khushab magzine لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
khushab magzine لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 13 ستمبر، 2019

عشق کی سرحد اورخوشونت سنگھ

 وہ مٹی جہاں سے انسان کا خمیر اٹھا ہو،جہاں انسان پل بڑھ کر جوان ہوا ہو،اُس مٹی سے عشق انسان کی فطرت میں ہوتا ہے۔وہ انسان دنیا کے جس کونے میں بھی چلا جائے اُس مٹی کو کبھی بھول نہیں سکتا،اس مٹی سے اُٹھنے والی ہر خوشبواس کی روح کومعطر کیے رکھے گی اور وہ انسان اس مٹی سے جڑی یادوں سے خود کو کبھی جدا کر نہیں پائے گا۔وقت کے ساتھ جب دنیا کے مزاج بدلتے ہیں،کئی آوازیں بدلتی ہیں پر اس کے ذہن پہ گزری یادیں،سنی ہوئی آوازیں ہمیشہ دستک دیتی رہتی ہیں۔اُسے راگ راگنیوں کا علم ہو یا نہ ہوپر دل کو خوشی یا غم سے بھر دینے والے گیتوں،آوازوں اورراگوں کااندازہ وقت اُسے خودکروادیتا ہے۔سارنگی،بانسری اورالغوزوں کی آوازیں اُس کے اندر کے وجود کو تارتارکردیتی ہیں،سارنگی کی تان پہ اس کا اَنگ اَنگ دہکنے لگتاہے،بانسری کی آواز اُسے پیچھے لے جاتی ہے۔پھاگن چیت میں کوئلوں کی کُوک اُس کے درد کو بڑھا دیتی ہے۔اورگندم کی ہری بھری فصلوں میں چھپ کر پٹاکتے تیتر اوربٹیر وں کے سندیسے،چمٹے کے ساتھ گائی جانے والی جگنی، دھنیے کی دھن دھن،آٹاچکی کی ٹوہ ٹوہ، خراس کی گھمرگھمر،پنگھٹ کی چرخی کی روں روں اوربچھڑے دوستوں کی ڈھولیں وہ کبھی بھول نہیں سکتا۔
”مینوں اٹھن بہن نہ سجھدا
میرا اندر بل بل بجھدا
کدی خوابے اندر آؤندا
پھیر جاگدیاں اٹھ جاؤندا
میں وانگ زلیخا پچھدی
گلّ یوسف مصر بازار دی“۔
بھارت کے مشہورنقاد،مصنف اورتاریخ دان خوشونت سنگھ ایک ایسے انسان تھے جو اتنے بڑے مقام تک پہنچ کر بھی اپنی مٹی کے عشق میں مبتلا رہے اورپھر 20مارچ 2014ء کو اُن کا وجود اُسی مٹی میں شامل ہوگیا جہاں سے ان کا خمیر اُٹھا تھا۔خوشونت سنگھ 2فروری 1915ء کوپاکستان کے ضلع خوشاب کے ایک گاؤں ہڈالی میں پیداہوئے تھے۔برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں پڑھنے کے بعد انہوں نے واپس لاہور جا کر وکالت شروع کر دی تاہم تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت دلی میں بس گئے۔ وہ کچھ عرصہ وزارت خارجہ میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔1951ء میں صحافی کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری اختیار کر لی جہاں سے ان کے تابناک کیریر کا آغاز ہوا۔ وہ بھارت کے مشہور جریدے السٹریٹڈ ویکلی کے ایڈیٹر رہے اور ان کے دور میں یہ جریدہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ خوشونت سنگھ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔
خوشونت سنگھ نے اپنی شناخت جہاں سیاسی طور پہ پوری دنیا میں کروائی وہیں ادبی سطح پر بھی اپنے فن کا لوہاپوری دنیا میں منوایا۔وہ اسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے ناول "ٹرین ٹو پاکستان" کو 1954ء میں عالمی شہرت یافتہ۹ گروو پریس ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے دو کالم بھارت کے چالیس انگریزی اخباروں میں چھپتے رہے۔ اُن کی کتاب "ٹروتھ لو ایند لٹل مالیس" جس کا ترجمہ نگارشات نے سچ محبت اور ذرا سا کینہ کے نام سے کیا۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ان کی مشور کتابوں میں دہلی، ڈیتھ از مائی ڈورسٹیپ بے حد شہرت کا حامل ہیں۔خوشونت سنگھ کو 1974ء میں پدم بھوشن ایورارڈ دیا گیا جسے انہوں نے 1984ء میں گولڈن ٹیمپل آپریشن کے بعد واپس کر دیا۔خوشونت سنگھ کو پنجاب رتن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور 1980ء سے لے کر 1986ء تک راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔

اتنے بڑے مقام اورمرتبے پہ پہنچ کر بھی خوشونت سنگھ اپنے آبائی گاؤں ہڈالی کو کبھی نہ بھولے۔اسی محبت میں وہ ایک دفعہ اپنے آبائی گاؤں ہڈالی بھی تشریف لائے۔اس موقع پر ہڈالی کے لوگوں نے اپنی مٹی کے اس بیٹے کا پُرتپاک استقبال کیا۔گورنمنٹ ہائی اسکول ہڈالی میں جب تقریب سے خطاب کرنے کے لیے خوشونت سنگھ سٹیج پہ تشریف لائے تو اُن کے سامنے سکول کا وہ ہال تھاجہاں وہ خود پڑھاکرتے تھے۔اُسی ہال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے نمناک آنکھوں سے اپنی یادوں کوتازہ کرتے ہوئے کہا”میری یہ خوش قسمتی ہے کہ آج اتنے عرصے بعد میں وہاں کھڑاہوں جہاں میں پڑھاکرتاتھا۔ڈالی میراقصبہ ہے اوراس ناتے میرے نزدیک اس کی اہمیت مسلمانوں کے کعبہ سے کم نہیں ہے،اورمجھے یہاں آکر انتی ہی خوشی ہوئی ہے جتنی کسی مسلمان کو حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہونے پر ہوتی ہے۔“‘اس کے بعد خوشونت سنگھ اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکے اورروتے ہوئے سٹیج سے اُترگئے۔
سجدہ ریز ہوا میں 
قشقہ کھینچا اپنے گاؤں کی مٹی سے
کیا سوندھی خوشبو ہے
کیسا لمس ہے
کیا ٹھنڈک ہے اس کی
مٹی، جو کھیتوں، کھلیانوں 
گلیوں، کوچوں 
اور گھروں کے کچے صحنوں اور چھتوں سے
اُڑتی اُڑتی سات سمندر پار کئی برس سے مجھ کو ڈھونڈ رہی تھی
اب میرے گھر تک پہنچی ہے
اس مٹی میں بول رہے ہیں 
گھر، گلیاں، روزن، دروازے
دیواریں، چھجے، پرنالے۔
ہڈالی کی معروف ادبی شخصیت محمد علی اسد بھٹی جن سے خوشونت سنگھ کا قلمی رابطہ مرتے دم تک جڑارہا،خوشونت سنگھ اُن سے اپنی مٹی سے محبت کا اظہارکئی بارکرتے رہے۔محمد علی اسدبھٹی جب اَدبی دورے پہ بھارت گئے تو خوشونت سنگھ خصوصی طورپہ اُن سے ملنے چندی گڑھ پہنچ گئے اورساری رات اُن سے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے رہے۔محمدعلی اسد بھٹی کے مطابق وہ بار باراپنے بچپن کی بات بتاتے اورپھر روتے رہتے،بارباراُن کی زبان پہ یہی الفاظ ہوتے”ہائے ہڈالی،ہائے ہڈالی“۔کسی انسان کی اپنی جنم بھومی،اپنی جائے پیدائش سے اتنی گہری محبت کی مثالیں بہت کم ملاکرتی ہیں۔
خوشونت سنگھ ذاتی طورپہ ایک متنازعہ شخصیت رہے لیکن یہ سچ ہے کہ انھوں نے جو عزت دنیا بھر میں اپنی بے باکی اورسچ کا پرچارکرنے پہ پائی وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔خوشونت سنگھ نے زندگی کی حقیقتوں کو سمجھااوربے باک ۹۹ سالہ زندگی گزاری۔وہ خود لکھتے ہیں کہ”زندگی میں کبھی ریٹائر نہ ہوئیے گا۔ کچھ نہ کرنے والے، کچھ بھی نہیں رہتے، اور اپنے انجام کی جانب جلد روانہ ہو پڑتے ہیں۔“اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں ”میری ایک بہت بڑی فکر، اپنے وطن میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ہے۔ ہم ایک  بزدل قوم بنے جا رہے ہیں جو وہ کتابیں جلاتی ہے جو ہمارے خیال میں ہمیں پسند نہیں ہوتیں، ہم فنکاروں کو ملک سے باہر نکال دیتے ہیں، اور مصوروں کو بے عزت کرتے ہیں۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں کو مسخ کر دیا ہے، ہم فلموں کو بین کرتے اور صحافیوں کو پیٹتے ہیں۔ آپ اگر اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو کمیونل (ذات، قوم، فرقہ وغیرہ) بنیادوں پر بنی جماعتوں سے اپنے وطن کو بچانا ہوگا۔ریاست کو کسی بھی قسم کے کسی مذہبی گروہ کی سرپرستی نہیں کرنی چاہئیے۔ حکومت کو یہ چاہئے کہ وہ مزید عبادت گاہوں کی تعمیر روکے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ عبادت گاہیں موجود ہیں۔چاپلوسی سے بڑی کرپشن نہیں ہو سکتی۔“
خوشونت سنگھ کے والد سردار سوبھا سنگھ کو ”آدھی دہلی کا مالک“ کہاجاتا تھا۔کیوں کہ انگریز دورمیں نئی دہلی کی تعمیرات کا ٹھیکہ سردارسوبھا سنگھ کو ملاتھا۔سوبھاسنگھ کی تعمیر کر دہ عمارات نے دارالحکومت نئی دہلی کو تعمیرات کے ذریعے جو زندگی بخشی وہ آج بھی نئی دہلی کی پہچان ہیں۔لاتعدادرہائشی اپارٹمنٹس کے علاوہ نئی دہلی کا دل کناٹ پیلس،کلمنز فوڈ ہال،آل انڈیا براڈ کاسٹنگ،نیشنل میوزیم دیال سنگھ کالج،ٹی بی ہسپتال،گونگوں اوربہروں کا ماڈرن ہسپتال،سینٹ کولمبیا سکول،ریڈکراس بلڈنگ،بروڈہ ہاؤس اورہائی کورٹ سمیت لا تعداد عمارات سوبھا سنگھ کی ہی تعمیرکردہ ہیں۔سردارسوبھا سنگھ نے جب نئی دہلی کی تعمیرات کا ٹھیکہ لیا،اس وقت دہلی کے امیرترین لوگوں میں سرفہرست تھے۔
خوشونت سنگھ اتنے بڑے مقام پہ پہنچ کر،دونوں ممالک کی چتقلش کے باوجودوہ اپنی مٹی سے جڑے رہے۔اپنی مٹی سے جڑی وہ سب آوازیں،وہ یادیں ان کی تحریروں کا حصہ رہیں۔ان کی یہ وفا،ان کا یہ عشق اس بات کا ثبوت ہے کہ عشق کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ہائی اسکول ہڈالی کے ہال کی دیوار میں خوشونت سنگھ کی وفات پر لگائی جانے والی یادگاری تختی پر تحریر ہے،””ایک سکھ،ایک دانشور اورہڈالی کا سپوت“۔۔۔۔اپنی جنم بھومی کے ساتھ عشق نے خوشونت سنگھ کو ہمیشہ کے لیے اَمر کردیاہے۔بے شک خوشونت سنگھ جیسے لوگ ہی بھارت پاکستان دونوں طرف کے لوگوں کے دلوں کے تار چھو سکتے ہیں۔
وہ قصہ گو
وہ باکمال شخص
وہ داستانِ عشق سنانے والا
مٹی سے اپنی وفا کے قصے
  سناسناکے رُلانے والا
سناہے وہ دھرتی کا بیٹا
دھرتی سے دوررہ کر بھی
اُسی دھرتی میں سوگیاہے
اُسی دھرتی میں سوگیا ہے

