا دوڑا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا. پتہ چلا کے مسجد کا خادم ہے اور عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی نہایت محنت اور دیانت داری سے ادا کر رہا تھا. بھائی طبیعت خوش ہوگیی اس سے مل کے. دبلا پتلا پکّی عمر کا مرد. لمبی سفید داڑھی. صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا، کندھے پے چار خانے والا سرخ و سفید انگوچھا. پیشانی پے محراب کا کالا نشان، سر پے سفید ٹوپی اور نیچی نگاہیں. سادہ اور نیک آدمی اور منہ پے شکایت کا ایک لفظ نہیں. بوڑھا آدمی تھا مگر کمال کا حوصلہ و ہمّت رکھتا تھا 

سامان سنبھالتے اور گھر کو ٹھیک کرتے ہفتہ دس دن لگ گئے.گھر کیا تھا. دو کمروں کا کوارٹر تھا مسجد سے متصل. ایک چھوٹا سا باورچی خانہ، ایک اس سے بھی چھوٹا غسل خانہ اور بیت الخلا اور ایک ننھا منا سا صحن. بہرحال ہم میاں بیوی کو بڑا گھر کس لئے چاہیے تھا. بہت تھا ہمارے لئے. بس ارد گرد کی عمارتیں اونچی ہونے کی وجہ سے تاریکی بہت تھی. دن بارہ بجے بھی شام کا سا دھندلکا چھایا رہتا تھا. گھر ٹھیک کرنے میں غلام شببر نے بہت ہاتھ بٹایا. صفائی کرنے سے دیواریں چونا کرنے تک. تھوڑا کریدنے پے پتا چلا کے یہاں آنے والے ہر امام مسجد کے ساتھ غلام شبّیرگھر کا کام بھی کرتا تھا. بس تنخواہ کے نام پے غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد ہی میں سوتا تھا. یوں اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی اور مسجد کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی
ایک بات جب سے میں آیا تھا، دماغ میں کھٹک رہی تھی. سو ایک دن غلام شببر سے پوچھ ہی لیا

میاں یہ بتاؤ کے پچھلے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرا گزرا؟

وہ تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک طرف لے گیا کے بیگم کے کان میں آواز نہ پڑے

میاں جی اب کیا بتاؤں آپ کو؟ جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی. محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے. بس دل آ گیا ایک لڑکی پے. لڑکی کے دلال بھلا کہاں جانے دیتے تھے سونے کی چڑیا کو. پہلے تو انہوں نے مولانا کو سمجھنے بجھانے کی کوشش کی. پھر ڈرایا دھمکایا. لیکن مولانا نہیں مانے. ایک رات لڑکی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی. بادامی باغ اڈے پر ہی پکڑے گئے. ظالموں نے اتنا مارا پیٹا کے مولانا جان سے گئے. غلام شبّیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی

پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟ میں نے گھبرا کر پوچھا

غلام شبّیر ہنسنے لگا. کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی. پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے. بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب. اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے

لاحول ولا قوّت الا باللہ..کہاں اس جہنم میں پھنس گئے. میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا

آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھاہیں. دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے. ان کو قران پڑھا دیں. باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں. بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں. غلام شبّیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آی

انہی شروع کے ایام میں ایک واقعیہ ہوا. پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پے کسی نے دستک دی. غلام شبّیر نے جا کے دروازہ کھولا اور پھر ایک کھانے کی ڈھکی طشتری لے کے اندر آ گیا. میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا

نوراں نے کھانا بھجوایا ہے. پڑوس میں رہتی ہے

میں کچھ نا بولا اور نا ہی مجھے کوئی شک گزرا. سوچا ہوگی کوئی اللہ کی بندی. اور پھر امام مسجد کے گھر کا چولھا تو ویسے بھی کم ہی جلتا ہے. بہرحال جب اگلے دو دن بھی یہ ہی معمول رہا تومیں نے سوچا کے یہ کون ہے جو بغیر کوئی احسان جتاے احسان کیے جا رہی ہے.عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں ہی تھا جب غلام شبّیر کو آواز دے کے بلایا اور پوچھا

میاں غلام شبّیر یہ نوراں کہاں رہتی ہے؟ میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کر اس کا شکریہ ادا کرآے

غلام شبّیر کے تو اوسان خطا ہو گئے یہ سن کر. میاں جی ، بی بی نہیں جا سکتی جی وہاں

میں نے حیرانی سے مزید استفسار کیا تو گویا غلام شبّیر نے پہاڑ ہی توڑ دیا میرے سر پے

میاں جی ، اس کا پورا نام تو پتا نہیں کیا ہے مگر سب اس کو نوراں کنجری کے نام سے جانتے ہیں. پیشہ کرتی ہے جی

پیشہ کرتی ہے؟ یعنی طوائف ہے؟ اور تم ہمیں اس کے ہاتھ کا کھلاتے رہے ہو؟ استغفراللہ! استغفراللہ

غلام شبّیر کچھ شرمسار ہوا میرا غصّہ دیکھ کر. تھوڑی دیر بعد ہمّت کر کے بولا:

میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی لوگ رہتے ہیں. ان کے ہاتھ کا نہیں کھاییں گے تو مستقل چولھا جلانا پڑے گا جو آپ کی تنخواہ میں ممکن نہیں

یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا. ہم شریف لوگ ہیں غلام شبّیر، بھوکے مر جایءں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھاییں گے

میرے تیور دیکھ کر غلام شبّیر کچھ نہ بولا مگر اس دن کے بعد سینوراں کنجری کے گھر سے کھانا کبھی نا آیا

جس مسجد کا میں امام تھا، عجیب بات یہ تھی کے اس کا کوئی نام نہیں تھا. بس ٹبی مسجد کے نام سے مشہور تھی. ایک دن میں نے غلام شبّیر سے پوچھا کے میاں نام کیا ہے اس مسجد کا؟ وہ ہنس کر بولا،

میاں جی اللہ کے گھر کا کیا نام رکھنا؟

پھر بھی؟ کوئی تو نام ہوگا. سب مسجدوں کا ہوتا ہے. میں کچھ کھسیانا ہو کے بولا
بس میاں جی بہت نام رکھے. جس فرقے کا مولوی آتاہے، پچھلا نام تبدیل کر کے نیا رکھ دیتا ہے.آپ ہی کوئی اچھا سا رکھ دیں. وہ سر کھجاتا ہوا بولا.

میں سوچ میں پڑ گیا. گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے؟ کیا نام رکھا جائے مسجد کا؟ ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا. گناہوں کے کیچڑ میں چمکتا پاک صاف موتی. دل ہی دل میں میں نے مسجد کے نام کا فیصلہ کیا اور اپنی پسند کو داد دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں بیوی کھانا لگاے میری منتظر تھی 

اب بات ہوجاے قرآن پڑھنے والے بچوں کی. تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے. ملی جلی عمروں کے پانچ سے گیارہ بارہ سال کی عمر کے. تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے.نہا دھو کے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کے آتے تھے. دو گھنٹے سپارہ پڑھتے تھے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے. کون تھے کس کی اولاد تھے؟ نہ میں نے کبھی پوچھا نا کسی نے بتایا. لیکن پھر ایک دن غضب ہوگیا. قرآن پڑھنے والے بچوں میں ایک بچہ نبیل نام کا تھا. یوں تو اس میں کوئی خاص بات نا تھی. لیکن بس تھوڑا زیادہ شرارتی تھا. تلاوت میں دل نہیں لگتا تھا. بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں لگا رہتا. میں بھی درگزر سے کام لیتا کے چلو بچہ ہے.لیکن ایک دن ضبط کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا. اس دن صبح ہی سے میرے سر میں ایک عجیب درد تھا. غلام شبّیر سے مالش کرائی، پیناڈول کی دو گولیاں بھی کھایءں مگر درد زور آور بیل کی مانند سر میں چنگھاڑتا رہا. درد کے باوجود اور غلام شبّیر کے بہت منع کرنے پر بھی میں نے بچوں کا ناغہ نہیں کیا. نبیل بھی اس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی شرارتیں کر رہا تھا. کبھی ایک کو چھیڑ کبھی دوسرے کو. جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گیءں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور میں نے پاس رکھی لکڑی کی رحل اٹھا کر نبیل کے دے ماری. میں نے نشانہ تو کمر کا لیا تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کے رحل بچے کی پیشانی پر جا لگی

خون بہتا دیکھ کر مجھے میرے سر کا درد بھول گیا اور میں نے گھبرا کر غلام شببر کو آواز دی. وہ غریب بھاگتا ہوا آیا اور بچے کو اٹھا کے پاس والے ڈاکٹر کے کلینک پر لے گیا. خدا کا شکر ہوا کے چوٹ گہری نہیں لگی تھی. مرہم پٹی سے کام چل گیا اور ٹانکے نا لگے. خیر باقی بچوں کو فارغ کر کے مسجد کے دروازے پے پوہنچا ہی تھا کے چادر میں لپٹی ایک عورت نے مجھے آواز دے کر روک لیا. میں نے دیکھا کے وہ عورت دہلیزپئے کھڑی مسجد کے دروازے سے لپٹی رو رہی تھی 

چالیس پینتالیس کا سن ہوگا. معمولی شکل و صورت. سانولا رنگ اور چہرے پے پرانی چیچک کے گہرے داغ. آنسوؤں میں ڈوبی آنکھیں اور گالوں پر بہتا کالا سرما. زیور کے نام پے کانوں میں لٹکتی سونے کی ہلکی سی بالیاں اور ناک میں چمکتا سستا سرخ نگ کا لونگ. چادر بھی سستی مگر صاف ستھری اور پاؤں میں ہوائی چپپل 

.کیا بات ہے بی بی؟ کون ہو تم؟ میں نے حیرانگی سے اس سے پوچھا

.میں نوراں ہوں مولوی صاحب. اس نے چادر کے پلو سے ناک پونچھتے ہوئے کہا 

نوراں؟ نوراں کنجری؟ میرے تو گویا پاؤں تلے زمین ہی نکل گیء. میں نے ادھر ادھر غلام شبّیر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نبیل کی مرہم پٹی کرا کے اور اس کو اس کے گھر چھوڑنے کے بہانے نجانے کہاں غایب تھا

