جمعہ، 13 ستمبر، 2019

عشق کی سرحد اورخوشونت سنگھ

 وہ مٹی جہاں سے انسان کا خمیر اٹھا ہو،جہاں انسان پل بڑھ کر جوان ہوا ہو،اُس مٹی سے عشق انسان کی فطرت میں ہوتا ہے۔وہ انسان دنیا کے جس کونے میں بھی چلا جائے اُس مٹی کو کبھی بھول نہیں سکتا،اس مٹی سے اُٹھنے والی ہر خوشبواس کی روح کومعطر کیے رکھے گی اور وہ انسان اس مٹی سے جڑی یادوں سے خود کو کبھی جدا کر نہیں پائے گا۔وقت کے ساتھ جب دنیا کے مزاج بدلتے ہیں،کئی آوازیں بدلتی ہیں پر اس کے ذہن پہ گزری یادیں،سنی ہوئی آوازیں ہمیشہ دستک دیتی رہتی ہیں۔اُسے راگ راگنیوں کا علم ہو یا نہ ہوپر دل کو خوشی یا غم سے بھر دینے والے گیتوں،آوازوں اورراگوں کااندازہ وقت اُسے خودکروادیتا ہے۔سارنگی،بانسری اورالغوزوں کی آوازیں اُس کے اندر کے وجود کو تارتارکردیتی ہیں،سارنگی کی تان پہ اس کا اَنگ اَنگ دہکنے لگتاہے،بانسری کی آواز اُسے پیچھے لے جاتی ہے۔پھاگن چیت میں کوئلوں کی کُوک اُس کے درد کو بڑھا دیتی ہے۔اورگندم کی ہری بھری فصلوں میں چھپ کر پٹاکتے تیتر اوربٹیر وں کے سندیسے،چمٹے کے ساتھ گائی جانے والی جگنی، دھنیے کی دھن دھن،آٹاچکی کی ٹوہ ٹوہ، خراس کی گھمرگھمر،پنگھٹ کی چرخی کی روں روں اوربچھڑے دوستوں کی ڈھولیں وہ کبھی بھول نہیں سکتا۔
”مینوں اٹھن بہن نہ سجھدا
میرا اندر بل بل بجھدا
کدی خوابے اندر آؤندا
پھیر جاگدیاں اٹھ جاؤندا
میں وانگ زلیخا پچھدی
گلّ یوسف مصر بازار دی“۔
بھارت کے مشہورنقاد،مصنف اورتاریخ دان خوشونت سنگھ ایک ایسے انسان تھے جو اتنے بڑے مقام تک پہنچ کر بھی اپنی مٹی کے عشق میں مبتلا رہے اورپھر 20مارچ 2014ء کو اُن کا وجود اُسی مٹی میں شامل ہوگیا جہاں سے ان کا خمیر اُٹھا تھا۔خوشونت سنگھ 2فروری 1915ء کوپاکستان کے ضلع خوشاب کے ایک گاؤں ہڈالی میں پیداہوئے تھے۔برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں پڑھنے کے بعد انہوں نے واپس لاہور جا کر وکالت شروع کر دی تاہم تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت دلی میں بس گئے۔ وہ کچھ عرصہ وزارت خارجہ میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔1951ء میں صحافی کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری اختیار کر لی جہاں سے ان کے تابناک کیریر کا آغاز ہوا۔ وہ بھارت کے مشہور جریدے السٹریٹڈ ویکلی کے ایڈیٹر رہے اور ان کے دور میں یہ جریدہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ خوشونت سنگھ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔
خوشونت سنگھ نے اپنی شناخت جہاں سیاسی طور پہ پوری دنیا میں کروائی وہیں ادبی سطح پر بھی اپنے فن کا لوہاپوری دنیا میں منوایا۔وہ اسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے ناول "ٹرین ٹو پاکستان" کو 1954ء میں عالمی شہرت یافتہ۹ گروو پریس ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے دو کالم بھارت کے چالیس انگریزی اخباروں میں چھپتے رہے۔ اُن کی کتاب "ٹروتھ لو ایند لٹل مالیس" جس کا ترجمہ نگارشات نے سچ محبت اور ذرا سا کینہ کے نام سے کیا۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ان کی مشور کتابوں میں دہلی، ڈیتھ از مائی ڈورسٹیپ بے حد شہرت کا حامل ہیں۔خوشونت سنگھ کو 1974ء میں پدم بھوشن ایورارڈ دیا گیا جسے انہوں نے 1984ء میں گولڈن ٹیمپل آپریشن کے بعد واپس کر دیا۔خوشونت سنگھ کو پنجاب رتن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور 1980ء سے لے کر 1986ء تک راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔

اتنے بڑے مقام اورمرتبے پہ پہنچ کر بھی خوشونت سنگھ اپنے آبائی گاؤں ہڈالی کو کبھی نہ بھولے۔اسی محبت میں وہ ایک دفعہ اپنے آبائی گاؤں ہڈالی بھی تشریف لائے۔اس موقع پر ہڈالی کے لوگوں نے اپنی مٹی کے اس بیٹے کا پُرتپاک استقبال کیا۔گورنمنٹ ہائی اسکول ہڈالی میں جب تقریب سے خطاب کرنے کے لیے خوشونت سنگھ سٹیج پہ تشریف لائے تو اُن کے سامنے سکول کا وہ ہال تھاجہاں وہ خود پڑھاکرتے تھے۔اُسی ہال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے نمناک آنکھوں سے اپنی یادوں کوتازہ کرتے ہوئے کہا”میری یہ خوش قسمتی ہے کہ آج اتنے عرصے بعد میں وہاں کھڑاہوں جہاں میں پڑھاکرتاتھا۔ڈالی میراقصبہ ہے اوراس ناتے میرے نزدیک اس کی اہمیت مسلمانوں کے کعبہ سے کم نہیں ہے،اورمجھے یہاں آکر انتی ہی خوشی ہوئی ہے جتنی کسی مسلمان کو حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہونے پر ہوتی ہے۔“‘اس کے بعد خوشونت سنگھ اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکے اورروتے ہوئے سٹیج سے اُترگئے۔
سجدہ ریز ہوا میں 
قشقہ کھینچا اپنے گاؤں کی مٹی سے
کیا سوندھی خوشبو ہے
کیسا لمس ہے
کیا ٹھنڈک ہے اس کی
مٹی، جو کھیتوں، کھلیانوں 
گلیوں، کوچوں 
اور گھروں کے کچے صحنوں اور چھتوں سے
اُڑتی اُڑتی سات سمندر پار کئی برس سے مجھ کو ڈھونڈ رہی تھی
اب میرے گھر تک پہنچی ہے
اس مٹی میں بول رہے ہیں 
گھر، گلیاں، روزن، دروازے
دیواریں، چھجے، پرنالے۔
ہڈالی کی معروف ادبی شخصیت محمد علی اسد بھٹی جن سے خوشونت سنگھ کا قلمی رابطہ مرتے دم تک جڑارہا،خوشونت سنگھ اُن سے اپنی مٹی سے محبت کا اظہارکئی بارکرتے رہے۔محمد علی اسدبھٹی جب اَدبی دورے پہ بھارت گئے تو خوشونت سنگھ خصوصی طورپہ اُن سے ملنے چندی گڑھ پہنچ گئے اورساری رات اُن سے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے رہے۔محمدعلی اسد بھٹی کے مطابق وہ بار باراپنے بچپن کی بات بتاتے اورپھر روتے رہتے،بارباراُن کی زبان پہ یہی الفاظ ہوتے”ہائے ہڈالی،ہائے ہڈالی“۔کسی انسان کی اپنی جنم بھومی،اپنی جائے پیدائش سے اتنی گہری محبت کی مثالیں بہت کم ملاکرتی ہیں۔