پیر، 9 ستمبر، 2019

فلسفہ شہادت حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ

 ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
 نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ‘ شہیدِ کربلا‘ سیّدنا حسین ابنِ علیؓ کی ذاتِ گرامی حق و صداقت‘ جرأت و شجاعت‘ عزم و استقلال‘ ایمان و عمل‘ ایثار و قربانی، تسلیم و رضا‘ اطاعتِ ربّانی‘ عشق و وفا اور صبر و رضا کی وہ بے مثال داستان ہے، جو پوری اسلامی تاریخ میں ایک منفرد مقام، تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/ 680 ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین کی روح کے منافی ظلم، جبر و استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا۔ بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا۔
 مدینۂ منوّرہ میں ایک مختصر حکم نامہ جاری ہوا، جس میں تحریر تھا، ’’حسینؓ‘ عبداللہ بن عُمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے‘ اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ لوگ بیعت کرلیں۔‘‘ (ابنِ اثیر/ الکامل 3/ 263)۔ بعد ازاں، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سرکارِ دوجہاںؐ کے نورِ نظر، سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ اپنے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اپنے نانا سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کی اتّباع میں یزید کے ظلم و جبرپر مبنی باطل نظام کے خلاف جرأتِ اظہار اور اعلانِ جہاد بلند کرتے ہوئے اُسوۂ پیمبری پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ امّتِ مسلمہ کو حق و صداقت اور دین پر مرمٹنے کا درس دیتے ہیں۔ خلقِ خدا کو اپنے ظالمانہ قوانین کا نشانہ بنانے والی اور محرّماتِ الٰہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائیاحتجاج بلندکرتے ہوئے ببانگِ دہل فرماتے ہیں، ’’لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم‘ محرّماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے‘ خدا کے عہد کو توڑنے والے‘ اللہ کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو اللہ کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے‘ آگاہ ہوجاؤ! ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے‘ اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے‘ مُلک میں فساد پھیلایا ہے‘ حدود اللہ کو معطّل کردیا ہے، یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصّہ زیادہ لیتے ہیں۔ انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے۔ اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے‘‘۔ (ابنِ اثیر / الکامل فی التّاریخ 4/ 40)۔

چناچہ  یہی وہ سب سے بڑاجہاد اور دینی فریضہ تھا، جس کی ادائیگی کے لیے نواسۂ رسولؐ‘ سیّدنا حسینؓ ابن علیؓ اُسوۂ پیمبری کی پیروی میں وقت کے ظالم و جابر حاکم، یزید کے خلاف ریگ زارِ کرب و بلا میں72 نفوسِ قدسیہ کے ہم راہ وارد ہوئے اور حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کی وہ بے مثال تاریخ رقم کی‘ جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ حق کے متوالے، باطل قوّتوں کے خلاف صف آرا مردانِ حق اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہیں گے۔ یہ ایک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ شہدائے کربلا نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جرأتِ اظہار اور باطل کے خلاف احتجاج اور جہاد کا ایک سلیقہ اور ولولہ عطا کیا۔ سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ کی صدائے حق نے مظلوم انسانیت کو ظالمانہ نظام کے خاتمے کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ اور حق نوائی کا درس دیا۔ حق کی آواز بلند کرنا‘ انسانی اقدار کا تحفّظ اور دین کی سربلندی، دراصل اُسوۂ پیمبری اور شیوۂ شبّیری ہے۔ شہدائے کربلا کا فلسفہ اور پیغام یہی ہے کہ حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔


نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ‘ شہیدِ کربلا‘ سیّدنا حسین ابنِ علیؓ نے رحمٰن و رحیم پاک پروردگار کے حضور اپنی آخری مناجات میں فرمایا، ’’اے معبودِ برحق، اے صاحبِ مغفرت اور بلندمرتبت، اے شدید غضب والے، تیری قدرت ہر قدرت سے بڑھ کر ہے، تُو اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے،تیری کبریائی ہر شے پر چھائی ہوئی ہے۔ تُو اِس پر قادر ہے کہ جو چاہے انجام دے، تیری رحمت اپنے بندوں سے نزدیک تر ہے، تیراوعدہ سچاہے، تیری بخشش ہر سُو پھیلی ہوئی ہے۔ اپنی مخلوقات پر تیری مکمل گرفت ہے، جو کوئی توبہ کرے، تُو اس کی توبہ قبو ل کرنے والا ہے، تُو جو ارادہ کرے، اُسے انجام دینے پر قدرت رکھتا ہے اور جو چاہے حاصل کرسکتا ہے۔ تیرا شکر ادا کیا جائے، تو شُکر گزاری قبول کرتا ہے اور جب تیرا ذکر ہو، ذکر کرنے والے کو یاد رکھتا ہے۔ مَیں تجھے ایسی حالت میں پکار رہا ہوں کہ تیری مدد کی مجھے ضرورت ہے اور ایسی حالت میں تیری جانب میری توجّہ ہے کہ سخت آزمائش اور ابتلاء میں ہوں۔ اِس حزن و الم میں، مَیں تجھے پکار رہا ہوں اور تیرے سامنے اپنے درد و غم کے لیے گریہ و زاری کرتا ہوں اور کمزوری کے عالم میں تجھ ہی سے مدد طلب کرتا ہوں۔