جی. نوراں کنجری! اس نے نظریں جھکاے اپنے نام کا اقرار کیا. مجھے کچھ دیر کے لئے اپنے منہ سے نکلنے والی اس کے گالی جیسی عرفیت پے شرمدگی ہوئی مگر پھر خیال آیا کے وہ طوائف تھی اور اپنی بری شہرت کی زمہ دار. شرمندگی اس کو ہونی چاہیے تھی، مجھے نہیں. پھر اچانک مجھے احساس ہوا کے میری موتی جیسی مسجد میں اس طوائف کا نا پاک وجود کسی غلاظت سے کم نہیں تھا

باہر نکل کے کھڑی ہو. مسجد کو گندا نا کر بی بی، میں نے نفرت سے باہر گلی کی جانب اشارہ کیا.

اس نے کچھ اس حیرانگی سے آنکھ اٹھا کے میری طرف دیکھا کے جیسے اسے مجھ سے اس رویے کی امید نا ہو. ڈبڈبائی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے کسی انکہی فریاد کی لو بھڑکی. لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے آنسوؤں کے پانی میں احتجاج کے ارادے کو غرق کیا اور بغیر کوئی اور بات کئے چلی گی. میں نے بھی نا روکا کے پتا نہیں کس ارادے سے آیء تھی. اتنی دیر میں غلام شبّیر بھی پوھنچ گیا

.کون تھی میاں جی؟ کیا چاہتی تھی؟ غالباً اس نے عورت کو تو دیکھا تھا مگر دور سے شکل نہیں پہچان پایا

نوراں کنجری تھی. پتا نہیں کیوں آی تھی؟ مگر میں نے بھی وہ ڈانٹ پلائی کے آیندہ اس پاک جگہ کا رخ نہیں کرے گی. میں نے داد طلب نظروں سے غلام شبّیر کی طرف دیکھا مگر اس کے چہرے پر ستائش کی جگہ افسوس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے

وہ بیچاری دکھوں کی ماری اپنے بچے کا گلہ کرنے آی تھی میاں جی. نبیل کی ماں ہے . بچے کی چوٹ برداشت نہیں کر سکی. اور آپ نے اس غریب کو ڈانٹ دیا. غلام شبّیر نے نوراں کی وکالت کرتے ہوئے کہا


تو نبیل نوراں کا بیٹا ہے.ایسی حرکتیں کرے گا تو سزا تو ملے گی. جیسی ماں ویسا بیٹا. میں نے اپنی شرمندگی کو بیہودگی سے چھپانے کی کوشش کی. ایک لمحے کو خیال بھی آیا کے بچہ تو معصوم ہے اور پھر میں نے زیادتی بھی کی تھی. مگر پھر اپنے استاد ہونیکا خیال آیا تو سوچا کے بچے کی بھلائی کے لئے ہی تو مارا ہے. کیا ہوا. اور پھر ایک طوائف کو کیا حق حاصل کے مسجد کے امام سے شکایت کر سکے

.کتنے بچے ہیں نوراں کے؟ میں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی

مسجد میں پڑھنے والے سب بچے نوراں کے ہیں میاں جی. اس کے علاوہ ایک گود کا بچہ بھی ہے. بس اس محلے میں صرف نوراں اپنے بچوں کو مسجد بھیجتی ہے. باقی سب لوگوں کے بچے تو آوارہ پھرتے ہیں. غلام شبّیر کی آواز میں پھر نوراں کی وکالت گونج رہی تھی. میں نے بھنا کر جواب دینے کا ارادہ کیا ہی تھا کے کوتوال صاحب کی گاڑی سامنے آ کر رکی. خود تو پتا نہیں کیسا آدمی تھا مگر بیوی بہت نیک تھی. ہر دوسرے تیسرے روز ختم کے نام پر کچھ نہ کچھ میٹھا بھجوا دیتی تھی. اس دن بھی کوتوال کا اردلی جلیبیاں دینے آیا تھا. گرما گرم جلیبیوں کی اشتہا انگیز مہک نے میرا سارا غصہ ٹھنڈا کر دیا اور نوراں کنجری کی بات آیی گیی ہوگیی

یہ نبیل کو مار پڑنے کے کچھ دنوں بعد کا ذکر ہے. عشاء پڑھا کے میں غلام شبّیر سے ایک شرعیی معاملے پر بحث میں الجھ گیا تو گھر جاتے کافی دیر ہوگیی. مسجد سے باہر نکلے تو بازار کی رونق شروع تھی. بالکونیوں پر جھلملاتے پردے لہرا رہے تھے اور کوٹھوں سے ہارمونیم کے سر اور طبلوں کی تھاپ کی آواز ہر سو گونج رہی تھی. پان سگریٹ اور پھولوں کی دکانوں پر بھی دھیرے دھیرے رش بڑھ رہا تھا. اچانک میری نظر نوراں کے گھر کے دروازے پرجا پڑی. وہ باہر ہی کھڑی تھی اور ہر آتے جاتے مرد سے ٹھٹھے مار مار کر گپپیں لگا رہی تھی. آج تو اس کا روپ ہی دوسرا تھا. گلابی رنگ کا چست سوٹ، پاؤں میں سرخ گرگابی، ننگے سر پے اونچا جوڑا، جوڑے میں پروئے موتیے کے پھول، میک اپ سے لدا چہرہ، گہری شوخ لپ سٹک، آنکھوں میں مسکارا اور مسکارے کی اوٹ سے جھانکتی ننگی دعوت

