ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ اول)


اس کے نام کی پورے پاکستان میں زبردست دھوم ہی نہیں تھی بلکہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی ایک عرصہ تک اس شخص سے متعلق سنسنی غیر معاملات نشر کرتے رہے۔ اس شخص نے حکومت کے ہوتے ہوئے اپنی الگ حکومت قائم کر رکھی تھی وادی سون تحصیل چکوال تحصیل پنڈی گھیب اور تلہ گنگ میں صرف اس کا حکم چلتا تھا۔ ان علاقوں پر مشتمل اس نے اپنی ریاست بنا رکھی تھی۔ جس کا یہ بے تاج باد شاہ تھا عدالتیں قائم تھیں۔ سینکڑوں سپاہی اور ہزاروں کارندے تھے جن میں بیشتر مسلح ہوتے۔ علمائے کرام کی موجودگی میں باقاعدہ ملزموں کے مقدمات کی سماعت ہوتی۔ فیصلے سناتے جاتے اور موقعہ پر اپنے سامنے عمل در آمد کرایا جاتا۔ اخبارات میں اس شخص کو وادی سون کا بے تاج بادشاہ لکھا جاتا تھا اس کی دہشت اتنی زیادہ تھی کہ ایک طویل عرصہ تک سرگودہا سے راولپنڈی کو رات کے وقت بسیں نہیں چلتی تھی یہ اپنے دور کا نامی گرامی اور خطرناک ترین شخص محمد خان ڈاکو کے نام سے مشہور ہوا۔ اسے مختلف مقدمات میں پانچ بار سزائے موت اور ایک سو پچاس سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔

محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی


ابتدائی حالات اور خاندان

l


ضلع اٹک تحصیل تلہ گنگ میں ڈھرنال نام کا موضع ہے جس کی آبادی یہاں زیادہ تر اعوان اور سید آباد ہیں۔ محمد خان کے داد فوج میں دفعہ دار تھے پہلی جنگ عظیم کے وقت اس کے والد ملک لال خان فوج کے شعبہ رسالہ میں ملازم تھے۔ جو ملازمت کے بعد زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے زرعی رقبہ کافی تھا اور بڑی خوشحالی سے زندگی بسر ہو رہی تھی اس کا گھرانہ کٹر دینی گھرانہ تھا ماں‘ باپ‘ بہن‘ بھائی سب نمازی پرہیز گار تھے وہ بھی بچپن سے نماز پڑھنے کا عادی تھا۔ ایک بہن اور پانچ بھائی تھے۔ ایک بہن اور تین بھائی محمدخان سے بڑے تھے جبکہ ایک چھوٹا تھا۔ بڑا بھائی رن باز خان فوج میں بٹالین حوالدار اور میجر تھا اور حافظ قرآن تھا ‘ اس سے چھوٹا علی خان‘ پھر ہاشم خان چوتھے درجے پر محمد خان اور اس سے چھوٹے بھائی کا نام محمد بشیر تھا۔ رن باز خان اور علی خان کو مخالف فریقین نے قتل کر دیا جبکہ محمد خان سے بڑا ہاشم خان 1963ء میں دوران مفرور طبعی موت مرا۔ اس کے تینوں بھائی فوج ملازم تھے۔ بڑے اطمینان سے وقت گزر رہا تھا۔ جب کہ 1940ء میں دوسری جنگ عظیم لگی تو اس وقت محمد خان کی عمر 14 سال تھی۔ اس کے چچا ملک اللہ یار خان ان دنوں یو پی میں تھے یہ سیون راجپوت یونٹ کے حوالدار تھے وہاں کھلی بھرتی ہو رہی تھی۔ محمد خان کو بھی فوج میں بھرتی ہو کر خدمات سر انجام دینے کا بہت شوق تھا اسی شوق کے حصول کی خاطر وہ اپنے چچا جان کے پاس یوپی چلا گیا اور فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے عہدے میں ایک درجہ ترقی ہو گئی اور 1947ء تک وہ وہیں رہا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ اٹھا ون پنجاب رجمنٹ
میں چلا گیا۔ اس کا زیادہ وقت کشمیر کے محاذ پر گزرا۔ 1950ء تک اسی محاذ پر رہا۔ محمد خان ایک ذمہ دار محب وطن سپاہی کی حیثیت سے نمایاں پوزیشن کا حامل تھا اس نے کبھی اپنے افسروں کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ زندگی کی شاہراہ پر سانسوں کا کارواں چل رہا تھا۔ محمد خان کے خاندان کے کسی کے ساتھ جدی پشتی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی اس کے خانادن میں کبھی لڑائی جھگڑا ہوا تھا۔ اس کے والد بھی بڑے مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے کسی قسم کا فکر اور غم نہیں تھا۔ 1950ء میں وہ دو ماہ کی چھٹی لے کر گھر آیا تو حالات کے بے رحم سائے اس کے سروں پر بھوکی چیلوں کی طرح منڈلانے لگے۔موضع ڈھرنال کے نمبردار ملک لال خان اور محمد خان کے بڑے بھائی ہاشم خان کی سیاسی دھڑے بندیوں کی وجہ سے آپس میں ان بن ہو گئی نمبردار جس دھڑے کی سپورٹ کرتا تھا ہاشم خان اس کے مخالف دھڑے کا حمایتی تھا اس وقت الیکشن کا معاملہ چل رہا تھا دونوں کو پکا کرنے کی مہم جاری تھی۔ ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت نمبردار کی پشت پناہی کررہی تھی۔ سردیوں کا موسم تھا رات کے 12 بج رہے تھے۔ محمد خان اپنے گھر والوں کے ہمراہ کسی بھی سازش سے بے نیاز اپنے گھر سو رہا تھا اس کی چھٹی ختم ہونے میں تین دن باقی تھے کہ نمبردار لال خان نے پولیس سے ساز باز کر کے ایک ڈرامہ کھیلا اس