تجھ ہی پر میرا انحصار ہے اور تُو ہی میرے لیے کافی ہے …پس اے پروردگار، ہمارے لیے مدد اور راہِ نجات عطا کر۔ اے سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے‘‘۔ بعدازاں، شہیدِ کربلا، امام حسینؓ نے اپنی مناجات ان جملوں پر ختم کی، ’’صبراً علیٰ قضاۂ‘‘۔ بارالٰہا،ہم تیری قضا و قدر کے سامنے صابر و شاکر ہیں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اے فریاد کرنے والوں کے فریاد رس، تیرے سوا میرا کوئی پالنہار نہیں اور نہ ہی کوئی معبود ہے، مَیں تیرے حُکم پر صبر کرنے والا ہوں۔ اے اُس کی مدد کرنے والے، جس کا کوئی مدد گار نہ ہو، اے ہمیشہ زندہ رہنے والے، جس کا کوئی اختتام نہیں، اے مُردوں کو زندہ کرنے والے اور ہر ایک کے اعمال کے مطابق اُس کا حساب کرنے والے تُو ہی میرے اور اِن (لوگوں) کے درمیان فیصلہ فرما، اور تُو ہی فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ پھر آپ نے اپنی جبین ِ نیاز خاک ِکربلاپر رکھ کر فرمایا، ’’بِسمِ اللہِ و بِاللِّٰہ وفی سبیلِ اللہِ وَعلیٰ ملّۃِ رسول اللہ‘‘۔ اور حالتِ سجدہ میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ ایسا سجدہ کیا کہ جس پرتا ابد سجدوں کو ناز رہیگا۔ شہادتِ 
عظمیٰ کے ایسے بلند مراتب پر فائز ہوئے، جو شہادتوں کیلیے سرمایۂ افتخار ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ انسانی کی دو قربانیاں پوری تاریخ میں منفرد مقام اور نہایت عظمت و اہمیت کی حامل ہیں، ایک امام
 الانبیاء، سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ﷺ کے جدِ اعلیٰ حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کی قربانی اور دوسری نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ کی قربانی۔ دونوں قربانیوں کا پس منظر غیبی اشارہ اورایک خواب تھا، دونوں نے سرتسلیم جُھکا دیا اور یوں خواب کی تعبیر میں ایک عظیم قربانی وجود میں آئی۔ روایت کے مطابق جب سیّدنا حسین ابنِ علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور روکنے والوں نے آپ کو روکنا چاہا، تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں ایک بات فرمائی، ’’مَیں نے (اپنے نانا) رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، آپؐ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک دینی فریضہ انجام دینے کا حکم دیا ہے، اب بہرحال میں یہ فریضہ انجام دوں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ وہ خواب کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا، ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتائوں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزّوجل سے جاملوں‘‘ (ابنِ جریر طبری 5/388، ابن کثیر/البدایہ والنہایہ 8/168)۔ ابراہیمؑ کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور سیّدنا حسینؓ کا خواب دس محرم 61ھ کو تعبیر آشنا ہوا، دونوں خوابوں کی تعبیر قربانی تھی، دس ذی الحجہ کو منیٰ میں یہ خواب اپنے ظاہر میں رُونما ہوا اور دس محرم کو سرزمین کربلا پر اپنی باطنی حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔

یوں باپ نے جس طرزِ قربانی کا آغاز کیا تھا، تسلیم و رضا اور صبر و وفا کے پیکر فرزند نے پوری تابانیوں کے ساتھ اس عظیم سنّت کو مکمل کیا۔ حضرت اسماعیلؑ سیجس سنّت کی ابتدا ہوئی تھی، سیّدنا حسینؓ پر اُس کی انتہا ہوئی۔ سیّدنا ابراہیمؑ و اسماعیلؑ اور حضرت حسینؓ کی قربانیوں میں یہی جذبۂ عشق و محبت کارفرما تھا۔ اسی لیے یہ قربانیاں آج تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گی۔ شہدائے کربلاؓ کے قافلہ سالار امام حسینؓ اور ان کے رفقاء معرکۂ حق و باطل، اعلیٰ انسانی اقدار کی بقا میں حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کا علَم بلند کر کے، اپنے رب کی رضا، اعلیٰ انسانی اقدار کی بقا، دین مبین کی سربلندی اور شریعتِ مصطفٰیؐ کے تحفّظ کے لیے ریگ زارِ کرب و بلا میں جرأت و استقامت کی بے مثال تاریخ رقم کرکے یہ پیغام دے گئے کہ ؎

شدیم خاک و لیکن زبوئے تربتِ ما

تواں شناخت کزیں خاکِ مردمی خیزد

(ہم خاک ہوگئے، لیکن ہماری تربت کی خوش بو سے ہمیں پہچانا جاسکتا ہے کہ اس خاک سے بھی مردانگی پھوٹ رہی ہے)۔

شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ کے متعلق بجاطور پر کہا گیا ہے ؎

شاہ است حسینؓ،پادشاہ است حسینؓ

دیں است حسینؓ، دیں پناہ است حسینؓ

سرداد، نہ داد دست در دستِ یزید

حقّا کہ بنائے لاالہٰ است حسینؓ

نواسۂ رسولؐ‘ حضرت امام حسینؓ کی یہی وہ عظیم قربانی اور کعبۃ اللہ کی عظمت و حرمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا عظیم جذبہ اور داستانِ حرم ہے‘ جس کے متعلّق شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال نے کہا تھا ؎

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسمٰعیلؑ 
بشکریہ جنگ۔۔۔۔۔۔۔ اس مضمون کو قارئین کی دلچسپی و معلومات کے لیے شائع کیا جارہا ہے کسی بھی قسم کی مذہبی یا تاریخی غلطی کی صورت میں فوری طور پر نشاندہی کی جاسکتی ہے تاکہ اسکی بلاتاخیر درستگی کی جاسکے

کالی شلوار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعادت حسن منٹو

Related image


 دہلی سے آنے سے پہلے وہ انبالہ چھانی میں تھی، جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ یہاں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روزاس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ دِس لیف…. ویری بیڈ۔ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے، جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔ 
انبالہ چھانی میں اس کا دھندا بہت اچھا چلتا تھا۔ چھانی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں میں ہی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس تیس روپے پیدا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔ صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتی۔ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ اپنی زبان میں گالیاں دینی شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ کہتی۔ صاحب! تم ایک دم الو کا پٹھا ہے، حرامزاد ہے، سمجھا۔ یہ کہتے وقت وہ لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔

 مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک بھی گورا اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے یہ سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہگوں سے خدا جھوٹ نہ بلوائے ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی نہ مانتا تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتلایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہیں دیں گے۔ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس کہا۔ دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی؛ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جا۔ چٹھے آدمی نے یہ سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں ….دروازہ بند کرکے اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا لایئے ایک روپے دودھ کا۔ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی چونی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا مال غنیمت ہے۔ 

 ساڑھے اٹھارہ روپے ماہوار تین مہینوں میں…. بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لئے اس پاخانہ میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکتی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ کر اس نے یہ خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص طور سے ہم لوگوں کی رہائش کے لئے تیار کئیکئے گئے ہیں، یہ زنجیر اس لئے لٹکائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی زنجیر پکڑ کر اس نے اٹھنا چاہا اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

 خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کاسامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائیڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے کہنے لگا کیا ہوا…. چیخ تمہاری تھی۔

 سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ یہ موا پیخانہ ہے کیا…. بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمر میں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ ایسا دھماکا ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔ اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانہ کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی 
نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔

خدابخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس 
نے لاری چلانا سیکھا۔ چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگاکر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا اس لئے اس نے اس عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے وہ اس کی تلاش میں انبالہ آیا۔ اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔ خدابخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ 

عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی اس لئے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہوگئی چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔ خدا بخش آدمی محنتی تھا۔

 وہ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیداکی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بھی بنوایا۔ دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔

 کام چل نکلا چنانچہ اس نے تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنا اڈا انبالہ چھانی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھانی کے متعدد لوگوں سے واقفیت ہوگئی چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھانی میں خدا بخش کے ذریعے سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دو گنی ہو گئی۔