لاحول ولا قوت اللہ باللہ میں نے طنزیہ نگاہوں سے غلام شبّیر کی جانب دیکھا. آخر وہ نوراں کا وکیل جو تھا

چھوڑئیے میاں جی. عورت غریب ہے اور دنیا بڑی ظالم. اس نے گویا بات کو ٹالنے کی کوشش کی. مگر میں اتنی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں تھا

یہ بتاؤ میاں، جب اس کے گاہک آتے ہیں تو کیا بچوں کے سامنے ہی.؟ میں نے معنی خیز انداز میں اپنا سوال ادھورا ہی چھوڑ دیا

میاں جی، ایک تو اس کے بچے صبح اسکول جاتے ہیں اور اس لئے رات کو جلدی سو جاتے ہیں. دوسرا، مہمانوں کے لئے باہر صحن میں کمرہ الگ رکھا ہے. غلام شبّیر نے ناگوار سے لہجے میں جواب دیا

استغفراللہ! استغفراللہ!. میں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں ختم کرنا مناسب سمجھا کیوں کے مجھے احساس ہو چکا تھا کے غلام شبّیر کے لہجے سے جھانکتی ناگواری کا رخ نوراں کی جانب نہیں تھا 

اس کے بعد نوراں کا ذکر میرے سامنے تب ہوا جن دنوں میں اپنے اور زوجہ کے لئے حج بیت اللہ کی غرض سے کاغذات بنوا رہا تھا. اس غریب کی بڑی خواہش تھی کے وہ اور میں اللہ اور اس کے نبی پاک کی خدمت میں پیش ہوں اور اولاد کی دعا کریں. میرا بھی من تھا کے کسی بہانے سے مکّے مدینے کی زیارت ہوجاے. نام کے ساتھ حاجی لگا ہو تو شاید محکمے والے کسی اچھی جگہ تبدیلی کر دیں. زوجہ کا ایک بھانجا انہیں دنوں وزارت مذہبی امور میں کلرک تھا. اس کی وساطت سے درخواست کی قبولی کی کامل امید تھی. کاغذات فائل میں اکٹھے کیے ہی تھے کے غلام شبّیر ہاتھ میں کچھ اور کاغذات اٹھاے پوھنچ گیا

.میاں جیایک کام تھا آپ سے. اجازت دیں تو عرض کروں. اس نے ہچکچاتے کہا

ہاں ہاں میاں، کیوں نہیں. کیا بات ہے؟ میں نے داڑھی کے بالوں میں انگلیوں سے کنھگی کرتے ہوئے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا

میاں جی، آپ کی تو وزارت میں واقفیت ہے. ایک اور حج کی درخواست بھی جمع کرا دیں. اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات میری جانب بڑھاے

دیکھو میاں غلام شبّیر، تم اچھی طرح جانتے ہو کے میں گھر بار تمہارے ذمے چھوڑ کر جا رہا ہوں. اور پھر تمہارے پاس حج کے لئے پیسے کہاں سے آے؟ میں نے کچھ برہمی سے پوچھا

.نہیں نہیں میاں جی. آپ غلط سمجھے. یہ میری درخواست نہیں ہے. نوراں کی ہے. اس نے سہم کر کہا

کیا؟ میاں ہوش میں تو ہو؟ نوراں کنجری اب مکّے مدینے جائے گی؟ اور وہ بھی اپنے ناپاک پیشے کی رقم سے؟ توبہ توبہ. میرے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گیی یہ واہیات بات سن کر

میاں جی. طوائف ہے پر مسلمان بھی تو ہے. اور وہ تو اللہ کا گھر ہے. وہ جس کو بلانا چاہے بلا لے. اس کے لئے سب ایک برابر. اپنی طرف سے غلام شبّیر نے بڑی گہری بات کی

اچھا؟ اللہ جس کو بلانا چاہے بلا لے؟ واہ میاں واہ. تو پھر میں درخواست کیوں جمع کراؤں؟ نوراں سے کہو سیدھا اللہ تعالیٰ کو ہی بھیج دے. میں نے غصّے سے کہا اور اندر کمرے میں چلا گیا