خوشونت سنگھ ذاتی طورپہ ایک متنازعہ شخصیت رہے لیکن یہ سچ ہے کہ انھوں نے جو عزت دنیا بھر میں اپنی بے باکی اورسچ کا پرچارکرنے پہ پائی وہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔خوشونت سنگھ نے زندگی کی حقیقتوں کو سمجھااوربے باک ۹۹ سالہ زندگی گزاری۔وہ خود لکھتے ہیں کہ”زندگی میں کبھی ریٹائر نہ ہوئیے گا۔ کچھ نہ کرنے والے، کچھ بھی نہیں رہتے، اور اپنے انجام کی جانب جلد روانہ ہو پڑتے ہیں۔“اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتے ہیں ”میری ایک بہت بڑی فکر، اپنے وطن میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ہے۔ ہم ایک  بزدل قوم بنے جا رہے ہیں جو وہ کتابیں جلاتی ہے جو ہمارے خیال میں ہمیں پسند نہیں ہوتیں، ہم فنکاروں کو ملک سے باہر نکال دیتے ہیں، اور مصوروں کو بے عزت کرتے ہیں۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں کو مسخ کر دیا ہے، ہم فلموں کو بین کرتے اور صحافیوں کو پیٹتے ہیں۔ آپ اگر اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو کمیونل (ذات، قوم، فرقہ وغیرہ) بنیادوں پر بنی جماعتوں سے اپنے وطن کو بچانا ہوگا۔ریاست کو کسی بھی قسم کے کسی مذہبی گروہ کی سرپرستی نہیں کرنی چاہئیے۔ حکومت کو یہ چاہئے کہ وہ مزید عبادت گاہوں کی تعمیر روکے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ عبادت گاہیں موجود ہیں۔چاپلوسی سے بڑی کرپشن نہیں ہو سکتی۔“
خوشونت سنگھ کے والد سردار سوبھا سنگھ کو ”آدھی دہلی کا مالک“ کہاجاتا تھا۔کیوں کہ انگریز دورمیں نئی دہلی کی تعمیرات کا ٹھیکہ سردارسوبھا سنگھ کو ملاتھا۔سوبھاسنگھ کی تعمیر کر دہ عمارات نے دارالحکومت نئی دہلی کو تعمیرات کے ذریعے جو زندگی بخشی وہ آج بھی نئی دہلی کی پہچان ہیں۔لاتعدادرہائشی اپارٹمنٹس کے علاوہ نئی دہلی کا دل کناٹ پیلس،کلمنز فوڈ ہال،آل انڈیا براڈ کاسٹنگ،نیشنل میوزیم دیال سنگھ کالج،ٹی بی ہسپتال،گونگوں اوربہروں کا ماڈرن ہسپتال،سینٹ کولمبیا سکول،ریڈکراس بلڈنگ،بروڈہ ہاؤس اورہائی کورٹ سمیت لا تعداد عمارات سوبھا سنگھ کی ہی تعمیرکردہ ہیں۔سردارسوبھا سنگھ نے جب نئی دہلی کی تعمیرات کا ٹھیکہ لیا،اس وقت دہلی کے امیرترین لوگوں میں سرفہرست تھے۔
خوشونت سنگھ اتنے بڑے مقام پہ پہنچ کر،دونوں ممالک کی چتقلش کے باوجودوہ اپنی مٹی سے جڑے رہے۔اپنی مٹی سے جڑی وہ سب آوازیں،وہ یادیں ان کی تحریروں کا حصہ رہیں۔ان کی یہ وفا،ان کا یہ عشق اس بات کا ثبوت ہے کہ عشق کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ ہائی اسکول ہڈالی کے ہال کی دیوار میں خوشونت سنگھ کی وفات پر لگائی جانے والی یادگاری تختی پر تحریر ہے،””ایک سکھ،ایک دانشور اورہڈالی کا سپوت“۔۔۔۔اپنی جنم بھومی کے ساتھ عشق نے خوشونت سنگھ کو ہمیشہ کے لیے اَمر کردیاہے۔بے شک خوشونت سنگھ جیسے لوگ ہی بھارت پاکستان دونوں طرف کے لوگوں کے دلوں کے تار چھو سکتے ہیں۔
وہ قصہ گو
وہ باکمال شخص
وہ داستانِ عشق سنانے والا
مٹی سے اپنی وفا کے قصے
  سناسناکے رُلانے والا
سناہے وہ دھرتی کا بیٹا
دھرتی سے دوررہ کر بھی
اُسی دھرتی میں سوگیاہے
اُسی دھرتی میں سوگیا ہے