 سلطانہ نے کانوں کے لئے بندے خریدے، ساڑھے پانچ تولہ کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں، دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں۔ گھر میں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھانی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ وہ خدا بخش کو اپنے لئے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی شہر کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاکی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔ 

 ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لئے مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ تھے۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لئے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوتی تھی، پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔ یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے۔ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔ 

 اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں مثلا بڑے بڑے حروف میں جہاں کوئلوں کی دکان لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بالی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں شرفاکے کھانے کا اعلی انتظام ہے لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اس کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لئے وہ رات کو انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔ 

 دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔ کیابات ہے خدا بخش! دو مہینے آج پورے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ ہی نہیں کیا…. مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے پر اتنا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل ہی دیکھنے نہ آئے۔ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی، مگر وہ خاموش تھا پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا میں کئی دن سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ لوگ باگ جنگ دھندوں میں پڑنے کی وجہ سے بھاگ کر دوسرے دھندوں میں ادھر کا راستہ بھول گئے…. یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ …. وہ اس سے آگے کچھ کہنے ہی والاتھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہو ئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے۔

 بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے کھانا پینا کپڑے لتے۔ دوا اور دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں آئیں تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ میں بنوائیں تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔ تم میری سنو اور چلو واپس انبالہ، یہاں کیا دھراہے۔ بھئی ہو گا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں۔ تمہاراکام وہاں خوب چلتا تھا، چلو وہیں چلتے ہیں، جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ یہ آخری کنگنی بیچ کر آ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج را ت کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔

 خدابخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا نہیں جانِ من! انبالہ اب نہیں جائیں گے یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں پر بھی کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔ سلطانہ چپ ہو رہی چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ 

بچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت رنج ہوتا تھا پر کیا کرتی پیٹ کو بھی آخر کسی حیلے بھرنا تھا۔

 جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی، کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے پرانے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی بالکونی میں آکر جنگلے کے پاس کھڑی ہو جاتی تھی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔

 سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک اور پھک پھک کی صدائیں گونجتی رہتی تھیں۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بال بھی ایک عجیب شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور ہولے ہولے ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہوں اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور خود بخود جارہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے…. نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا کہ جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو۔

 یوں تو بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیات اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھانی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب توکبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہوا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہاہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔

 سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیالات اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو ۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کردی جان من…. میں باہر کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں بیڑا پار ہو جائے گا۔ پورے پانچ مہینے ہوگئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا اور نہ خدا بخش کا۔ 

 محرم کا مہینہ آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لئے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انور ی نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لئے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ 

 انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش بھی حسب معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گا تکیہ کو سر کے نیچے رکھے لیٹی رہی پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو وہ اٹھ کر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ سے نکال دے۔ 

 سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے۔ پر انجن کوئی بھی نہیں تھا۔ شام کا وقت تھا چھڑکا ہوچکا تھا۔ اس لئے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تانک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔ 

 سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے پھر سڑک کی طرف دیکھا تو وہی آدمی بیل گاڑیوں کے پاس کھڑا نظر آیا۔ وہی جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کدھر سے آں؟ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔ سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لئے کہا آپ اوپر آتے ہوئے ڈر رہے تھے۔ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا…. ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟ اس پر سلطانہ نے کہا کہ یہ میں نے اس لئے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔ وہ یہ سن کر مسکرا دیا تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لئے اور ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو اچھی لگتی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا آپ جا رہے ہیں۔ آدمی نے جواب دیا۔ نہیں میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں…. چلو مجھے تمام کمرے دکھا۔

 سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا جائزہ لیا۔ جب وہ دنوں پھر اسی کمرہ میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تھے تو اس آدمی نے کہا میرا نام شنکر ہے۔

 سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا انسان تھا۔ مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گھٹا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔ 

 شنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا چنانچہ اس نے شنکر سے کہا فرمایئے…. شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔ میں کیا فرماں، کچھ تم ہی فرما، بلایا تم نے ہے مجھے۔ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو اٹھ بیٹھا۔ میں سمجھا، لو اب مجھ سے سنو جو کچھ تم نے سمجھا ہے غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے جایاکرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینی ہی پڑتی ہے۔ 


 سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی۔ مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ شنکر نے جواب دیا یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔ کیا؟ میں….میں…. کچھ بھی نہیں کرتی۔ میں بھی کچھ نہیں کرتا۔ سلطانہ نے بھنا کر کہا یہ کوئی بات نہ ہوئی…. آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔ شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا تم بھی کچھ نہ کچھ ضرورر کرتی ہوگی۔ جھک مارتی ہوں۔ تو آ دونوں جھک ماریں۔ میں حاضر ہوں۔ مگر میں جھک مارنے کے دام کبھی نہیں دیا کرتا۔ ہوش کی دوا کرو….یہ لنگر خانہ نہیں۔ اور میں بھی والنٹیئر نہیں ہو! سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا یہ والنٹیئر کون ہوتے ہیں؟ شنکر نے جواب دیا۔ 


الو کے پٹھے۔ میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔ مگر وہ آدمی جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الو کا پٹھا ہے۔ کیوں؟

 اس لئے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جا رہاہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔ یہ کہہ کر شنکر ہنسا


اس پر سلطانہ نے کہا۔ تم ہندو ہو اس لئے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔ شنکر مسکرا دیا۔ ایسی جگہوں پر ہندو مسلم کا سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت مولوی اگر یہاں آئیں تو وہ شریف آدمی بن جائیں۔ جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو….بولو، رہو گے اسی شرط پر جو میں پہلے بتا چکاہوں۔ سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ تو جا رستہ پکڑو۔ 

 شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا…. میں بہت کام کا آدمی ہوں۔ 

 شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں وہ خوش حال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں ا س آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا یہاں چونکہ وہ اداس رہتی تھی اس لئے شنکر کی باتیں پسند آئیں۔

 شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا کہنے لگا پرانے قلعے سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھرجائیں۔ کچھ انہوں نے تم سے کہا۔

 نہیں ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے…. پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہاہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہوجائیں گے۔

سلطانہ کے دماغ میں محرم بنانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ نہ کہیں جا سکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے۔ کچھ تم نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں۔گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بک گئیں۔ اب تم ہی بتا کہ کیاہوگا؟…. یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کروگے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔ 

 خدابخش دری پر لیٹ گیا اورکہنے لگا۔ پر یہ کام شروع کرنے کے لئے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہئے…. خدا کے لئے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی تھی۔ پر جو کرتا ہے اللہ ہی 
کرتاہے اور ہماری بہتری ہی کیلئے کرتاہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہم…. سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔

تم خدا کے لئے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو پرمجھے شلوار کا کپڑا لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہوئی ہے اس کو میں کالا رنگوا لوں گی۔ سفید شفون کا ایک دوپٹا بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے دیوالی پر مجھے لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو…. دیکھو تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو…. میری بھتی نہ کھا اگر نہ لا۔

 خدابخش اٹھ بیٹھا۔ اب تم خواہ مخواہ زور دئے چلی جا رہی ہو…. میں کہاں سے لاں گا…. افیم کھانے کے لئے تو میرے پاس پیسے نہیں۔کچھ بھی کرو مگر ساڑھے چار گز کالی شلوار کا کپڑا لا دو۔ د

عا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین بندے بھیج دے۔لیکن تم کچھ نہیں کرو گے…. تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی۔ اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ لو اب ان باتوں کو بھول جا۔ میں ہوٹل سے کھانا لاتا ہوں۔ 

 ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سوگئے۔ صبح ہوئی۔ خدابخش پرانے قلعہ والے فقیر کے پاس چلا گیا۔ سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی۔ کچھ دیر سوئی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا شفون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لئے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ 

 یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی۔ قریبا ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آرہے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوا۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتا اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔ 

 جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اسے کیا کہے۔ در اصل اس نے ایسے ہی بنا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح گا تکیہ کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا تم سو دفعہ مجھے بلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جا…. میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔ 

 سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی کہنے لگی۔ نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔شنکر اس پر مسکر ادیا۔ تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔کیسی شرطیں؟ سلطانہ نے ہنس کر کہا کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے ؟نکاح اور شادی کیسی؟….نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کروگی، نہ میں…. یہ رسمیں ہم لوگوں کے لئے نہیں….چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو۔ بولو کیا کروں؟ تم عورت ہو….کوئی ایسی بات کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے…. اس دل میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔

 سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی، صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ جو دوسرے چاہتے ہیں۔ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔ سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی، پھر کہا میں سمجھ گئی ہوں! تو کہو کیا ارادہ ہے؟ تم جیتے، میں ہاری، پر میں کہتی ہوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔

 تم غلط کہتی ہو…. اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو یقین نہیں کریں گی کہ کیا عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو لیکن ان کے یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو…. تمہارا نام سلطانہ ہے نا۔ سلطانہ ہی ہے۔ شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ میرا نام شنکر ہے…. یہ نام بھی عجب اوٹ پنانگ ہوتے ہیں۔ چلو اندر چلیں۔


 شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ شنکر تم میری ایک بات مانو گے؟ شنکر نے جوابا کہا۔ پہلے بات تو بتا؟ سلطانہ کچھ جھنیپ سی گئی۔ تم کہوگے میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں، مگر…. کہو کہو، ….رک کیوں گئی ہو؟ سلطانہ نے جرت سے کام لے کر کہا۔ بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم سن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لئے دے دیاہے! شنکر نے یہ سن کر کہاتم چاہتی ہوکہ میں تمہیں کچھ روپے دوں جو تم کالی شلوار بنا سکو۔ سلطانہ نے فورا ہی کہا۔ نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔ 

 شنکر مسکرایا۔ میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لو بس اب تو خوش ہو گئیں۔ پھر سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟ 

 سلطانہ نے ہنس کر کہا تم انہیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہو نگے۔ اس پر شنکر نے ہنس کر کہا میں نے تم سے بندے مانگے ہیں ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ بولو دیتی ہو؟ لے لو یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اتار کر شنکر کو دے دئے۔ اس کو بعد میں افسوس ہوا، لیکن شنکر جا چکا تھا۔ 

 سلطانہ کو قطعا یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پوراکرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبارمیں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا شاید لمبی ہو…. اب میں چلتاہوں۔

 شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں، بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیاہے۔ 

 سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔ 

 دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگین قمیض اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لئے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے، کب بنوائی؟

 سلطانہ نے جواب دیاآج ہی درزی لایا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں۔ یہ بندے تم نے کہاں سے لئے؟ مختار نے جواب دیا آج ہی منگوائے ہیں۔ اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔

ہفتہ، 7 ستمبر، 2019

میں اپنے اَفسانوں میں تمہیں پھر مِلوں گا۔۔۔منشایاد

یادرفتگاں
کہتے ہیں یادیں دلوں میں بستی ہیں پر یہ بھی سچ ہے کہ دلوں میں یادیں انہی کی بستی ہیں جو دلوں کے قریب ہوتے ہیں۔کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں اکثر اوقات آنکھیں آنسوؤں سے دھوتی رہتی ہیں، تاکہ کوئی گزرا ہوا لمحہ وقت کے گرد و غبار میں گم نہ ہو جائے۔ایسے ہی اُردواورپنجابی کے نامورافسانہ نگاروادیب منشایادکے ساتھ جُڑی میری کچھ یادیں ہیں جومجھے اپنے حصارمیں لیے رکھتی ہیں۔ اُردواُفق پہ منشا یاد کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔آپ ۵ستمبر۷۳۹۱ء کو موضع ٹھٹھہ نشتربراستہ فاروق آباد،تحصیل و ضلع شیخوپورہ (پنجاب) پاکستان میں پیدا ہوئے۔آپ کے دادا کا نام غلام محمد حکیم تھا۔غلام محمد حکیم پیشے کے لحاظ سے طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔غلام محمد حکیم نے طب اپنے ماموں زاد حکیم مولا داد سے سیکھی۔منشا یاد کے داد ا غلام محمد حکیم سے طب و حکمت منشا یاد کے چچا محمدخلیل کو منتقل ہوگئی۔منشا یاد کے والد کا نام نذیر احمد تھا۔نذیراحمدپہلے زراعت کے شعبے سے وابستہ رہے مگر بعد میں طب کاپیشہ اختیار کیا۔ آپ کی والدہ کا نام بشیرہ بی بی بنت محمد اسمعٰیل تھا۔ بشیرہ بی بی ایک نیک اور پرہیزگار خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھنے کا شوق بھی رکھتی تھیں۔خاص طورپر پنجابی اَدب کا مطالعہ بہت دلچسپی سے کرتی تھیں۔ اپنے اَفسانوی مجموعہ ”شہر فسانہ “ کے حرفِ دوم میں منشاء یاد اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ان کی تعلیم دینی اور مکتبی تھی۔۔ ماں جی اور پھوپھی گھر کا کام کاج کرتے ہوئے اکثر بارہ ماہوں، دو ہڑوں اور سی حرفیوں کے ابیات گنگناتی رہتیں رات کو گھر میں خوب 
 محفل جمتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) منشا یاد کو شعر و اَدب کا ماحول گھر ہی سے ملا۔اگر یہ کہا جائے کہ منشایاد کو اَدب سے دلچسپی ماں جی سے ورثے میں ملی، تو غلط نہ ہوگا۔منشا یاد خود بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔اس حوالے سے اسلم سراج الدین لکھتے ہیں کہ: منشا یاد کے دو ماموں تھے جو اَب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔بڑے غلام محمد،جو ان کی بہن زہرہ کے سسر اور شاعر بھانجے خلیق الرحمن کے دادا تھے،مذہبی سکالر اور شعر و اَدب کا اچھا ذوق رکھنے والے بزرگ تھے۔منشا یادکا خیال ہے کہ ان میں اَدبی ذوق والدہ کے توسط سے ننھیال کی طرف سے آیا۔ (۲) منشا یاد نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں گجیانہ میں حاصل کی۔ پھر منشا یاد کے والد نے ماسٹر رحمت اللہ کے مشورے سے آپ کو ایم بی ہائی سکول نمبر ۱ حافظ آباد میں داخل کروایا۔لیکن یہاں آپ کو دوبارہ پانچویں جماعت میں ہی داخلہ ملا،اور ۵۵۹۱ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان بھی یہاں سے ہی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ۷۵۹۱ء میں جی ایس ای رسول سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ ۴۶۹۱ء میں ادیب فاضل کورس،پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ ۵۶۹۱ء میں بی۔اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد ۷۶۔۵۶۹۱ء میں حشمت علی اسلامیہ کالج راولپنڈی سے اُردو میں ایم۔اے کیا۔پھر ۶۷۔۰۷۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی زبان میں پرائیویٹ طور پر ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۸۵۹۱ء سے ۰۶۹۱ء تک آپ پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ بحالیات اور بعدازاں دارالحکوت کے ادارے (سی ڈی اے، اسلام آباد) میں بحیثیت سب انجینئر/ اسسٹنٹ انجینئر /ایگزیکٹو انجینئر،کے عہدوں پر فائز رہے۔پھر۰۶۹۱ء تا ۷۹۹۱ء میں افسر تعلقات عامہ اور افسر اعلی شکایات کے عہدوں پر اپنے فرائض سر انجام دینے کے بعد یہاں سے ڈپٹی ڈائریکٹرکے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ منشایادنے اَدبی سفرکاآغازنہ صرف کہانیوں سے بلکہ کہانیوں کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی کیا۔اوریہاں پر انھوں نے اپناتخلص یادؔاستعمال کیا۔مگر دوست احباب کے سمجھانے پر شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کیا اور صرف کہانیوں اور نثری تخلیقات کی طرف توجہ دی۔ اس حوالے سے منشا یاد ”شہرِفسانہ“کے حرفِ دوم میں یوں بیان کرتے ہیں: عفوان شباب میں ہر شخص آدھاشاعر تو ضرور ہوتا ہے۔میں بھی تھا۔شروع میں کہانیوں کے علاوہ شاعری بھی کرتا تھا۔ لیکن پھر چھوڑدی۔کیوں؟۔پہلی بات تویہ کہ شاعری کے انسپائریشن کا ہوناضروری ہے۔ادھر یہ چاند جلدہی غروب ہوگیا،اب اماوس میں کیا سجھائی دیتا۔دوسری بات یہ کہ بعض رسالوں میں اس قسم کے اعلانات چھپتے دیکھے کہ مہربانی کرکے ہمیں نظمیں،غزلیں نہ بھجوائی جائیں ان کا ذخیرہ بہت ہوگیاہے۔ہمیں نثری تخلیقات کی ضرورت ہے۔تیسرے یہ کہ شاعرتو پہلے ہی بہت تھے سوچاشاعری چھوڑ دی تو کچھ فرق نہ پڑے گا مگر نثر نہیں چھوڑی جاسکتی تھی۔کیوں کہ کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں 
 جو صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۳) ۵۵۹۱ء میں منشایادکاپہلاافسانہ ”کنول“ کے عنوان سے رسالہ ”شمع“لاہور میں شائع ہوااس کے بعد ان کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آئیں ان کتب کو علمی و ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین دیکھا: بند مٹھی میں جگنو (۵۷۹۱ء)،ٹانواں ٹانواں تارا (پنجابی ناول) ۷۷۹۱ء، ماس اور مٹی ۰۸۹۱ء، خلا اندر خلا۳۸۹۱ء، و قت اور سمندر ۴۸۹۱ء،وَگداپانی(پنجابی (شاہ مکھی اور گور مکھی) ۷۸۹۱ء، درخت آدمی ۰۹۹۱ء، دور کی آواز ۴۹۹۱ء،تماشا ۵۹۹۱ء،شہر فسانہ ۳۰۰۲ء،خواب سرائے ۵۰۰۲ء،انھاں کھوہ (گور مکھی) ۹۰۰۲ء، اک کنکر ٹھہرے پانی میں ۰۱۰۲ء،منشائیے (شگفتہ تحریریں) ۱۱۰۲ء اور راہیں ۳۱۰۲ء۔علاو ہ اَزیں منشا یاد اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب ”یادیں“ بھی تحریر کر رہے تھے۔ مگر بوجہ رحلت وہ اس کو مکمل نہ کر سکے۔ زیرِ نظر اُردو ناول ”راہیں“ بھی ان کی وفات کے بعد شائع ہوا جس کا حرفِ آغاز ان کی بیگم فرحت نسیم نے تحریر کیا۔ منشایادنے اسلام آباد میں پہلی اَدبی تنظیم حلقہ اَربابِ ذوق کی بنیاد رکھی،دسمبر ۲۷۹۱ء میں حلقہ اَربابِ ذوق اسلام آباد کی ایک ادبی حوالے سے انٹرنیٹ پر ایک ویب سائٹ (htt://halqaone2.tripad.com.1)بنائی اوراسے ہر ہفتے کی ادبی کاروائی بمع تصاویرکے ساتھ اَپ ڈیٹ کرتے رہتے۔اس کے ساتھ ہی اسلام آباد میں لکھنے والوں کی انجمن،بزم کتاب،رابطہ اور فکشن فورم جیسی اہم تنظیمں قائم کیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اسلام آباد میں حلقہ اَربابِ ذوق اور دیگر اَدبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے مختلف اخبارات میں کالم نگاری اورادبی رپورٹس لکھتے رہے اسلام آباد کے مختلف نمائندہ اخبارات تعمیر، نوائے وقت، مشرق،جنگ اور ہمدرداسلام آباد کے ادبی صفحات میں آپ نے بھرپور طبع آزمائی کی۔ منشایادنے اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کے مسائل کو چھوا،محسوس کیا،خود پر طاری کیا اور اسے کہانی کی شکل میں ہمارے سامنے لائے۔آپ نے اپنے دیہات کی سونی مٹی سے اپنی محبت کا اظہار اَفسانوں کی صورت میں کیا۔ منشا یاد کو اپنے عہد کے اَفسانہ نگاروں میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے دیہات کی عکاسی میں فکر کے ساتھ فن کے تجربے بھی کیے ہیں۔چونکہ وہ خود دیہات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سادہ دل دیہاتیوں کے غم اور خوشی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے اَفسانوں میں سادہ لوح دیہاتی اور ان کی بے لوث زندگی، خلوص، مہمان نوازی، رسم و رواج، غم، خوشیاں، دوستیاں، دشمنیاں، خود داری کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ انھوں نے دیہاتی زندگی کی تصویر کشی اس انداز میں کی ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا اور قاری کے سامنے دیہاتی زندگی اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ گھومنے لگتی ہے۔آپ نے دیگر جدید اَفسانہ نگاروں کے برعکس گھمبیر اور گہری علامتوں کے بجائے ہلکی پھلکی علامتوں اور استعاروں کا استعمال کیا۔ منشا یاد جہاں روایت سے جڑے ہوئے ہیں وہیں وہ روایت میں نیا پن پیدا کرتے ہیں۔ ان کے اَفسانے جہاں کلاسیکی طرز لیے ہوئے ہیں وہیں جدت کی ہم آہنگی کلاسیکی انداز کو ایک نئے معنی عطا کر رہی ہے۔ منشایاد اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔تمام ملنے والوں سے اخلاق اور اخلاص سے بھر پور بر تاؤکرنا ان کا شیوہ تھا جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا وہ ان کی وضع داری اور حسن سلوک کا شیدائی ہو جاتا تھا۔۰۱مئی ۰۱۰۲ء کو راقم کی منشایادسے پہلی ملاقات ہوئی۔انٹرنیٹ پہ جناب منشایادکاٹیلی فون نمبر ڈھونڈااوردھڑکتے دِل کے ساتھ ان سے بات کی۔دل میں بارباریہی خیال آرہاتھاکہ اتنے بڑے آدمی مجھ ناچیز سے نہ جانے کیسے بات کرتے ہیں،میں نے فون پہ ملاقات کی درخواست کی توکہنے لگے ”جب بھی اسلام آبادآناہوتو مجھے بتادیناملاقات ضرورکریں گے۔“آپ کے محبت بھرے لہجے نے ملاقات کے اشتیاق کومزید بڑھادیا،اس لیے پہلی فرصت میں خوشاب کی مشہورسوغات ڈھوڈالے کر آپ کی خدمت میں جاپہنچا۔ٹیکسی پہ جب میں آپ کے گھر پہنچاتو آپ باہر کھڑے میراانتظارکررہے تھے۔گیٹ کے باہر نیم پلیٹ پہ ”افسانہ منزل“لکھادیکھ کر آپ کی افسانے سے محبت نظرآرہی تھی۔اندربیٹھے تو رسمی ساتعارف کرواتے ہوئے میں نے کہا”سرمیں خوشاب سے احمدندیم قاسمی اورواصف علی واصف کی سرزمین سے،یہ آپ کے لیے خوشاب کا ڈھوڈالایاہوں“چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری پھر خلامیں جھانکتے ہوئے بولے ”ہاں وہ مجھے تم سے اُن کی خوشبو آرہی تھی۔“ چائے کے ساتھ گپ شپ رہی۔میری زیادہ تر گفتگو کا موضوع ان کا مشہورڈراما”راہیں“تھا۔اُن دنوں وہ پنجابی ناول”ٹانواں ٹانواں تارا“کو اُردومیں ڈھال رہے تھے۔ان کی اسسٹنٹ کمپیوٹرپہ کمپوزکررہی تھی مگر میں نے منشایادکے اندرکمپیوٹرپہ کام کے حوالے سے زیادہ دلچسپی دیکھی جب میں نے انھیں بتایاکہ میں اپنے علاقے میں کمپیوٹر ٹرینر رہ چکا ہوں تو وہ مجھ سے کمپیوٹر کے حوالے سے کئی باتیں پوچھنے لگے ان کا شوق اوردلچسپی مجھے ان کی شخصیت سے مزید متاثر کررہی تھی۔اس ملاقات میں منشایادنے مجھے اپنامجموعہ ”شہرِفسانہ“اپنے دستخط کرکے دیاتوخوشی کی انتہانہ رہی۔واپسی کے سفر میں سارے رستے میں اپنی قسمت کو داددیتا رہا۔اس کے بعد جب بھی اسلام آبادکاچکرلگتا میری کوشش ہوتی ان سے ملاقات ضرور کروں۔اگر وہ مصروف ہوتے تو فون پہ بتادیتے۔ایک دن ان کونیشنل بُک فاؤنڈیشن جاناتھااورمیں اس دن اسلام آبادتھا۔میں نے ملنے کی درخواست کی توانھوں نے بتایاکہ وہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن سے فارغ ہوکرمطلع کردیں گے۔مجھے کسی کام کی وجہ سے واپس جلدآناپڑاجب میں ابھی راستے میں ہی تھاتوانھوں نے اپنے موبائل سے مجھے کال کی کہ میں اب فارغ تھاتو آپ ملنے آسکتے ہیں۔میں نے معذرت کی تو بڑے پیارسے کہنے لگے چلوکوئی بات نہیں پھر کبھی سہی۔ محبت بھرے اس تعلق کو ابھی کچھ ہی عرصہ گزراتھاکہ۵۱۔اکتوبر۱۱۰۲ء کوایک دوست کی کال آئی کہ ٹی وی پہ خبر آئی ہے کہ منشایاداسلام آبادمیں انتقال کرگئے ہیں۔یہ خبر سن کر شدید صدمے سے دوچارہوا۔بارباران کا محبت بھراچہرہ سامنے آجاتا۔دل اُن کے جانے کو تسلیم ہی نہ کرتا۔اُن کی ذات میرے لیے سایہ پدری کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے آج تک کبھی خود کو اُن کی ذات سے الگ نہیں کرپایا۔ ممتازمفتی نے الکھ نگری میں قدرت اللہ شہاب کی وفات پہ لکھاتھاکہ مرنے کے بعدبھی شہاب نے مجھے اکیلا نہیں ہونے دیا۔اُلٹاوفات کے بعدوہ میرے اندر رَچ بس گیا ہے۔ میرے اورقریب آگیا ہے کہ قدرت اللہ زندگی میں مجھ سے ملا،یہ میرے اللہ کی مجھ پر سب سے بڑی کرم نوازی ہے کہ وفات کے بعد بھی اس نے میراساتھ نہیں چھوڑا۔“ میں سمجھتا ہوں کہ ممتازمفتی کے لیے جو شہاب تھے وہ میرے لیے منشایادتھے۔۱۱۰۲ء سے لے کر آج تک کبھی یہ نہیں ہواکہ کبھی وہ مجھ سے جداہوئے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ ۵ستمبر کو جب افسانہ منزل اسلام آباد،راولپنڈی،لاہور اور دیگربڑے شہروں کی اَدبی تنظیموں کے تحت منشایادکایومِ پیدائش منایاجارہاہوتا ہے وہیں ضلع خوشاب کے چھوٹے سے شہر جوہر آبادمیں بھی اُن کی سالگرہ کا کیک کاٹاجارہاہوتاہے۔ یہ سب کی اُن کی عطا کی گئی محبت کا اثر تھاکہ ۰۱ مئی ۰۱۰۲ء کو افسانہ منزل پہ جانے والا حافظ محمدنعیم عباس تھا مگر وہاں سے واپس آنے والا نعیم یادؔتھا۔صاحبومیں کتنا خوش نصیب انسان ہوں۔
 حوالہ جات: (۱) منشا یاد، شہر فسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۳۰۰۲ء، ص ۱۱ (۲) اسلم سراج الدین، منشا یاد،شخصیت اور فن، اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد، ۰۱۰۲ ء، ص۸۲ (۳) اسلم سراج الدین،منشا یاد،شخصیت اور فن، ص ۵۱