زوجہ کا بھانجا بر خوردار نکلا اور اللہ کے فضل و کرم سے میری اور زوجہ کی درخواست قبول ہو گیء. ٹکٹ کے پیسے کم پڑے تو اسی بھلی لوک کے جہیز کے زیور کام آ گئے. اللہ کا نام لے کر ہم روانہ ہوگئے. احرام باندھا تو گویا عمر بھر کے گناہ اتار کے ایک طرف رکھ دیے. اللہ کا گھر دیکھا اور نظر بھر کے دیکھا. فرائض پورے کرتے کرتے رمی کا دن آ گیا. بہت رش تھا. ہزاروں لاکھوں لوگ. ایک ٹھاٹھیں مارتا سفید رنگ کا سمندر. گرمی بھی بہت تھی. میرا تو دم گھٹنا شروع ہوگیا. زوجہ بیچاری کی حالت بھی غیر ہوتی جا رہی تھی. اوپر سے غضب کچھ یہ ہوا کے میرے ہاتھ سے اس غریب کا ہاتھ چھوٹ گیا. ہاتھ کیا چھوٹا، لوگوں کا ایک ریلا مجھے رگیدتا ھوا پتا نہیں کہاں سے کہاں لے گیا. عجب حالات تھے. کسی کو دوسرے کا خیال نہیں تھا. ہر کوئی بس اپنی جان بچانے کے چکّر میں تھا. میں نے بھی لاکھ اپنے آپ کو سمبھالنے کی کوشش کی مگر پیر رپٹ ہی گیا. میں نیچے کیا گرا، ایک عذاب نازل ہوگیا. ایک نے میرے پیٹ پر پیر رکھا تو دوسرے نے میرے سر کو پتھر سمجھ کر ٹھوکر ماری. موت میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی. میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بں د کی ہی تھیں کے کسی اللہ کے بندے نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کے کھینچا اور مجھے سہارا دے کر کھڑا کر دیا

میں نے سانس درست کی اور اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کی طرف نگاہ کی. مانو ایک لمحے کے لئے تو بجلی ہی گر پڑی. کیا دیکھتا ہوں کے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے نوراں کنجری کھڑی مسکرا رہی تھی. یہ ناپاک عورت یہاں کیسے آ گیی؟ اس کی حج کی درخواست کس نے اور کب منظور کی؟ میں نے ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر کہاں صاحب. ایک آہنی گرفت تھی. میں نہیں چھڑا سکا. وہ مجھے اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی ایک طرف لے گیی. اس طرف کچھ عورتیں اکٹھی تھی. اچانک میری نظر زوجہ پر پڑی جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بیتاب نگاہوں سے مجمع ٹٹول رہی تھی. ہماری نظریں ملیں تو سب کلفت بھول گیی. میں دوڑ کر اس تک پہنچا اور آنسو پونچھے

.کہاں چلے گئے تھے آپ؟ کچھ ہوجاتا تو؟ پریشانی سے الفاظ اس کے گلے میں اٹک رہے تھے
بس کیا بتاؤں آج مرتے مرتے بچا ہوں. جانے کون سی نیکی کام آ گیی. میں تو پاؤں تلے روندا جا چکا ہوتا اگر نوراں نہیں بچاتی. میں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا

.نوراں؟ ہماری پڑوسن نوراں؟ وہ یہاں کہاں آ گی؟ آپ نے کسی اور کو دیکھا ہوگا. اس نے حیرانگی سے کہا

ارے نہیں. نوراں ہی تھی. میں نے ادھر ادھر نوراں کی تلاش میں نظریں دوڑایءں مگر وہ تو نجانے کب کی جا چکی تھی. بعد میں بھی اس کو بہت ڈھونڈا مگر اتنے جمے غفیر میں کہاں کوئی ملتا ہے

خدا خدا کر کے حج پورا ھوا اور ہم دونوں میاں بیوی وطن واپس روانہ ہوے. لاہور ائیرپورٹ پر غلام شببر پھولوں کے ہاروں سمیت استقبال کو آیا ہوا تھا

بہت مبارک باجی. بہت مبارک میاں جی. بلکہ اب تو میں آپ کو حاجی صاحب کہوں گا. اس نے مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو مبارک دی تو میری گردن حاجی صاحب کا لقب سن کراکڑ گیی. میں نے خوشی سے سرشار ہوتے ہوے اس کے کندھے پے تھپکی دی اور سامان اٹھانے کا اشارہ کیا

ٹیکسی میں بیٹھے. میں نے مسجد اور گھر کی خیریت دریافت کی تو نوراں کا خیال آ گیا.

.میاں غلام شببر، نوراں کی سناؤ. میرا اشارہ اس کی حج کی درخواست کے بارے میں تھا

.اس بیچاری کی کیا سناؤں میاں جی؟ لیکن آپ کو کیسے پتا چلا؟ اس نے حیرانگی سے میری جانب دیکھا

.بس ملاقات ہوئی تھی مکّے شریف میں. میں نے اس کے لہجے میں چھپی اداسی کو اپنی غلط فہمی سمجھا

مکّے شریف میں ملاقات ہوئی تھی؟ مزاق نا کریں میاں جی. نوراں تو آپ کے جانے کے اگلے ہی دن قتل ہوگیی تھی. اس نے گویا میرے سر پر بم پھوڑا

.,قتل ہوگیی تھی؟ میں نے اچھنبے سے پوچھا

جی میاں جی. بیچاری نے حج کے لئے پیسے جوڑ رکھے تھے. اس رات کوئی گاہک آیا اور پیسوں کے پیچھے قتل کر دیا غریب کو. ہمیں توصبح کو پتا چلا جب اس کے بچوں نے اس کی لاش دیکھی. شور مچایا تو سب اکٹھے ہوئے. پولیس والے بھی پہنچ گئے اور اس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئے. ابھی کل ہی میں مردہ خانے سے میّت لے کے آیا ہوں. آج صبح ہی تدفین کی اس کی. غلام شببر کی آواز آنسوں میں بھیگ رہی تھی

.قاتل کا کچھ پتا چلا؟ میں ابھی بھی حیرانگی کی گرفت میں تھا.