نے اپنے تین آدمیوں کو لوڈ کی ہوئیں بندوقیں دیں اور ہدایت کی کہ وہ آدھی رات کے وقت اس کے گھرفائرنگ شروع کر دیں‘ وہ ایک بہت کھلی حویلی میں رہتا تھا جو گاؤں کے وسط میں واقع تھی ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا لوگ اپنے اپنے گھروں میں نیند کے مزے لوٹ رہے تھے آدھی رات ہوئی تو گولیاں چلنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ گولیاں کیوں چل رہی ہیں۔ صبح ہوئی تو ڈھرنال کے ملحقہ لاوہ میں محمد خان اور اس کے بھائی ہاشم خان پر 307 ارادہ قتل 392 ڈکیتی کانامزد پرچہ درج کر دیا گیا۔ کہانی یہ بنائی گئی کہ یہ دونوں بھائی مسلح ہو کر لال خان کے گھراسے قتل کرنے اور ڈاکہ ڈالنے گئے۔ لال خان ہاتھ نہ لگ سکا تو مال لوٹ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ اس من گھڑت کہانی نے محمد خان کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے یہ سراسر زیادتی اور ظلم تھا لیکن کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا پولیس نے موقع ملاحظہ کر کے ملزموں کی تلاش شروع کر دی۔ محمد خان کی چھٹی ختم ہو گئی تھی اور اسے ایبٹ آباد نوکری پر حاضر ہونا تھا اس نے بھائی ہاشم خان اور ایک دوست فتح شیر خان سے کہا کہ وہ چکوال ریلوے اسٹیشن پر اسے ریل میں سوار کرا آئیں‘ نمبردار لال خان نے چکوال کے تھانے دار کو جوا س کا کلاس فیلو تھا ان کی گرفتاری کا پیغام بھجوا دیا وہ پولیس کی بھاری نفری لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔وہ جونہی ریل میں سوار ہونے لگے پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا بعدازاں چکوال کی حوالات میں بند کر دیا اور تینوں کاچالان کر کے متعلقہ جیل بھیج دیا گیا۔ تھانے دار نے محمد خان پر رائفل‘ اس کے بھائی پر پستول اور فتح شیر خان پر برچھی کی جعلی برآمدگی ڈال دی حالانکہ وہ تینوں خالی ہاتھ تھے‘ محمد خان کرائے اور خرچے کیلئے گھر سے پانچ سو روپے لایا تھا پولیس نے اس رقم کو ڈاکے میں لوٹی ہوئی رقم قراردے کر برآمدگی ڈال دی اور انہیں کیمبل پور منتقل کر دیا گیا فرضی ڈاکے کی کہانی تو گھڑ لی گئی اور حویلی کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات بھی اس ڈرامے کی کڑی ثابت کئے گئے لیکن اس میں نہ حویلی کا کوئی تالہ ٹوٹا ‘ نہ کسی دروازے کو نقصان پہنچا۔حویلی کے اندر بندھے ہوئے ڈھور ڈنگر بھی محفوط رہے کسی شخص کو معمولی خراش بھی نہ آئی۔ لیکن اس