پیر، 2 ستمبر، 2019

مولانا کی ویڈیو وائرل ہوگئی


کشمیر کے محاذ پر لڑنا انکو ہے جنکو لڑنے کے لئے تیار کیا گیا عوام نے نہیں لڑنا ہوتا ۔ ان کو ساتھ دینا ہوتا ہے۔ علما کا ردعمل.. یہ مولانا خالد عباسی ہیں اور ڈاکٹر اسرار کے شاگرد خاص

اتوار، 1 ستمبر، 2019

’ ناہیدامیر تیمور ‘‘ سے بیگم ناہید سکندرمرزا

 طارق احمدمرزا
 پاکستان کی پہلی خاتون اول محترمہ بیگم ناہید سکندرمرزا اپنی سوویں سالگرہ سے صرف دوہفتہ قبل مؤرخہ ۲۵جنور ی ۲۰۱۹ء کولندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔ آپ جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدرسکندرمرزاکی اہلیہ تھیں۔آپ خراسانی نژادایرانی تھیں ۔آپ کا شجرہ نسب امیرتیمورلنگ سے جا ملتا ہے۔آپ کے والد امیرتیمورقبیلے کے سربراہ تھے اور ایران کے سیاسی،سماجی اورتجارتی منظرنامہ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔کم ازکم تیرہ مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ دومرتبہ منسٹررہے۔بیگم ناہیدکی والدہ بھی ایران کے قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کے ایک بھائی سفارتکارتھے جو دہلی میں بھی سفیررہے۔ بیگم ناہید ’’ ناہیدامیر تیمور ‘‘ سے بیگم ناہید سکندرمرزاکیسے بنیں،یہ کسی ناول یا فلمی کہانی کی طرح ایک انتہائی دلچسپ داستان ہے۔ایرانی اخبارکیہان (تہران) نے اپنی اشاعت مؤرخہ ۱۴ فروری ۲۰۱۹میں اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ناہیدامیرتیمورکی شادی مہدی افخامی نامی ایک ایرانی کرنل سے اس وقت کردی گئی تھی جب وہ ابھی نوعمرتھیں۔ کرنل مہدی کی تقرری اس وقت کے پاکستانی دارالحکومت کراچی میں قائم ایرانی سفارتخانہ میں بطورملٹری اتاشی ہوئی تو ان کی یہ نوعمراہلیہ بھی کراچی آگئیں،گو ان کی خواہش تھی کہ کراچی جانے سے کہیں بہترہے کہ طلا ق لے کرایران ہی میں بسی رہیں۔لیکن والدکے حکم کے سامنے ان کا بس نہ چلا۔ کراچی پہنچنے کے کچھ عرصہ بعدروسی سفارت خانہ کی ایک تقریب میں ان کی ملاقات سکندرمرزا سے ہوئی جو ہجوم کوچیرتے ہوئے عین ان کے سامنے آکھڑے ہوئے اورآؤدیکھانہ تاؤ،بولے ’’تم میری بیوی بنوگی‘‘۔ ذرا تصور میں لائیں،باون سالہ پختہ عمر،پختہ کارفوجی افسر جو شادی شدہ ہی نہیں چھ عدد بچوں کا باپ بھی تھا،ایک ایسی خاتون کو اس قسم کی بات کہہ گیا جو عمر میں اس سے بیس برس سے بھی زیادہ چھوٹی تھی،شادی شدہ تھی اور ایک بچی کی ماں بھی ۔ ان دونوں افرادکی ایک دوسرے سے شادی ؟۔اس کا توکسی کے ذہن میں کہیں دور سے بھی کوئی خیال یاامکان پیدانہیں ہو سکتا تھا۔ خاص کر یہ بات کہ سکندرمرزاپاکستان کے سیکرٹری ڈیفنس تھے اور ان کے سامنے کھڑی یہ خاتون برادرہمسایہ ملک ایران کے ملٹری اتاشی کی اہلیہ تھیں!۔ کوئی پاگل ہی اس قسم کے جوڑکی بات کرسکتاتھا۔ لیکن ان دونوں کا جوڑ بنانے کی کم از کم دووجوہات ایسی تھیں جو ان دونوںکی قدرمشترکہ قراردی جاسکتی تھیں۔اول تو یہ کہ یہ دونوں افراد اپنی اپنی موجودہ ازدواجی زندگی سے غیر مطمئن تھے۔دوسرے یہ کہ ان دونوں کا تعلق حکمران گھرانوں سے تھا۔ناہید امیرتیمورکے گھرانے سے تھی تو سکندرمرزابنگال ،بہار اور اڑیسہ کے نواب خاندان کی اولادتھے۔ ایک برس بعدکرنل مہدی کو تہران واپس بلا لیا گیا،سکندرمرزانے ناہیدسے کہا کہ وہ مستعفی ہوکر اپنا تقررایران میں بطورپاکستانی سفیرکروالیں گے۔جس پر ناہید نے سختی سے انہیں ایساکرنے سے منع کیا کیونکہ وہ اپنی بچی سمیت لندن جانے کا پروگرام رکھتی تھیں تاکہ ان کی بچی وہاں تعلیم حاصل کرسکے۔اصل میں ناہید ابھی تک سکندرمرزاکے بارہ میں شکوک شبہات ہی رکھتی تھی اور ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی بھی نہیں ہوئی تھی۔ چندماہ بعددسمبر ۱۹۵۲میں انہوں نے بالآخراپنے شوہر سے طلاق لے لی جس کے بعدسکندرمرزاکے لندن میں ان کے نام بھیجے ہوئے پے درپے محبت ناموں سے انہیں یقین ہوہی گیا کہ اسکندمرزاواقعی ان سے محبت کرتے ہیں ۔ ہرمحبت نامہ کے آخرپر ’’دل وجان سے فقط تمہارا‘‘ لکھاہوتا تھا۔اگلے برس ستمبر میں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ سکندرمرزاکا ارادہ تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ لے کر بقیہ زندگی خاموشی سے اپنی نئی جیون ساتھی کے ہمراہ لندن میں گزاریں گے،لیکن جب شادی کے بعدپاکستان لوٹے تو انہیں مشرقی پاکستان کا گورنربنادیا گیا۔چونکہ وہ بنگالی پس منظر رکھتے تھے اس لئے ان سے یہ توقع تھی کہ وہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لئے قابل قبول بھی ہونگے اور ان پہ توجہ بھی دیں گے،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ذاتی طورپر خود انہیں بھی بنگالیوں کی خدمت کرنے میں لطف آنے لگ گیا۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے لندن شفٹ ہونے کا خیال ترک کردیا۔ ستمبر۱۹۵۴ میں گورنرجنرل سرملک غلام محمدنے قومی اسمبلی تحلیل کردی،اسکندرمرزاکو وزیرداخلہ اور ایوب خان کو وزیردفاع مقررکردیاگیا۔جب ملک غلام محمد علاج کے لئے لندن چلے گئے تو سکندرمرزا کوقائم مقام گورنرجنرل بنادیا گیا، دوماہ مزید گزرجانے کے بعدسکندرمرزانے غلام محمد کو ان کی عدم موجودگی میں ان کے عہدے سے برطرف کردیا اورخودگورنرجنرل بن گئے۔ سنہ ۱۹۵۶ میں پاکستان اسلامی جمہوریہ قرارپایاتو سکندرمرزا متفقہ طورپر اس کے پہلے صدرمنتخب ہوئے اور یو ں ان کی محبت بیگم ناہیدسکندرمرزاپاکستان کی پہلی خاتون اول بن گئی۔آپ نے اس تاریخی حیثیت پہ فائزہونے سے قبل بھی اور بعد میں بھی اپنے شوہر کے شانہ بشانہ قومی اور ملی خدمات بجالائیں۔آپ نے خود کو پاکستانی ماحول میں رچابسالیاتھا،ساڑھی میں ملبوس رہتی تھیںاوربطورخاتون اول پاکستانی عوام کا اعتماداور پیارحاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ افسوس کہ ملکی سیاست کے حالات ایک جیسے نہ رہے،۱۹۵۸ کا مارشل لالگا،ایوب خان وزیراعظم مقررہوئے لیکن انہوں نے صدر سکندرمرزااور ان کی اہلیہ کو ۲۸ ؍اکتوبر کی رات نیند سے جگاکر پہلے کوئٹہ میں چاردن محصوررکھا اور پھر مغربی طاقتوں کے اصرارپر براستہ کراچی لندن بھجوادیا۔ لندن پہنچنے کے بعد بالآخر بیگم ناہید اور سکندرمرزا نے اس زندگی کا آغازکیا جس کا خواب انہوں نے دس برس قبل شادی کے معاًبعددیکھاتھا۔لیکن اب سکندرمرزاکو دل کاعارضہ لاحق ہوچکاتھا۔دس برس بعد سنہ ۱۹۶۹ میںلندن میں انتقال کر گئے،۔اس وقت اقتدارپر یحیٰ خان قابض تھے،انہوں نے سکندرمرزاکی میت پاکستان لا کردفنانے کی اجازت نہیں دی۔شاہ ایران محمدرضاشاہ پہلوی نے ان کے خاندان کی منظوری کے بعد تہران میں ان کی میت کو پورے فوجی اعزازکے ساتھ دفن کرنے کے خصوصی احکامات جاری کئے کیونکہ سکندرمرزاکے دورمیں ہی پاک ایران تعلقات اپنے عروج کو پہنچے تھے اور شاہ ایران کے دل میں ہمیشہ ان کے لئے انتہائی قدرومنزلت کے جذبات موج رہتے تھے۔ اخبارکیہان کے مطابق بیگم ناہیداسکندرمرزانے بیوگی کے پچاس سال جس طرح گزارے وہ ایک الگ داستان ہے۔آپ نے خود کو مہانوں اور رشتہ داروں کی خدمت کے لئے وقف کردیاجو آپ کے ہاتھ کے پکے دیسی اور ایرانی کھانے بھی کھاتے اور آپ کی شاعری بھی سنتے۔آپ کو ایران کے صوفی شعراء کے دیوان بھی کم وبیش زبانی یادتھے اور نجی محافل اور مجالس میں وہ ان کا کلام زبانی سنایاکرتی تھیں۔ شوہرکی وفات کے بعدآپ نے پاکستان اور پاکستانیوں سے ناطہ نہیں توڑا۔آپ کے دل میں پاکستان اور ایران دونوں دھڑکتے تھے۔آپ بیگم نصرت بھٹوکی بھی دوست تھیں جو کردش ایرانی تھیں۔جب بینظیربھٹو وزیراعظم بنی تو انہوں نے بیگم ناہیدمرزاکوپاکستان مدعوکیا۔کراچی،لاہور اورپشاورمیںاپنے والہانہ استقبال پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کے مرحوم شوہرکی چھوڑی ہوئے ذاتی یادگاراشیاء نوادرات وغیرہ دستیاب ہو سکیں لیکن ایوب خان نے ان کے گھر کی ایک چیز بھی محفوظ نہیں رکھنے دی تھی ،حتیٰ کہ سکندرمرزاکے وہ یادگارمحبت نامے بھی تلف کرڈالے تھے جو انہوں نے شادی سے قبل لکھ لکھ کرلندن بھجوائے تھے۔(بحوالہ کیہانلائف)۔ بیوگی کے پچاس سالوں کو اپنے شوہراور اس کے وطن کی یادوں سے سجانے والی بیگم ناہیدآج ہم میں موجود نہیں ۔۔۔بشکریہ نیازمانہ ڈاٹ کام

جمعرات، 29 اگست، 2019

کنڈیاں دی واڑ۔۔۔۔از محمد نعیم یاد


مبصر:عقیل شافی۔لاہور

اَدب کے ہر فیشن کی طرح افسانچہ نگاری بھی مغرب سے ہی اُٹھ کر آئی ہے۔اُردواَدب میں پہلی بار اس کا تجربہ سعادت حسن منٹو نے کیا،اورپھر ان کے بعد جوگندرپال نے ان کے کام کو آگے بڑھا یا۔رفتہ رفتہ افسانچوں کی طرف کئی ادباء نے توجہ دی تو محفلِ اَدب میں یہ چھوٹے چھوٹے قمقمے جگمگاکر قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔افسانچہ تخلیق کرنا افسانے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے،جو بات آپ دس صفحات میں بیان کرتے ہیں اُسے چار پانچ جملوں میں کہہ کر دس صفحات کا تاثر پیداکرنا،آسان نہیں۔پاکستان میں اَفسانچہ نگاری کو اچھی نظر سے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا،اس کے باوجود چند قلمکار ایسے ہیں جو افسانچے تخلیق کررہے ہیں۔ان میں ہی ایک نام محمد نعیم یاد کا بھی ہے جو پچھلے کئی برسوں سے افسانے کے ساتھ ساتھ افسانچوں پہ کام کررہے ہیں۔نعیم یاد کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اُردو زبان کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی افسانچوں کو پیش کیا۔اور کم عمری میں افسانوں اورافسانچوں پہ مبنی اب تک سات کتب لکھ چکے ہیں۔ حال ہی میں پنجابی اَفسانچوں پہ مبنی ان کی کتاب ”کنڈیاں دی واڑ“منظر عام پرآئی۔”کنڈیاں دی واڑ“میں نعیم یاد نے معاشرے کی سچائیوں کو بڑی چابک دستی سے افسانچوں کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔ان کی تحریر میں ایک خاص قسم کی جاذبیت ہے جو پڑھنے والے کوچونکا دیتے ہیں۔زندگی کے نشیب وفراز،حرام وحلال،صحیح وغلط،دغابازی،دوغلہ پن،سیاسی شعبدہ بازیاں،قول وفعل کا تضاد،مفلسی اوربھوک جیسے کئی عوامل ہیں جنھیں نعیم یاد نے افسانچے کے قالب میں اس فن کاری سے ڈھالاہے کہ افسانچہ قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔پنجابی میں صاف ستھری زبان میں یہ افسانچے زبان کی بھول بھلیوں میں نہیں بھٹکاتے بلکہ اس جھٹکے سے ختم ہوجاتے ہیں کہ قاری کے ذہن پر دیر پااثرات قائم کرتے ہیں۔مجموعی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ نعیم یاد کے یہ افسانچے پنجابی اَدب میں ایک لطیف جھونکے کی مانند ہیں جو ہر قاری کے ذہن و دل کو تازگی بخشتے ہیں۔
ناشر:طٰہٰ پبلی کیشنز،اُردوبازار،لاہور
قیمت:300روپے