پولیس کے پاس اتنا وقت کہاں میاں جی کے طوائفوں کے قاتلوں کو ڈھونڈہے. اس بیچاری کی تو نمازجنازہ میں بھی بس تین افراد تھے: میں اور دو گورکن. اس نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا

.اور اس کے بچے؟ ان کا کیا بنا؟ میں نے اپنی آنکھوں میں امڈ تی نمی پونچھتے ہوئے دریافت کیا

نوراں کے بچے نہیں ہیں میاں جی. غلام شببر نے مرے کان میں سرگوشی کی. طوائفوں کے محلے میں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو زیادہ تر اسے راتوں رات اٹھا کر کوڑے کے ڈھیرپر پھینک دیا جاتا ہے. وہ سب ایسے ہی بچے تھے. نوراں سب جانتی تھی کے کس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے. بس لڑکا ہوتا تو اٹھا کر اپنے گھر لے آ تی. کہنے کو تو طوائف تھی میاں جی مگر میں گواہ ہوں. غریب جتنا بھی کماتی بچوں پے خرچ کر دیتی. بس تھوڑے بہت الگ کر کے حج پے جانے کے لئے جمع کر رکھے تھے. وہ بھی اس کا قاتل لوٹ کر لے گیا

یہ بتاؤ غلام شببر، جب میں نے اس کی درخواست جمع کرانے سے انکار کیا تو اس نے کیا کہا؟ مجھ پے حقیقتوں کے در کھلنا شروع ہو چکے تھے

بس میاں جی، کیا کہتی بیچاری. آنکھوں میں آنسو آ گئے. آسمان کی جانب ہاتھ اٹھاے اور کہنے لگی کے بس تو ہی اس کنجری کو بلاے تو بلا لے. مجھ پر تو پوچھو گھڑوں پانی پڑ گیا. تاسف کی ایک آندھی چل رہی تھی. ہوا کے دوش میری خطائیں اڑرہی تھیں. گناہوں کی مٹی چل رہی تھی اور میری آنکھیں اندھیائی جا رہی تھیں

آپ کیوں روتے ہیں میاں جی؟ آپ تو ناپاک کہتے تھے اس کو. غلام شبّیر نے حیرانگی سے میری آنسوں سے تر داڑھی دیکھتے ہوئے کہا

کیا کہوں غلام شببر کے کیوں روتا ہوں. وہ ناپاک نہیں تھی. ناپاک تو ہم ہیں جو دوسروں کی ناپاکی کا فیصلہ کرتے پھرتے ہیں. نوراں تو اللہ کی بندی تھی. اللہ نے اپنے گھر بلا لیا. میری ندامت بھری ہچکیاں بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور غلام شببر نا سمجھتے ہوئے مجھے تسّلی دیتا رہا
ٹیکسی محلے میں داخل ہوئی اور مسجد کے سامنے کھڑی ہوگیی. اترا ہی تھا کے نوراں کے دروازے پے نظر پڑی. ایک ہجوم اکٹھا تھا وہاں

کیا بات ہے غلام شببر؟ لوگ اب کیوں اکٹھے ہیں؟

میاں جی میرے خیال میں پولیس والے ایدھی سنٹر والوں کو لے کے آے ہیں. وہ ہی لوگ بچوں کو لے جاییں گے. ان غریبوں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے. غلام شببر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا

میں نے زوجہ کا ہاتھ پکڑا اور غلام شببر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے نوراں کے دروازے کی جانب بڑھ گیا

.کہاں چلے میاں جی؟ غلام شببر نے حیرانگی سے پوچھا

نوراں کے بچوں کو لینے جا رہا ہوں. آج سے وہ میرے بچے ہیں. اور ہاں مسجد کا نام میں نے سوچ لیا ہے. آج سے اس کا نام نور مسجد ہوگا

جمعرات، 31 مارچ، 2016

بابا بلھے شاہ ۔۔۔ داستان حیات

حضرت بابا بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں مصدقہ معلومات بہت کم دستیاب ہیں ۔ ابھی تک جو باتیں اس کے بارے میں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے بیشتر کا تعلق زبانی روایت سے ہے ۔ ان زبانی معلومات کا تعلق بھی حضرت بابا بلھے شاہ کی صوفیانہ زندگی اور کرامات سے ہے شاعری سے بہت کم ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات جیسی کیسی بھی ہیں ان سے حضرت بلھے شاہ کی شخصیت کا ایک نقش قائم کیاجاسکتا ہے۔

حضرت بابا بلھے شاہ کی جیون کہانی میں تسلسل نہیں ہے،اس کمی کو قیاسات اور کہیں کہیں ان کی شاعری کے حوالے سے پورا کیاجاسکتا ہے۔ پرانے تذکروں میں خزینہ الاصفیا، نافع السالکین میں حضرت بلھے شاہ کے بارے میں چند ایک معلومات ہیں لیکن ان میں بھی تضاد ہے۔

حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔ حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورشن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہوناچاہئے۔