کے باوجود علاقے کی ایک معروف سیاسی شخصیت اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان پر ڈاکہ ثابت کر دیا گیا‘ مجسٹریٹ نصراللہ وڑائچ کی عدالت مں چھ ماہ مقدمہ چلا اور آخر اس کیس میں دونوں بھائی تین تین سال قید بامشقت کی سزا ہو گئی‘ اس موقع کا مدعی نمبردار ملک لال خان تھا جو بطور گواہ بھی عدالت میں پیش ہوا‘ دوسرا گواہ اس کی بیوی تھی اور اس کا ذاتی چوکیدار اور اس کے علاوہ کوئی وار گواہ عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا تھا‘ بہر حال تین سال کی سزائیں سے ڈیڑھ سال کی معافی مل گئی بقیہ ڈیڑھ سال سزا بھگت کر 1952ء میں دوبارہ رہا ہو کر جیل سے باہر آ گئے‘ اس دوران وہ کیمبل پور اور پنڈی جیل میں رہے‘ ابھی انہیں جیل سے رہا ہوئے چھ ماہ ہوئے تھے کہ نمبردار نے ایک خطر ناک منصوبہ بنایا‘ محمد خان کا خیال تھاکہ انہیں جھوٹے مقدمے میں سزا دلانے کے بعد ملک لال خان کے ضمیر میں خلش پیدا ہوگئی ہو اور اسے ظلم کا احساس لازماً ہو گا جو اس نے بے گناہ بھائیوں پر کیا تھا کیونکہ جن لوگوں کے ضمیر مردہ نہ ہوچکے ہیں‘ سینوں میں ایمان کی چنگاری سلک رہی ہو ان کی اپنی کی ہوئی زیادتیوں پر شرمندگی ضرور ہوتی ہے۔ وہ واقعتا یہی سوچ رہا تھاس کہ پیر مکھڈ شریف کے کہنے پر ملک امیر محمد خان کے حمایتی ہونے کی سزا جو انہیں دی جا رہی تھی یہ غلط سیاسی دشمنی ترک کر دی جائے گی کیونکہ ملک لال خان تو محض ایک پتلی تھا اس کی ڈوری بااثر سیاسی افراد کے ہاتھ میں تھی۔ ملک امیر محمد خان سابقہ گورنر مغربی پاکستان اور پیر مکھڈ شریف کی درینہ دشمنی چلی آرہی تھی پاکستان بننے سے قبل انگریز کے زمانے میں ملک امیر محمد خان نے اس کے والد لال باز شاہ کو قید کی سزا دلوائی تھی‘ اس کے دل میں یہ چھبن زخم بن کر محسوس ہوئی تھی ملک لال خان اس کا سیاسی حلیف تھا‘ دونوں ایک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جبکہ محمد خان کا خاندان ر‘ رشتہ دار اور دوست احباب ملک امیر محمد خان کے زبردست حامی تھے‘ ’’ محمد خان‘ ملک امیر محمد خان کو اپنے والد کا دجہ دیتا تھا ان کی بے انتہاہ عزت کرتا تھا پیر مکھڈ شریف کے سیاسی اثرر سوخ کو ختم کرنے کیلئے وہ سرگرم کا رکنوں کی طرح کام کرتے تھے یوں کہنا چاہیے کہ ملک امیر محمد خاں جس شخص کے بارے میں یہ خواہش

رکھتے کہ اس کی سیاسی حمایت کی جائے محمد خان اور اس کی برداری کی بنیاد پر بھی اور فرد افراد ابھی اس کے لئے کمر بستہ ہو جاتے تھے یہ بات مکھڈ شریف کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف تھی وہ بنفس نفیس تو ان کی مخالفت میں سامنے نہیں آتا تھا اپنے مہروں سے کام لیتا تھا‘ محمد خان نواز آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کو نیک سیرت بااصول اور نہایت روشن فکر انسان سمجھتا تھا‘ مقامی سیاست میں بہت کچھ ہوتا ہے بڑے پر خطر راستوں سے گزرنا پڑتا ہے‘ بعض اوقات یہی مقامی سیاست ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے والی ہوتی ہے پھر معاملہ جذباتی اور جذباتی اور نظریاتی وابستگی کا ہوتا ہے کوئی نہیں چاہتا اس کا اثر ختم ہورداں سکے کھوٹے بن جائیں کچھ لوگ تو یہاں تک گوارا نہیں کرتے کہ ان کے سامنے کوئی سر بھی اٹھا کر چلے‘ پیر مکھڈ شریف اور اسکے سیاسی حلیف محمد خان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسے راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی‘ محمد خان اور اس کا خاندان لڑائی جھگڑے سے دامن بچاتے رہے مگر ملک لال خان ان پر جھپٹتا رہا‘ محمد خان اور اس کا خاندان لڑائی جھگڑے سے دامن بچاتے رہے مگر ملک لال خان ان پر جھپٹتا رہا‘ محمد خان کو ابھی رہا ہوئے چھ ماہ ہوئے تھے‘ گرمیوں کے دن تھے اسکا بڑا بھائی ہاشم خان اکثر گر دے کے درد کی وجہ سے بیمار رہا کرتا تھا محمد خان اسے گاؤں کے قریب واقع ہسپتال میں دکھانے لے جایا کرتا اس کا حال یہ ہوگیا تھا کہ دوا کھاتا رہتا تو درد رکا رہتا ورنہ شدید تکلیف ہوا کرتی‘ اس لئے ہسپتال کے ڈاکٹر سے مسلسل رابطہ رکھنا پڑتا تھا ایک دن سخت گرمی تھی دوپہر کے دو بج چکے تھے‘ ہاشم خان کے گردے میں سخت تکلیف تھی محمد خان اس کو ساتھ لے کر اور ڈاکٹر سے دوا لینے کیلئے گھر سے پیدل گاؤں کے ہسپتال کی جانب جا رہے تھے ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ نمبردار کے تین آدمیوں نے ان کا راستہ روک لیا‘ انہیں کسی نے اطلاع کر دی تھی اور وہ ان کا راستہ روک کر بیٹھ گئے تھے جونہی وہ ان کے قریب سے آگے بڑھنے لگے تو ان تین آدمیوں نے انہیں للکارا‘ وہ اس وقت بالکل خالی ہاتھ تھے‘ اور ان کے ذہن میں قطعی ایسی کوئی بات نہیں دشمنی تو ضرور تھی البتہ یہ علم بھی نہیں تھا کہ ملک لال

ایسی گھٹیا حرکتوں پر اتر آئیگا اور بیماری کی حالت میں بھی ان پر حملہ کروا دے گا ان تینوں میں ایک سے جب ایک شخص چاقو پکڑے ہاشم خان پر جھپٹ پڑا تو محمد خان نے اسے منع کیا اس وقت وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ وہ اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلے تھے جب وہ باز نہ آیا تو محمد خان نے تیزی کے ساتھ اس کو پکڑ کر چاقو چھین لیا دوسرے دو افراد نے جب یہ دیکھا تو ان دونوں نے ان پر ڈنڈوں کی بارش کر دی‘ ہاشم خان گردے میں درد کی وجہ سے پہلے ہی نڈھال تھا وہ لڑ کھڑا کر ایک جانب گرنے لگا تو محمد خان نے اسے سنبھالا دیتے ہوئے ایک جانب کھڑاکر دیا خود جہان خان نامی شخص پر ٹوٹ پڑا‘ اس نے اسکی ٹانگوں اور رانوں پر تین چار چاقو پوری قوت سے مارے وہ زخمتی ہو کر اسی جگہ گر گیا جب گاؤں کے دوسرے افراد نے یہ لڑائی دیکھی تو انہوں نے بیچ بچاؤ کریا‘ وہاں سے گھر چلے گئے اس روز ان پر 307 ارادہ قتل کا نامزد پرچہ درج کروایا گیایہ محمد خان کے ساتھ زندگی میں ہونا والا دوسرا شدید ظلم تھا‘ ان راستہ مخالف پارٹی کے آدمیوں نے روکا اس نے لڑائی کو ٹالنے کیلئے ہزار جتن کئے حملہ انہوں نے ان پر کیا‘ وہ تو اپنے بھائی ہاشم خان کو ہسپتال لے کر جا رہا تھا لیکن ارادہ قتل کاپرچہ دونوں بھائیوں پر ہوگیا‘ محمد خان کو جب پتہ چلا تو اس نے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی اس وقت ہاشم خان گردے میں تکلیف کی وجہ فوج چھوڑ چکے تھے اور انہیں پنشن مل رہی تھی‘ اس کیس میں پولیس نے چالان کر کے انہیں جیل بھیج دیا‘ کیملپور کے مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا‘ دونوں بھائیوں کو تین تین سال قید بامشقت کی سزاہو گئی جبکہ مخالف فریق کا ایک شخض بھی قید نہیں ہوا اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور ہائی کورٹ نے انہیں باعزت طور پر بری کر دیا تین ماہ جیل میں رہنے کے بعد جب دونوں بھائی رہا ہوئے تو محمد خان کے ذہن میں نمبر دار ملک لال خان کے بارے میں ایک طوفان بپا تھا اس کے سینے میں نفرت کے الاؤد ہک رہے تھے‘ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ابھی انہیں گھر آئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ محمد خان کے بڑے بھائی رن باز خان بھی چھٹی آ گئے گاؤں کے عام لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب محمد خان اور ملک لال