اسی قسم کا ابہام حضرت بلھے شاہ کے سال پیدائش کے بارے میں بھی ہے کسی نے تاریخ کا حتمی تعین نہیں کیا…. خزینہ الاصفیا1858 میں شائع ہوئی تھی، اس کے مصنف مفتی غلام سرور لاہور ی نے حضرت بلھے شاہ کے حالات کے بیانات میں ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے لیکن 1750 ان کا سن وفات بتایا ہے۔ سب سے پہلے ایک انگریز افسر سی ایف آسبورن نے حضرت بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر ایک کتابچہ جس میں ان کا سن پیدائش 1680اور سن وفات1753 بتائی ہے۔ کلیات بلھے شاہ کے مرتب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں ” بلھے شاہ تے پمفلٹ دے منصف مسٹر آسبورن نیں اوہدی تاریخ پیدائش 1680 تے تاریخ وفات 1785لخی اے ایس حساب نال اوہدی عمر اک سوپنج ورہے بن دی اے پر آسبورن صاحب کول ایس دعوے دا کوئی ثبوت نہیں“۔

فقیر احمد فقیر نے اوسبورن کا اصل انگریزی متن نہیں دیکھا کیونکہ اصل متن میں حضرت بلھے شاہ کا سن وفات 1753 لکھا ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی عمر 78 سال بنتی ہے۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا نے اپنی کتاب پنجابی صوفی شعرا میں اوسبورن کی بیان کردہ تواریخ پر اعتماد کیا ہے۔ یہی غلطی تاجونتی راما کرشنا نے بلھے شاہ پر اپنے مضمون میں کی ہے۔اس نے بھی غالباً اوسبورن کا مضمون نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے حضرت بلھے شاہ کی عمر کے تعین کے بارے میں اردو کے اہم محقق مولوی محمد شفیع کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے ایک پرانامسودہ تعویذات اور فالناموں وغیرہ کے بارے میں دیکھا ہے جس کی تحریر میں حضرت بلھے شاہ کی اجازت بھی شامل ہے،اس پر حضرت بلھے شاہ کی مہر ثبت ہے جو حسب ذیل ہے۔

1181 بلھا شاہ قادری

اگر اس مہر کو واقعی حضرت بلھے شاہ کی مہر تصور کرلیاجائے تو اس کے مطابق وہ 1760 بحیات تھے، اس انکشاف سے آسبورن اور دوسرے مصنفوں کے حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اور وفات کے بارے میں بیانات قیاسیات میں بدل جاتے ہیں۔اس مخطوطے میں حضرت بلھے شاہ کا نام ان القابات کے ساتھ لکھا گیا ہے ۔

” حضرت سید عبداللہ عشقی عرف میاں بلہ شاہ جیو فقیر جناب سید عبدالقادر جیلانی“۔
جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورشن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں۔
پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔
حضرت بلھے شاہ کی وجہ سے یہ گمنام قصبہ تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے اس کی اہمیت کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ یہاں حضرت بلھے شاہ کی جوانی کا کچھ حصہ بسر ہوا تھا، یہاں وہ مسجد بھی موجود ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے اور جس کی تعمیر پانڈو خاں نے کی تھی حضرت بلھے شاہ اور اس کی دونوں بہنوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے اس کے خاندان کا کوئی وارث نہیں ہے پانڈو کے میں ایک چھوٹا سا عماراتی کمپلیکس ہے۔ قدرے بلند جگہ پر ایک بڑا سا ہال ہے جس کے اندر تین قبریں ہیں، درمیان کی قبر حضرت بلھے شاہ کے والدہ کی ہے جس کا نام فاطمہ بی بی تھا اس کے دائیں اور بائیں اس کی دو بہنوں صغراں بی بی اور سکینہ بی بی کی قبریں ہیں ۔حضرت بلھے شاہ کی مسجد کے عقبی جانب ایک سبز گنبد ہے جس کے نیچے بلھے شاہ کے والد دفن ہےں ۔ اس سے ملحقہ پانڈو خاں کی مسجد ہے جس کے امام حضرت بلھے شاہ کے والد تھے۔ مسجد کے احاطے میں چھوٹی اینٹ کا بنا ہوا ایک خستہ سا کنواں ہے جو اب بھی جاری ہے۔
حضرت بلھے شاہ پانڈو کے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے ایک اجنبی سکھ گھوڑے پر سوار پانڈو کے میں سے گزررہا تھا کہ اہل دیہہ نے اعتراض کیا کہ وہ گھوڑے سے نیچے اتر کر گاﺅں میں سے گزرے۔ اس بات پر تکرار شروع ہوگئی حضرت بلھے شاہ نے مصالحت کرانے کی کوشش کی تو اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ پر پتھراﺅ شروع کردیا، اس سکھ اور حضرت بلھے شاہ نے ایک قریبی گاﺅں دفتور کے گردوارے میں جان بچائی۔ بعد میں سکھوں نے پانڈوکے پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اہل دیہہ نے حضرت بلھے شاہ کی منت سماجت کی کہ وہ اپنے گاﺅں واپس آجائےں لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اہل دیہہ کے بزدلانہ رویے پر حضرت بلھے شاہ نے کہا تھا….
بلھیا جے توں غازی بننا ایں لک بن تلوار
پہلے رہنگڑ مارکے پچھوں کافرمار
حضرت بلھے شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا جہاں وہ اس علاقے کے مشہور عالم حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے جن سے حضرت بلھے شاہ نے مذہبی تعلیم کے علاوہ عربی فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ سے حضرت بلھے شاہ کے علاوہ وارث شاہ نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ روایت ہے کہ حافظ غلام مرتضیٰ نے ان دونوں کے بارے میں کہا تھا۔
مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا۔
حضرت بلھے شاہ کا حقیقی نام سید عبداللہ شاہ تھا لیکن عرف عام میں وہ بلھے شاہ کے nick name سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ پنجابی کلچر میں اصل ناموں سے عرف بنانا ایک عام سی بات ہے، بلھے شاہ نے یہ نام اپنے لئے خود تجویز کیا تھا یا ان کے جاننے والوں نے یہ نام رکھا تھا اس بارے میںکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ اگر حضرت بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں اسے ایک تخلص کے طورپر استعمال کیا۔اس کی ایک اور صوفیانہ تاویل کی جاسکتی ہے۔ بُھلا سے مراد بھولا ہوا بھی ہے، یعنی وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ بلھے شاہ کا nick name اتنا مشہور ہوا کہ لوگ ان کے اصل نام سید عبداللہ شاہ کو بھول گئے ہیں۔
یہ معلوم نہیں کہ حضرت بلھے شاہ کتنا عرصہ قصور میں زیر تعلیم رہے اور وہ کب واپس اپنے گاﺅں گئے اور وہاں ان کی مصروفیات کیا تھیں۔ حضرت بلھے شاہ امام مسجد کے بیٹے تھے اوردن بھر وہ مویشی چراتے رہتے۔ حضرت بلھے شاہ نے کس عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا روحانی سفر کس طرح شروع ہوا یہ حقائق پوشیدہ ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی شاعری میں بھی ان کی شخصی زندگی کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیتی۔ اس صورتحال میں حضرت بلھے شاہ کی سوانح کو چند ایک حقائق اور بہت سے مفروضات اور قیاسات کے ذریعے ہی مکمل کیاجاسکتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے بار ے میں قصے کہانیوں میں بھی ان کی کرامتوں اور غیر معمولی روحانی طاقت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری کے شارحین نے بھی ان کی شاعری کی وضاحت اسی نقطہ نظرسے کی ہے۔
بلھے شاہ کی زندگی کے چند ایک واقعات کا بیان بھی ضروری ہے جن سے کم سے کم ان کی افتاد طبع کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک حد تک erratic بھی تھے وہ اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے اور اس انحراف کی ایک وجہ شریعت سے دوری تھی، وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساﺅں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے وہ نہ صرف پانڈو کی سے بلکہ قصور سے بھی ناخوش تھے۔
حضرت بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہوتا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، لاہور میں اچی مسجدکے باہر حضرت شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہوکر گاﺅں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا جو حضرت بلھے شاہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔ حضرت بلھے شاہ اپنے گاﺅںکے لوگوں کیلئے odd man out تھے۔ حضرت بلھے شاہ کے وقائع نگاری اس کی زندگی کے ہر پہلو کو معجزہ یا کرامت ثابت کرنے کیلئے اسے انسانی خصائص سے محروم کردیتے ہیں۔ حضرت بلھے شاہ کی حیات کے بارے میں بہت قلیل مواد کے باوجود ان کے بعض رجحانات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔
پانڈو کے آج بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ گاﺅں کے درمیان ایک چھوٹی سی نیم پختہ گلی ہے جس کے اردگرد کچے پکے مکان ہیں، چند ایک دکانوں کے علاوہ وہاں کوئی کاروبار نہیں ہے، آج کے پانڈو کے اور حضرت بلھے شاہ کے پانڈوکے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حضرت بلھے شاہ کے والد نے انہیں چرواہا بنایا لیکن حضرت بلھے شاہ کو یہ پیشہ منظور نہیں تھا۔ حضرت بلھے شاہ کی اپنے والد کے خلاف یہ بغاوت تھی وہ مسجد کا امام بھی نہیں بنناچاہتے تھے۔
وہ مذہب کو اپنے وجدانی تجربے کے ذریعے دریافت کرناچاہتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک مرشد کی تلاش میں قصور چلے گئے۔اس زمانے میں قصور کا حاکم ایک پٹھان نواب تھا جس کی بداعمالیوں کی وجہ سے قصور ایک بے برکت شہر تھا جہاں بد امنی تھی وہاں حضرت بلھے شاہ کس کام میں مصروف رہے اس کے بارے میں ان کی سوانح حیات خاموش ہے….
قصور بے دستور اوتھے جانا بنیا ضرور
نہ کوئی پن نہ کوئی دان ہے نہ کوئی لاگ دستور
حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو واقعات ہم تک پہنچتے ہیں ان کے مطابق اس میں انسانی برابری، لوگوں کی مدد، طبیعت میں درویشی کے رجحانات نمایاں تھے، اسی ناطے اس کی ابتدائی کرامتوں کا ذکر بھی کیاجاتا ہے۔

اشتہار