خان کی کوئی بہت بڑی لڑائی ہو گی کہ اچانک حالات نے ایسا رخ بدلا کہ انہیں روایت اور صبر کے امتخان میں پورا اترنا پڑا‘ ہوا یوں کہ ملک لال خان گاؤں کے تین چار معززین کے ہمراہ محمد خان کے گھر آگیا اور اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرے گا ان کے ساتھ کئے ہوئے ظلم پر وہ سخت نادم ہوا‘ سب بھائی نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے معاف کر دیا اس کے بعد ان کے اور نمبردار کی مخالفت کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا۔گاؤں میں کسی اور کے ساتھ ان کی دشمنی نہیں تھی لال خان سے راضی نامہ ہو چکا تھا اب ان کا خیال تھا کہ اب وہ امن سکون سے رہ سکیں گے اور جو کچھ ہو چکا تھا اسے بھولنے کی کوشش کرنے لگے‘ پیر مکھڈ شریف کو یہ صلح ایک آنکھ نہ بھائی اس نے ان کے نانا کی پارٹی مولا بخش وغیرہ کو اکسایا‘ مولا بخش ننہال کے طرف سے محمد خان کا رشتہ دار تھا مگر اس سے دیرینہ چپقلش چلی آرہی تھی‘ پیر صاحب نے وقت کی راکھ میں دبی ہوئی دشمنی کی چنگاری کو ہوا دی کہ موضع ڈھرنال کی زمین انسانی خون سے رنگین ہونے لگ گئی اور ایک ایسی خوفناک خونی داستان لکھی جانے لگی جسے وقت کبھی فراموش نہیں کر سکے گا اور جسے پڑھتے بھی حساس دل بیٹھنے لگتے ہیں‘ محمد خان 1954 میں مولا بخش کے خاندان کی ایک لڑکی سے شادی ہوئی اس نے یہ شادی اپنے پسند کی تھی یہ لوگ نہ صرف اس شادی کے مخالف تھے بلکہ مولابخش کے خاندان کا ایک فرد بھی اس شادی میں شریک نہیں ہوا تھا انہیں یہ دکھ تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ شادی کیوں ہوئی نانا سے اس خاندان کی پہلے ہی دشمنی تھی اس کی پسند کی شادی نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ محمد خان اور اس کے بھائیوں کے مخالف ہو گئے پیر صاحب کو اس کے بہتر موقع ہاتھ نہیں آ سکتا تھا اس نے مولابخش اور اس کے خاندان کو اتنا بھڑکا دیا کہ وہ ان کے خون کے پیاسے ہو گئے پیر مکھڈ شریف اور دوسرے مخالف سیاسی عناصر نے انہیں کہا کہ وہ دونوں بھائیوں ہاشم خان اور محمد خان قتل کر دیں اور یقین دلایا کہ انہیں نہ صرف کیس سے بری کروایا جائیگا بلکہ ہر طرح کی امداد بھی دی جائیگی پیر صاحب کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا‘ ابھی محمد خان کی شادی کو چار ماہ ہوئے تھے کہ 90

افراد کو ایک جگہ جمع کیا اس اکٹھ کیلئے اس نے یہ ڈرامہ کھیلا کہ اپنے خاندان میں فوری ایک شادی طے کروا دی جس میں اپنے خاص آدمیوں کو بھی مدعو کیا ان میں خاص سے خاص افراد کی ایک خفیہ میٹنگ بلا کر دونوں بھائیوں کے قتل کی سکیمیں تیار ہونے لگیں اس نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ انہیں اس منصوبے کا علم نہ ہو سکے کیونکہ گاؤں میں اگر عام حالات میں 80,90 افراد جمع کیا جائے تو لازمی محمد خان کو شبہ ہو جاتا یا ان کے بندوں کو اس کی سکیم کا پتہ چل جاتا شادی والے گھروں میں اجتماع ہوا ہی کرتے ہیں پھر اس نے یہ سب کچھ اتنی راز داری سے کیا کہ اس کے منصوبے کا قطعی قبل از وقت علم نہ ہو سکا اور انکے عزیز و اقارب میں سے کوئی اس شادی میں شریک نہیں تھاورنہ تھوڑی بہت بھنک کانوں میں ضرور پڑ جاتی کہ مولا بخش خطر ناک کھیل کھیلنے والا ہے روز صبح اپنے کھیتوں پر جانا محمد خان کا معمول تھا اس دوران و ہ ہسپتال کا بھی چکر کاٹاکرتا تھا اس کے ہاتھ میں صرف بید کی ایک چھڑی ہوا کرتی تھی کوئی ساتھی یا محافظ بھی ساتھ نہیں ہوتا اگرچہ لائسنس کا اسلحہ تو اس کے پاس موجود تھا مگر ذہن میں یہ بات ہی نہیں تھی کہ مولابخش اسے قتل کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے ظاہر ہے اس کا علم ہوتا تو وہ کبھی اکیلا اور نہتاصبح سیر کو نہ نکلا کرتا‘ اس نے فوج میں نوکری کی تھی اور وہ جانتا تھا کہ دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے لیکن یہاں تو مسئلہ ہی اور تھا اسے اپنے دشمن کی سن گن ہی نہیں تھی۔ وہ پسند کی شادی کرنے پر ان کی ناراضگی کو اچھی طرح جانتا تھا اور محتاط بھی رہا کرتا تھا البتہ یہ ہر گز نہیں جانتا تھا کہ پیر صاحب کے کہنے پر وہ اس کی جان لینے پر تل گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس روز بھی وہ حسب معمول صبح اٹھا ہاتھ میں بید کی چھڑی پکڑی اور تمام خطرات سے بے نیاز کھیتوں کی جانب نکل کھڑا ہوا‘ اس کا پھوپھی زاد بھائی فتح شیر اپنی زمینوں میں کام کر رہا تھا محمد خان اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا حقہ پیا دونوں بھائی گپیں ہانک رہے تھے کہ سامنے سے ایک شخص سخت بدحواسی کے عالم میں ان کی جانب دوڑ تا ہوا دکھائی دیا وہ اس کے قریب آیا اس کے چہرے کا رنگ اڑ اہوا تھا سینے میں سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اس شخص کو محمد خان کی ساس نے اطلاع کیلئے بھیجا کہ

کھیتوں سے واپسی پر وہ دوسرے راستے سے گھر آئے کیوں کہ کم و بیش 90 مسلح افراد نے اسے قتل کرنے کیلئے بڑے راستے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ محمد خان نے 1954ء کے آخری مہینے میں شادی کی تھی اور وہ 1955ء کا تیسرا مہینہ مارچ تھا علاقہ میں گندم کی فصل پک کر تیار کھڑی تھی زمینداروں کیلئے انتہائی مصروفیت کے دن ہوتے ہیں لیکن مولابخش کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی ابھی اس کی شادی کو چار ما ہ ہی ہوئے تھے کہ ان 90 دن مسلح افراد نے گاؤں کے عین وسط میں اسے گھیر لیا یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اتنے زیادہ لوگ کو اس کے قتل پر کیوں مامور کیا گیا ہے یہ ٹھیک ہے کہ وہ بچپن ہی سے نڈر‘ بے خوف‘ خطرات سے کھیلنے والے انسان تھا لیکن آج تک اس نے کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا تھا کہ لوگوں کے دلوں پر اس کی دھاک بیٹھ جاتی پھر مسلح آدمی بھی اس کے ساتھ نہیں ہوتے تھے حتیٰ کہ اپنی بندوق بھی پاس نہیں رکھتا تھا ممکن ہے انہوں نے اسے مار کر بلوے یا ڈاکے کا پروگرام بنا کر اس کے قتل پربری الذمہ ہونے کا سوچا ہو بہرحال یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی‘ اس نے اپنے پھوپھی زاد بھائی فتح محمد سے بھی اس کا ذکر کیا تھا کہ اگر یہ اعلان سچ ہے تو پھر وہ اس کی بوٹیاں نوچ کر کھا جائیں گے اور قتل کا سراغ تک نہیں ملے گا‘ فتح محمد اسی خدشے کے پیش نظر ایک برچھی لے کر اس کے ساتھ ہو لیا‘ محمد خان کا ذہن ابھی تک اس اطلاع پر یقین نہیں کر رہا تھا کیونکہ اتنی بڑی دشمنی تو کسی کے ساتھ نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ اس ن گھر کو آتے وقت دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ اسی راستے سے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ ہم اس کے دل کے کسی گوشے میں خوف کی ایک لہر ضرور موجود تھی وہ اور فتح خان بڑے محتاط انداز میں دائیں بائیں دیکھتے گھر کی جانب جارہے تھے جونہی گاؤں کے درمیان پہنچے تو چھڑیوں‘ کلہاڑیوں اور بندوقوں سے مسلح دس ‘ دس‘ پندرہ‘ پندرہ آدمی مختلف پوزیشنیں سنبھال کر چھپے بیٹھے تھے‘ انہوں نے اس کے گھر کے راستے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی تھی‘ اب اسے خطرے کا احساس ہوا مسلح افراد میں سے ایک شخص نے اسے للکارا وہ اسی جگہ رک گیا وہ ہاتھ میں برچھی پکڑے سیدھا محمد خان کی

جانب دوڑتا ہوا آیا اب محمد خان نہ پیچھے مڑ سکتا تھا نہ گھر جا سکتا تھا یہاں چھپنے کیلئے کوئی جگہ بھی نہیں تھی مخالف پارٹی کے آدمیوں نے تمام اطراف سے اسے گھیر رکھا تھا جب اس نے دیکھا کہ موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے تو اس کے ذہن نے برق رفتاری سے ایک فیصلہ کیا جب مرنا ہی تو بزدلوں کی طرح جان کیوں دی جائے زندگی کوئی تحفہ نہیں جو دوسروں کی جھولی میں ڈال دی جائے‘ چنانچہ اس نے فح محمد سے برچھی لے لی اور جونہی وہ شخص تیزی سے بھاگتا ہوا برچھی لہراتا آگے بڑھا اس نے برچھی مارنے کیلئے فضا میں بلند کیا ہی تھا کہ آنافانا محمد خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی برچھی اس ک سینے میں اتار دی‘ برچھی اس کے دل کوچیرتی ہوئے دوسری جانب نکل گئی اس شخص نے نام مہر خان تھا اور وہ مسلح افراد کا لیڈر تھا‘ خون کی ایک تیز دھار زمین کو سرخ کر گئی وہ زور دار چیخ کے ساتھ اسی جگہ ڈھیر ہوگیا۔ یہ محمد خان کی زندگی کا پہلا قتل تھا جو حفاظت خو د اختیاری کے تحت مجبوراً کیا گیا‘ مہر خان کے مرتے ہی شور برپا ہوا آس پاس چھے افراد شور و غل کرتے اور للکارتے ہوئے پاگلوں کی طرح محمد خان پر ٹوٹ پڑے اتنے سارے وگوں سے جان بچانا بہت مشکل تھا اس جگہ فوج کی ٹریننگ اس کے کام آئی جن لوگوں کے پاس بندوقیں تھی جب انہوں نے اس پر گولیوں کی بارش کر دی اور وہ زمین پر لیٹ گیا اور رینگتے ہوئے ایک جانب پناہ لینے کیلئے کہنیوں کے بل بھاگا لیکن وہ خود کو گولیوں کی زد سے محفوظ نہ کر سکا اس اثناء میں تین گولیاں سنسناتی ہوئی اس کی شلوار میں سوراخ کرتے ہؤے گزر گئیں اتفاق کی بات ہے کہ کوئی گولی اسے نہیں لگی حالات نے اس کی بہت مدد کی وہ اس طرح گلہاڑیوں اور برچھیوں والے ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ محمد خان ان کی اوٹ میں تھا اگر بندوق بردار اسے گولیوں کا نشانہ بنانا چاہتے تو ان کے اپنے آدمی ان کی فائرنگ کی زد میں آجاتے جب وہ ایک جانب کو ہونے لگتے تو وہ پیچھے مڑ کر ان کی برستی گولیوں کے آگے کر دیتااس حالت میں گولیوں سے بچتے بچتے وہ ایک رشتہ دار کے ڈیرے پر پہنچ گیا اور دروازہ بند کر کے ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا وہ مسلح افراد کلہاڑیاں فضا میں اچھالتے اور لگا تار فائرنگ کرتے

ہوئے ڈیرے پر آگئے اور انہوں نے مکان کو گھیرے میں لے لیا‘ پورے گاؤں میں قیامت کاسماں تھا‘ بچے‘ بوڑھے سب ڈر کے مارے گھروں میں چھپ گئے لوگوں ک دل حلق میں اٹک کر رہ گئے تھے‘ دن کے دس بچ چکے تھے انہوں نے مکان کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے پھر چند افراد چھت پر چڑھ گئے تاکہ چھت پھاڑ کر اندر داخل ہو سکیں جب وہ ایسا نہ کر سکے تو سب نے مل کر دروازے کو توڑ دیا‘‘ وہ دیوار سے لگ کر کھڑا تھا لگا تار فائرنگ ہو رہی تھی گولیاں اس کے سر کے اوپر سے ہوتی ہوئی سامنے بڑی دیوار میں لگ رہی تھیں وہ اس وقت جرات کرتے تو اندر داخل ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار سکتے تھے لیکن کسی کو اندر آنے کا حوصلہ نہ ہوا غالبا ان کا خیال تھا کہ اسکے پاس مہلک ہتھیار ہیں ان میں سے چند لوگوں نے کہیں سے سوکھی ہوئی جھاڑیاں منگوائیں انہیں دروازے کے ساتھ رکھ کر آگ لگانے کی کوشش کی وہ مکان کو آگ لگا کر اسے اندر جھلس کر دینا چاہتے تھے یہ تو خدا کا کرم ہوا کہ اسی روز تیسرا تھا انہیں کہیں سے نہ تیل مل سکا نہ ماچس ہی میسر آسکی‘ اس منصوبہ میں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے ایک اور چال چلی وہ یہ کہ ایک ادھیڑ عمر عورت مہر بھری کو مکان کے اندر جانے پر آمادہ کر لیا مہر بھری سے کہا گیا کہ وہ اندر جاتے ہی محمد خان کو پکڑے اور شور مچا دے پھر مشتعل ہجوم مکان میں داخل ہوکر محمد خان کو پکڑے گا اور کسی دوسری جگہ لے جا کر قتل کر دیا جائیگا‘ مہر بھری‘ مہر خان کی چچا زاد بہن اور اچھی عورت نہ تھی‘ ان کاخیال تھا کہ علاقے کے رواج کے مطابق محمد خان عورت پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور پکڑا جائیگا لیکن وہ ان کی چال کو تاڑ گیا جو نہی مہر بھری نے مکان کی دہلیز عبور کی محمد خان نے اسے برچھی مار کر موت کے گہری نیند سلا دیا جب ان کا یہ حربہ ناکام رہا تو ہجوم مزیدبپھر گیا‘ اس اثناء میں محمد خان کے بھائی ہاشم کو حالات کا پتہ چل گیا اوروہ اسی وقت بہت سے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ پر پہنچ گئے دونوں طرف سے زبردست فائرنگ کاتبادلہ ہوا آخر کار مخالف پارٹی مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑی ہوئی جاتے ہوئے انہوں نے محمد خان کے پھوپھی زاد بھائی فتح محمد اور چچا زاد بھائی عزیز خان کو گولی مار کر

ہلاک کر دیا اور دو رشتہ داروں محمد خان اور زور خان کو شدید زخمی کر دیا البتہ محمد خان اور ہاشم خان کی جان بچ گئی گاؤں کے چوراہے میں مہر خان کی اور ڈیرے پر مہر بھری کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی جبکہ محمد خان کے دو بھائیوں کی لاشیں بھی کچھ فاصلے پر پڑی تھیں اس کے دو گھنٹے بعد تھانہ لاوے کا ایس ایچ او پولیس کی گارد لے گاؤں آگیا‘ ہاشم خان تو گھر چلا گیالیکن محمد خان بھاگ کر تلہ گنگ آگیا یہاں سے اس نے آئی جی پنجاب‘ علاقہ مجسٹریٹ‘ اور کمشنر کو اس حادثہ سے متعلق تاریں ارسال کیں جن میں لکھا کہ پولیس مخالف فریقین سے ملی ہوئی ہے اس لئے سپیشل کرائم برانچ سے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں اس نے تاروں اور درخواستوں میں مخالف پارٹی کے 22 افراد کے نام لکھے تھے اور حکام سے استدعا کی تھی کہ انکا بھی چالان کیا جائے کیونکہ اسے علاقے سے پولیس سے انصاف کی توقع نہیں تھی پولیس نے لاشیں اپنے قبضہ میں لے لیں تیسرے دن کرائم برانچ کا انسپکٹر گاؤں میں پہنچ گیا تحقیقات شروع ہوئیں‘ محمد خان اور اس کے بھائی ہاشم پر قتل کا پرچہ درج ہو گیا اور چوتھے روز انہیں گرفتار کر لیا گیا جبکہ مخالف پارٹی کے 22 افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا سب کا چالان کر کے متعلقہ جیل میں بند کر دیا گیا‘ کیمبل پور کے سیشن کورٹ کی عدالت میں سال مقدمہ چلا آخر میں محمدخان کو 14 سال قید بامشقت کی سزاہو گئی‘ البتہ ہاشم خان بری ہو گیا‘ مخالف پارٹی کے 22 افراد کو 48,48 سال کی سخت سزائے قید ہوئی یہ 1956ء کا دور تھا اس وقت ہائی کورٹ پشاور میں تھی ہاشم خان نے محمد خان کو سزا کیخلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی اس مقدے کی پروری نامور وکیل پیرا بخش نے کی جبکہ پیر صاحب کے کہنے پر مخالف پارٹی کا کیس خان عبدالقیوم خان مرحوم نے لڑا‘ کیس جسٹس حبیب اللہ خان کی عدالت میں لگا‘ یہ وہی حبیب اللہ خان تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سینٹ کے چیئر مین بھی رہے پہلی پیشی پر ہی یہ بیمار ہو گئے اور کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی‘ ان حالات کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عزیز احمد اور ایک انگریز جج پشاو میں اس مشہور قتل کیس کی سماعت کیلئے حکومت نے تعینات کیے اس سپیشل جج کے رو بروآٹھ
ماہ تک مقدمہ کی سماعت جاری رہی سپیشل جج نے دونوں فریقین کو بری کر دیا‘ محمد خان رہا ہو کر گھر پہنچا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ گیا‘ اب وہ دشمن کی جانب سے محتاط رہنے لگا تھا سب مخالفین کے چہرے محمد خان کی نظروں کے سامنے تھے 6 ماہ نہایت امن و سکون کے ساتھ گزرے نہ اس نے کوئی چھیڑ کی نہ مخالف فریقین نے کوئی سازش کی۔

لیکن پھر ایسا واقعہ ہو گیا کہ گاؤں میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔۔۔ حصہ دوم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں