columns لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
columns لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 7 ستمبر، 2019

پائوں تلے گھاس


ناتمام۔۔۔۔ ہارون الرشید
      مہینوں تک ایک بھی چھٹی نہ کرنے والے آدمی کے پائوں تلے گھاس اگ آئی ہے ۔ وہ بددلی کا شکار ہے ، معلوم نہیں کیوں ؟ مشکلات نہیں بلکہ اندازِ فکر کی خرابی ہوتی ہے ، جو ایک پر عزم آدمی کو اس حال سے دوچار کرتی ہے ۔ 1992ء کے ورلڈ کپ میں پہلے چار میچ ہار کر بھی‘ جس آدمی کو ورلڈ کپ جیتنے کا یقین تھا ،اس کا مایوسی میں مبتلا ہونا حیرت انگیز نہیں؟دونیاں چونیاں مانگ کر شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج جیسے شاہکار جس نے تعمیر کیے۔ نمل کالج بہترین اداروں میں سے ایک ہے ۔بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے منسلک تھا تو سمندر پار منصوبوں کی نگران پروفیسر نے بتایا تھا : نمل کالج کے طلبہ کا تعلیمی معیار یونیورسٹی کے برطانوی کیمپس سے بہتر ہے ۔ پوچھا : انگریزی میں بھی ؟ جواب ملا: ہاں انگریزی میں بھی ۔ شوکت خانم کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ دو ہسپتال بن چکے ، تیسرا زیرِ تعمیر ہے ۔ شاید چوتھا اور پانچواں بھی بن جائے کہ اعتبار اور معیار قائم ہے ۔ کاروبارِ حکومت کی بات دوسری ہے ۔ اوّل دن سے کپتان کا مسئلہ یہی ہے کہ سیاست کوخود سمجھتا نہیں او رمشیر ناقص ۔ معاملہ فہم ہے اور نہ مردم شناس ۔ دھوکہ کھاتا ہے اور بار بار ۔ عدمِ تحفظ کے مارے ایک لیڈر نے ضمنی انتخابات میں پانچ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دلائے، جو سب کے سب ناکام رہے ۔ 2018ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن جیت لیا مگر صوبائی سیٹ پر ایک گمنام آدمی سے ہارا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہ بن سکا۔ منت سماجت سے خان پسیج جاتا ہے ۔ مشورہ دینے والوں میں سے بعض اوقات سب سے بعد والے کی بات مان لیتاہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں : آئینے میں آخری عکس ۔ بددلی کا اندازہ بدھ کو ایوانِ وزیرِ اعظم کے بیان سے ہوا۔یہ کہ گیس پر عائد ٹیکس کا معاملہ پھر سے عدالت کے سپرد۔ آخری سطور چونکا دینے والی تھیں : ممکن ہے کہ 208 ارب روپے حکومت کو اب نہ مل سکیں ۔ یہی نہیں ممکن ہے ، وصول کردہ 295 ارب بھی واپس کرنا پڑیں ۔ ایک دن پہلے وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا : ایک خاص مقصد کے لیے یہ مہم ہے کہ حکومت نے سرکاری خزانہ لٹا دیا۔ یہ تاثر میڈیا نے پیدا کیا ۔ خاکسار کے سوا ،تقریباً تمام اخبار نویسوں کی رائے یہ تھی کہ حکومتی فیصلہ بد نیتی نہیں تو حماقت کی پیداوار ہے ۔وزیرِ اعظم نے دھوکہ کھایا ہے ۔ واپس لیا گیا تو بعض نے وزیرِاعظم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ عا مر متین نے لکھا: یہ عظیم اخلاقی جرأت کا مظہر ہے ۔ غالباً میں واحد اخبار نویس تھا ، علی الاعلان جس نے سمجھوتہ کی تائید کی ۔دلیل یہ تھی ’’ سارا جاتا دیکھیے تو آدھا دیجیے بانٹ ‘‘۔ معاملہ سالہا سال اگر عدالتوں میں الجھا رہے تو سرکاری آمدن کم ہو گی اور ملک اس کا متحمل نہیں ۔ اپنی نظر سے زندگی کو دیکھنے والا ہر آدمی کبھی نہ کبھی تنہا رہ جاتا ہے ۔ یہ ناچیز بھی ان میں سے ایک ہے ۔ بے نظیر بھٹو نے سیلز ٹیکس نافذ کیا تو اس کی تائید کرنے والا بھی تنہا تھا۔ عمران خان سیاست میںآئے تو سولہ برس تک ان کی حمایت کرنے والے بھی تنہا۔ انسانی اندازے درست ہوتے ہیں اور نادرست بھی ۔ غلطی ہو جائے تو ہم اخبار نویس اعتراف نہیں کرتے ۔ درست ثابت ہو تو یاد دلاتے ہیں ’’کیا پہلے ہی میں نے کہہ نہ دیا تھا ؟ ‘‘ گیس ٹیکس پر وزیرِ اعظم کا بیان آیا تو صدمہ ہوا۔ فردوس عاشق اعوان کا موقف ‘ خود وزیرِ اعظم کا موقف تھا۔ چوبیس گھنٹوں میں یکسر تبدل کیسے ہو گئے ؟ یہ سوال میں نے ان دو تین آدمیوں میں ایک سے کیا، جو اس تصور کے بانی اور پرجوش حامی تھے ۔ وزیرِ اعظم کے مخلص ساتھی ، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والے ۔ پوچھا: وزیرِ اعظم پیچھے کیوں ہٹے ؟ بولے : وزیرِ اعظم کی کابینہ نے اس مشکل مقام پر انہیں پہنچا دیا کہ آگے کھائی تھی۔ پلٹ آنے کے سو اکوئی چارہ نہ رہا ۔ ’’میں سخت صدمے کا شکار ہوں ‘‘ وہ بولے ’’کابینہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ، سلیقہ مندی سے جو سرکاری موقف پیش کر سکتا ۔ کوئی ایک بھی اس ہنر میںتربیت یافتہ نہیں ۔ پوچھا :وزیرِ اعظم کو کیا یہ کہنا چاہئیے تھا کہ چار پانچ سو ارب کا خسارہ اگر ہوا تو مخالفت کرنے والے ذمہ دار ہوں گے ۔ جواب ملا: بالکل نہیں مگر وہ زچ ہو گئے ۔ یہی رائے اخبا رنویس عدنان عادل کی تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں ، جن کی دیانت شک و شبہہ سے بالاتر ہے اور جو بے تعصب سمجھے جاتے ہیں ۔ وزیرِ اعظم کے پلٹ جانے پر ان کی رائے بھی یہی تھی ۔ معلوم نہیں ‘ انہوں نے اظہار کیا یا نہیں ۔ غالبا یہ 1983ء تھا ۔ اس وقت افغانستان کی سب سے بڑی پارٹی حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے شدید ترین دبائو اور اصرار کے باوجود صدر ریگن کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا ۔ بحران یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی یقین دہانی پر امریکیوں نے ملاقات کی تاریخ اور وقت کا اعلان کر ڈالا تھا۔حکمت یار ڈٹے رہے ۔ زچ ہو کر صدر ریگن نے نیو یارک میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل میں اپنی صاحبزادی کو ایک نئے دعوتی کارڈ کے ساتھ بھیجا۔ اس نے کہا : صدرِ امریکہ سے اگر آپ ملنا پسند نہیں کرتے تو ازراہِ کرم مسٹر اینڈ مسز ریگن کے ساتھ چائے کی ایک پیالی پی لیجیے، ورنہ پوزیشن ان کی خراب ہو گی ۔ نیویارک سے واشنگٹن لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا ہے ۔ حکمت یار کا جواب یہ تھا:پیدل چل کر میں واشنگٹن جانے کے لیے تیار ہوں مگر میری شرائط ماننا ہوں گی ۔ یہ شرائط کیا تھیں ۔ گلبدین اپنے موقف پر کیوں ڈٹے رہے اور انہیں اس کی کیا قیمت چکانا پڑی ، یہ کہانی پھر کبھی ۔ اس پہ ضیاء الحق بہرحال بھڑک اٹھے ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبد الرحمٰن سے انہوں نے کہا : حکمت یار کو بتا دو کہ اگر ہم اسے بنا سکتے ہیں تو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ جنرل اختر عبد الرحمٰن نے افغان لیڈروں سے مستقل رابطے میں رہنے والے ‘ The Bear Trapکے مصنف بریگیڈئیر یوسف کو طلب کیا ۔اُس نے کہا : حکمت یار اور احمد شاہ مسعود وہ لوگ ہیں ، جن کے پائوں تلے گھاس نہیں اگتی ۔ اختر عبد الرحمٰن قائل ہو گئے اور انہوں نے صدر ضیاء الحق کو قائل کرلیا : بہت سخت پیغام دینے کی بجائے حکمت یار کا انتظار کرنا چاہئیے ۔ صدر ضیاء الحق ذاتی طور پر ان سے بات کریں ۔برسوں بعد حکمت یار سے میں نے پوچھاتو ان کا جواب یہ تھا : ضیاء الحق نے مجھ سے سوال تک نہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ حزبِ اسلامی کے بغیر افغانستان میں جنگ ہو سکتی ہے اور نہ امن۔ وزیرِ اعظم مایوسی کا شکار کیوں ہیں ؟ سمجھوتے پر کیوںآمادہ نظر آتے ہیں ۔ یہ ان کا مزاج تو نہ تھا۔ ملک کی ممتاز ترین شخصیات میں سے ایک نے مجھ سے کہا تھا : عدالتیں اور نہ افواج ، عمران خاں نے نواز شریف کو چلتا کیا ۔ ہمارے بس کی یہ بات نہیں تھی۔ کپتان کے بارے میں بھی تصور یہی تھا کہ اس کے پائوں تلے گھاس نہیں اگتی ۔ خود اس نے کہا تھا: حکومت تو کوئی چیز ہی نہیں جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں۔2007ء جنرل مشرف کے فرستادہ ایک باوردی جنرل نے دھمکی دی تو چمک کر کپتان نے کہا جلدی کرو میں بچ گیا تو چھوڑوں گا نہیں۔ابھی ابھی ایک ذمہ دار آدمی نے بتایا : خان صاحب تاخیر سے دفتر تشریف لاتے اور جلد چلے جاتے ہیں ۔ مہینوں تک ایک بھی چھٹی نہ کرنے والے آدمی کے پائوں تلے گھاس اگ آئی ہے ۔ وہ بددلی کا شکار ہے ، معلوم نہیں کیوں ؟۔۔۔بشکریہ روزنامہ 92

جمعرات، 5 ستمبر، 2019

اگر وہ بےگناہ نکلا تو.......

Image result for sohail warraich
سہیل وڑائچ
  حیران ہوں کہ ہم خوف زدہ بھیڑوں بکریوں میں یہ سرکش بوبکرا کیسے پیدا ہوگیا۔ ہم گھر بیٹھے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں اور وہ برسرِ عدالت کہتا ہے کہ جتنا مرضی ریمانڈ دے دیں میں تو وکیل بھی نہیں کرونگا، یہ عجیب شخص ہے، امیر ترین ہے مگر گھر کا فرنیچر 50سال پرانا ہے۔ ہمیں چار دمڑیاں مل جائیں تو ہم گھر کی آرائش بدل دیتے ہیں۔ وہ ائیر لائن کا مالک ہے مگر عام مسافروں کی طرح اکانومی میں سفر کرتا ہے۔ وزیراعظم تھا تو پروٹوکول اس کا حق تھا مگر تب بھی عام لوگوں کی طرح تلاشیاں دے کر ائیر پورٹس سے گزرتا تھا۔ ہم شہرت و پروٹوکول کے شوقین لوگ اور یہ اس سے دور بھاگنے والا شخص۔ یہ ہم میں کیسے پیدا ہوگیا۔ یہ شخص عجیب ہے بس عجیب۔ کوئی بہت پرانی بات نہیں جب یہ وزیراعظم تھا تو اس ریاست کے بڑے اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، آج بھی وہی بڑے برقرار ہیں مگر ان کا ممدوح جیل میں بند ہے۔ اس مردِ کوہستانی کی ایمانداری اور پروفیشنلزم کی تب بھی تعریفیں ہوتی تھیں اب بھی ہوتی ہیں، اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک وزیر مملکت جو اب تحریک انصاف کے حمایت شدہ وزیراعلیٰ ہیں، نے بتایا کہ یہ بندہ سیاستدان نہیں پروفیشنل ٹیکنو کریٹ ہے۔ ایک میٹنگ کا احوال سناتے ہوئے اس نے بتایا کہ دنیا بھر کے پروفیشنل ماہرین ایل این جی پر میٹنگ کررہے تھے جب یہ ٹیکنو کریٹ وزیر بولا تو سب پر جادو سا ہوگیا، سب اس کی معلومات اور موضوع پر اس کی گرفت پر حیران پریشان ہو گئے۔ وزیراعلیٰ کی طرف سے اس کی تعریفیں سن کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم نااہلوں میں اگر کوئی اہل آگیا ہے تو ہم اسے جیل پہنچا کر ہی چھوڑیں گے، میرا یہ یقین درست ثابت ہوا اور وہ اب جیل میں ہے اور دکھائو اپنی اہلیت۔ دنیا میرے جیسے اوسط ذہن لوگوں کی ہے، ہم اپنے سے بالاتر ذہنوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں، اسی روایت پر عمل جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ایسا سادہ ارب پتی زندگی میں نہیں دیکھا، دو موم بتیاں جلا کر پرانے پلنگ کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر برتھ ڈے مناتا ہے، سادہ کپڑے پہنتا ہے، عام گاڑی میں پھرتا ہے، والدین والے پرانے گھر میں ہی رہتا ہے، نہ پھوں پھاں نہ شوں شاں، یہ کیسا آدمی ہے؟ ایسی دولت اور ایسے عہدوں کا کیا فائدہ اگر آپ کا معیار زندگی نہ بدلے، آپ کو دیکھ کر یہ پتا ہی نہ چلے کہ آپ امیر ہیں، وزیر ہیں یا وزیر اعظم ہیں۔ ایسی امیری، ایسی وزیری کا کیا کرنا ہے؟ مگر یہ ایسا ہی ہے، منفرد ہے۔ ہمارے ملک میں یہ ایک ہی پیس (Piece) ہے اس لئے اس کا ٹھکانہ جیل ہی ہونا چاہئے، وگرنہ کل کلاں کو اس کا سایہ ہم جیسے دنیا داروں پر پڑ گیا تو ہم بھی خراب ہوں گے۔ اسے جیل میں رکھنا ہی بہتر ہے۔ مجھے تو یہ شخص پاگل لگتا ہے، بالکل ٹیڑھا، بھلا کون ہے جو خود روز اعلان کرتا پھرے ’’آبیل مجھے مار‘‘۔ یہ پاگل کہتا تھا کہ ایل این جی کے بارے میں پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھو، بار بار کہتا رہا میری وزارت عظمیٰ میں جو فیصلے ہوئے وہ شفاف تھے، میں جواب دینے کو تیار ہوں۔ پھر یہ پاگل بار بار نواز شریف کے حق میں بیان دیتا تھا، ہر ہفتے اسے ملنے جیل چلا جاتا تھا، اسے کچھ تو دنیا داری کی سمجھ ہونا چاہئے، وقت بدل چکا ہے ایسے دور میں خواجہ آصف کی طرح اپنا دامن بچا کر چلا جاتا ہے، مگر یہ بالکل ٹیڑھا تھا، اس لئے جیل کی سیر کررہا ہے، خواجہ آصف سے ہی کچھ دنیا داری سیکھ لیتا تو آج اسمبلی میں بیٹھا تالیاں بجا رہا ہوتا۔ پاگلوں اور ٹیڑھوں کا انجام یہی ہوتا ہے جو اس کا ہوا۔ اس شخص کے کوائفِ زندگی میں لکھا ہے کہ اس نے کیلی فورنیا یونیورسٹی لاس اینجلس اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے تو اس پر یقین نہیں ہے، بھلا باہر کے اچھے اداروں کا پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ جیلوں کے دھکے کیوں کھائے، اگر عقل مند ہوتا اور واقعی باہر کا پڑھا لکھا ہوتا تو وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد شوکت عزیز اور معین قریشی کی طرح لندن اور امریکہ جاکر وقت گزارتا اور جب حالات سازگار ہوتے تو واپس لوٹ آتا۔ بابو لوگوں کا کیا کام ہے سیاست کے گند میں ہاتھ ڈالنا، جیلوں میں سڑنا یا پھر عدالتوں کے دھکے کھانا۔ باہر سے پڑھے لکھے تو صرف حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں سزائوں کے لئے نہیں۔ اسی لئے مجھے لگتا ہے یہ باہر کا تعلیم یافتہ نہیں یہیں مری کی کسی گلی کا نام کیلی فورنیا رکھ کر اس نے وہاں کی ڈگری لے لی ہے اسی لئے لندن اور نیویارک میں اسے پناہ نہیں مل سکی۔ میں خوش ہوں کہ ہم خوف زدہ بھیڑوں کے درمیان پیدا ہونے والا یہ بوبکرا، ہم ایک جیسے نارمل اور ابن الوقت لوگوں میں یہ عجیب شخص، ہم نام و نمود کے خواہشمندوں میں یہ سٹا ہوا آدمی جیل میں ہے، میں ڈرتا ہوں کہ یہ پروفیشنل ٹیکنو کریٹ کہیں باہر نکل کر ہماری دنیا کو آلودہ نہ کردے۔ عام سی گاڑی رکھنے والا یہ سادہ آدمی، جیل سے باہر نکل آیا تو اس نے ہماری اور حکمران طبقے کی آسائشوں پر سوال اٹھا دینا ہے، یہ شخص پورے معاشرے کا مجرم ہے، یہ ہمارے نظام کا مخالف ہے، یہ ہماری اقدار کا مخالف ہے، یہ اشرافیہ اور عوام سب کا مخالف ہے، اسے ہر صورت جیل میں بند رکھنا چاہئے، اس کی زبان بندی کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہیں یہ بول پڑا تو ہمارا یہ خوبصورت خواب ٹوٹ نہ جائے۔ مجھے صرف ایک اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں مقدمات میں یہ بےگناہ نہ نکل آئے اگر ایسا ہوا تو آسمان ٹوٹ پڑے گا، ہم کل کو اپنے بچوں کو کیا جواب دینگے کہ ایک بوبکرا، ایک عجیب پاگل شخص ہم سے جیل میں بند نہ رکھا جا سکا۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جنگ

عوام کی خدمت آرڈیننسوں کے ذریعے کرنے کو مجبور ہوئی حکومت

 بر ملا ۔۔۔۔۔۔۔نصرت جاوید
  منگل کی شام ڈھلتے ہی سینٹ کا اجلاس ختم ہوا تو کارپارک کی جانب بڑھتے ہوئے پارلیمانی راہداری میں ایک صاحب سے ملاقات ہوگئی۔موصوف سیاست دان نہیں ہیں۔قومی اسمبلی یا سینٹ کے رکن بھی نہیں۔1990کی دہائی سے مگر انہیں مختلف حکومتوں کی ’’مشاورت‘‘ فرماتے دیکھ رہا ہوں۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ عمران خان صاحب کی بے پناہ عقیدت میں مبتلا ہیں۔مجھے دیکھتے ہی دعویٰ کیا کہ میری عمر بہت لمبی ہوگی کیونکہ چند ہی لمحے قبل وہ مجھ سے ملاقات کا ارادہ بنارہے تھے۔ سینٹ کا اجلاس ختم ہوتا ہے تو مجھے گھر پہنچ کردی نیشن کے لئے پریس گیلری والا کالم لکھنے کی جلدی ہوتی ہے۔وہ مگر میرے ہمراہ چلتے رہے اور میری گاڑی کے قریب پہنچ کر تھوڑی دیر کے لئے ایک ’’اہم بات‘‘ کرنے کا وقت طلب کرلیا۔ میں ہمہ تن گوش ہوگیا تو انہوں نے بہت فکرمندی سے اس رائے کا اظہار کیا کہ چند ٹی وی ٹاک شوز میں گزشتہ چند دنوں سے ’’اچانک‘‘ عمران حکومت کے خلاف تندوتیز گفتگو ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یہ گفتگو کسی ’’تبدیلی‘‘ کا ’’اشارہ‘‘ تو نہیں؟ انتہائی دیانت داری سے میں نے انہیں بتایا کہ میں ٹی وی صحافت سے وابستگی کے دوران بھی ٹی وی دیکھنے کا عادی نہیں تھا۔گزشتہ کئی ہفتوں سے اپنے کمرے میں نصب ٹی وی کو آن ہی نہیں کیا۔ صرف عمران خان صاحب کے قوم سے خطاب والے دن تھوڑی دیر کو ریموٹ دبایا تھا۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ان دنوں ٹی وی ٹاک شوز عمران حکومت کے بارے میں کیا ماحول بنارہے ہیں۔ یہ اعتراف کرنے کے بعد میں نے بہت خلوص سے یہ بھی عرض کیا اگر ٹی وی پر عمران حکومت کے خلاف گفتگو کی گنجائش پیدا ہورہی ہے تو مہربانی فرماکر میرے لئے بھی کسی سکرین پر نمودار ہونے کی راہ نکالی جائے۔دل میں جمع ہوئی بھڑاس کی نکاسی کا بندوبست ہوجائے گا اور چند پیسے بھی مل جائیں گے۔ میری فریاد کو انہوں نے ’’پھکڑپن‘‘ ٹھہرایا۔ اصرار کیا کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود میں زندگی کے معاملات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوپایا۔ اسلام آباد میں کئی برسوں سے مقیم حکومتی معاملات پر نگاہ رکھتے ہوئے مگر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں ’’حکومت کے خلاف‘‘ پکنے والی ’’کھچڑی‘‘ سے لاعلم ہوں۔ قسم اٹھانے کی مجھے عادت نہیں۔ اپنی لاعلمی کو دہراتے ہوئے رخصت کا طلب گار ہوا۔ وہ مگر مزید گفتگو کرنے کو مصررہے۔ مارے مروت کے میں کھڑارہا۔ بہت احترام سے ان کی گفتگو ختم ہونے کے بعد میں نے انہیں اطمینان دلانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ عمران حکومت کے لئے میری دانست میں ستے خیراں ہیں۔ اپنے دعویٰ کے اثبات میں انہیں منگل کے روز ہوئی سینٹ کی کارروائی یاددلانا پڑی۔ منگل کی سہ پہر تک یہ طے ہوچکا تھا کہ سینٹ کااجلاس 6ستمبر تک جاری رکھا جائے گا۔حکومت نے مگر منگل ہی کے دن ایک نہیں چار آرڈیننس ایوان میں پیش کرتے ہوئے ایوانِ بالا کے طویل رخصت پرجانے کی ’’خبر‘‘ بھی سنادی۔ راجہ ظفر الحق،میاں رضا ربانی اور محترمہ شیری رحمن پارلیمانی روایات کے مطابق قانون سازی کے عمل کو نظرانداز کرتے ہوئے ’’صدارتی آرڈیننسوں‘‘ کے ذریعے حکومت چلانے کے رویے پر تندوتیز تقاریر فرماتے رہے۔حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے سراج الحق صاحب نے بھی ’’غیرجانبداری‘‘ بھلاکر حکومت پر سخت تنقید فرمائی۔ ان تمام اپوزیشن رہ نمائوں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ آرڈیننسوں کے ذریعے جو قوانین مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کا حتمی مقصد فقط چند کاروباری لوگوں کو بے پناہ مالیاتی رعایتیں فراہم کرناہے۔ حیران کن بات یہ بھی رہی کہ سینٹ کے حالیہ اجلاس میں وہ آرڈیننس ایوان کے روبرو پیش ہی نہیں ہوا جس کے ذریعے کھادبنانے،بجلی پیدا کرنے اور ٹیکسٹائل سے متعلق چند کاروباری افراد کو 200ارب روپے سے زیادہ رقم معاف کردی گئی ہے۔غالباََ حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ اپنی بھاری اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں باہم مل کر مذکورہ آرڈیننس کو نامنظور کردیں گی۔ حکومت کے ذہن میں موجود خدشات کی بنیاد غالباََ یہ حقیقت رہی ہوگی کہ سینٹ کا حالیہ اجلاس شروع ہونے کے پہلے ہی دن اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو نامنظور کردیا جس کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC)کی تنظیم نو ہونا تھی۔ PMDCایک بہت تگڑا ادارہ ہے۔ یہ نجی سرمایہ کاروں کو طبی تعلیم پھیلانے کی اجازت دیتا ہے۔ان کے چلائے اداروں کی عطاکردہ ڈگریوں کو مستند ٹھہراتا ہے۔ نجی سرمایہ کاروں کی ’’فیاضی‘‘ سے وطن عزیز میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں کے قیام کو فروغ دینے کے نام پر بنائے PMDCمیں ہر حکومت ’’اپنے بندے‘‘ لگانے کو بے چین رہتی ہے۔ تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ایک سال ہوگیا ہے۔اس کے حامیوں میں بھی یقینا بہت ہی ذہین افراد صحت عامہ سے جڑے مسائل کے بارے میں انتہائی فکر مند ہوں گے۔ ان کی ذہانت پی ایم ڈی سی کو ہنگامی بنیادوں پر درکار رہی ہوگی۔ اس لئے مذکورہ ادارے کی تنظیم نو کے لئے عجلت میں ایک آرڈیننس کا اجراء ہوا۔ اپوزیشن نے مگر اسے رد کردیا۔ تحریک انصاف کے ذہین افراد کوپی ایم ڈی سی میں کھپانے کے لئے اب نئے آرڈیننس کی ضرورت ہوگی۔ عمران حکومت کے خلاف مبینہ طورپر ’’میڈیا میں پکتی کھچڑی‘‘ پرپریشان ہوئے مہرباں دوست کو میں نے یاددلایا کہ سینٹ کا اجلاس طویل عرصے تک مؤخرہونے سے قبل ایوان میں تحریک انصاف کے لگائے قائدِ ایوان جناب شبلی فراز نے بھی ایک تقریر فرمائی ہے۔ اس تقریر کے ذریعے احمد فراز کے ہونہار فرزند نے فکرمندی سے گلہ کیا کہ چند اپوزیشن رہ نمائوں کی کرپشن کے الزامات کے تحت ہوئی گرفتاریوں سے اپوزیشن ناراض ہوگئی ہے۔طیش میں آکرسینٹ سے وہ قوانین بھی منظور نہیںہونے دے رہی جو خلقِ خدا کی بھلائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران حکومت لاگوکرنا چاہ رہی ہوتی ہے۔حکومت عوام کی خدمت لہذا ’’آرڈیننس‘‘ کی بدولت لاگو ہوئے قوانین کے ذریعے کرنے کو مجبور ہے۔ آرڈیننسوں کے خلاف شیری رحمن،رضاربانی،سراج الحق اور راجہ ظفر الحق کی جانب سے ہوئی تندوتیز تقاریر نے حکومتی سینیٹروںکو یقینا تھوڑاشرمندہ اور زیادہ پریشان کیا۔شبلی فراز کی تقریر نے مگر واضح انداز میں یہ عندیہ دے دیا کہ سینٹ میں خلقِ خدا کی بہتری اور سہولت کے لئے بنائے قوانین کی سرعت اور آسانی سے منظوری کے لئے حکومت کو ’’کچھ کرنا‘‘ ہوگا۔ سینٹ میں قانون سازی کے عمل میں سبک رفتاری لانے کے لئے ضروری ہے کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کی ایک مؤثرتعداد ’’قوم کے وسیع ترمفاد‘‘ میں اب دریافت کرلے کہ ’’منفی سیاست‘‘ کا دورگزرچکا ہے۔اپوزیشن بنچوں پر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے اراکین کب تک نواز شریف کی ’’ضد‘‘ کے باندی رہیں؟۔ پیپلز پارٹی سے بھی چند ایسے افراد برآمد ہونے کی امید ہے جو خود کو آصف علی زرداری کے ’’فیک اکائونٹس‘‘ کا دفاع کرنے میں ندامت محسوس کررہے ہیں۔’’فارورڈبلاکس‘‘ کی کہانیاں شاید اسی باعث فروغ پارہی ہیں۔ مجھے ایک قابل اعتبار حکومتی ’’ذریعہ‘‘ نے بتایا ہے کہ قومی اسمبلی یا سینٹ کے آئندہ اجلاس مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں سے فارورڈ بلاکس کے نمودار ہونے کے بعد ہی بلائے جائیں گے۔ میں نے یہ ’’خبر‘‘ اس مہربان کے گوش گزار کردی جو میری کار کے قریب کھڑے تھے۔ میری بتائی ’’خبر‘‘ کی چندناموں کے استعمال کے بعد ’’تصدیق‘‘ کے باوجود وہ صاحب مطمئن دکھائی نہ دئیے۔ ’’میڈیا میں پکتی کھچڑی‘‘ کے بارے ہی میں پریشان رہے۔۔۔ بشکریہ نوائے وقت

بدھ، 4 ستمبر، 2019

ڈیل یا ڈھیل کی چل نکلنے والی بات


 برملا ۔۔۔۔۔۔۔ نصرت جاوید
 اپنی صحافتی عمر کا بیشتر حصہ میں نے عملی رپورٹنگ میں صرف کیا ہے۔ خارجہ امور پر نگاہ رکھنے کے علاوہ بنیادی ذمہ داری میری ملکی سیاست کے اُتار چڑھائو اور جوڑ توڑ کو بیان کرنا رہی۔ کئی دہائیوں تک پھیلے اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیران ہوں کہ گزشتہ چند دنوں سے نواز شریف کے ساتھ ڈیل یا ڈھیل کی افواہیں ایک بار پھر گردش میں ہیں۔شنید یہ بھی ہے کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ میں سے ’’فارورڈبلاک‘‘ نمودار ہونے ہی والا ہے۔میڈیا میں ان دونوں حوالوں سے برپاشوروغوغا کے باوجود ایک لمحے کو بھی لیکن میرے دل میں یہ خواہش بیدار نہیں ہوئی کہ ان لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے جنہیں میری دانست میں حکومت اور حکومت مخالف حلقوں میں فیصلہ سازی کے عمل تک کماحقہ رسائی میسر ہے۔ ’’ذرائع‘‘ سے تفصیلی بات چیت کے بعد صحافت کے بازار میں پھیلی افواہوں کی تردید یا تصدیق کی راہ نکالی جائے۔ باخبر لوگوں سے ملاقاتوں کی بدولت حاصل ہوئی معلومات کو بعدازاں ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل میں ابھرتے امکانات کو دریافت کرنے کی کوشش ہو۔ اپنے دل ودماغ پر ملکی سیاست کے بارے میں چھائی لاتعلقی کو میں نے اس مایوسی اور اداسی کا شاخسانہ ٹھہرایا جو گزشتہ کئی ماہ سے اپنا مقدر ہوئی نظر آرہی ہے۔عمر کے آخری حصے میں نازل ہوئی کاہلی کو بھی اس لاتعلقی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بعدازاں مگر خیال آیا کہ مبینہ مایوسی اور اداسی کے باوجود ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنا شروع کردیتا ہوں۔بے شک رزق کمانے کے لئے یہ مشقت ضروری ہے۔رپورٹر سے کالم نگار ہوئے صحافی کو مگر بیچنے کے لئے ’’سودا‘‘ بھی درکا ر ہوتا ہے۔ میرے ’’چھابے‘‘ میں وقتاََ فوقتاََ کسی نہ کسی ’’خبر‘‘ کی موجودگی ضروری ہے۔اس کے بغیر قاری یہ کالم پڑھنا چھوڑدیں گے۔یہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو لوگ اسے Likeیا Shareکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔افواہوں کی تصدیق یا تردید کے سفر پر ایک رپورٹر کے لگن کے ساتھ روانگی پر آمادہ ہونے سے قبل مگر ضروری ہے کہ مذکورہ افواہیں کسی نہ کسی صورت آپ کے ذہن کو ’’منطقی‘‘ انداز میں قائل کرتی نظر آئیں۔ اس تناظر میں ٹھنڈے دل سے غور کیا تو یہ اصرار کرنا ضروری سمجھا کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت شہباز شریف صاحب کی قیادت میں گزشتہ کئی مہینوں سے ایک پنجابی لطیفے میں بیان کردہ ’’کونے میں بیٹھ کر دہی کھارہی ہے‘‘۔ اس جماعت میں ’’بولتے جو چندتھے‘‘نیب کی حراست میں ہیں۔رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کے حوالے سے ایک کیس زیر سماعت ہے۔ کسی سیاست دان کے لئے منشیات کا الزام قتل کے الزام سے بھی سنگین تر ہوا کرتا ہے۔احتساب یا دیگر الزامات کے حوالے سے شکنجے میں جکڑے مسلم لیگی رہ نما آفت کی گھڑی میں تقریباََ تنہا دِکھ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں اپوزیشن کی جانب سے ان کا سرسری تذکرہ ہوتا ہے اور پھر رات گئی بات گئی والا معاملہ۔ایک چینی محاورے میں بیان ہوئے تندوتیز ہوا کے سامنے سرجھکا کر ڈنگ ٹپاتی سیاسی جماعت سے ’’فارورڈبلاک‘‘ نکالنے کا میری ناقص رائے میں کوئی منطقی جواز موجود نہیں ہے۔چند ہی ہفتے قبل ایوانِ بالا کے 64اراکین میری اور آپ کی آنکھوں کے سامنے فلورپر کھڑے ہوئے۔ انہوں نے بآواز بلند اعلان کیا کہ انہیں سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پر اعتماد نہیں ہے۔وہ انہیں اس منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں۔مذکورہ اعلان کے چند ہی لمحوں بعد خفیہ رائے شماری شروع ہوئی۔اس کے اختتام پرانکشاف ہوا کہ تنہائی میں بیلٹ پیپرپر مہر لگاتے ہوئے 15اپوزیشن اراکین کا ’’ضمیر‘‘ جاگ گیا۔ صادق سنجرانی اس کی بدولت اپنے عہدے پر قائم ہیں۔اپوزیشن کے تقریباََ ہر رہ نما نے سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اعلان کیا کہ وہ اپنی صفوں میں ’’چھپے غداروں‘‘کی نشان دہی کریں گے۔کئی ہفتے گزرجانے کے باوجود یہ نشان دہی نہیں ہوپائی ہے۔ایوان بالا میں ’’اکثریت‘‘ کی حامل جماعتیں کامل سکون سے بلکہ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرتی نظر آرہی ہیں۔پیرکی سہ پہر میں سینٹ کی گیلری میں موجود تھا۔قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس دیکھنے کے بعد میں The Nationکے لئے پارلیمانی کارروائی کے بارے میں انگریزی کالم بھی لکھتا ہوں۔پیرکی سہ پہر سینٹ کی گیلری اور پریس لائونج میں تین سے زیادہ گھنٹے گزارنے کے باوجود مگر گیلری والا کالم لکھنے کو مائل نہ ہوا۔ حکومتی اور اپوزیشن سینیٹر اس اجلاس میں شیروشکر نظر آئے۔حتیٰ کہ پارلیمانی امور کے نگران وزیر اعظم سواتی نے اس قانون کی مخالفت بھی نہیں کی جو آصف علی زرداری کے وکیل سینیٹر فاروق نائیک نے نیب کے اختیارات میں نرمی لانے کے لئے متعارف کروایا تھا۔ان کا تجویز کردہ قانون متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اگرچہ مجھے کامل یقین ہے کہ فاروق نائیک کی جانب سے متعارف کردہ قانون کے حتمی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی عمران حکومت اپنے وزیر قانون فروغ نسیم کی ذہانت سے تیار کردہ ایک قانون کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کردے گی۔ مقصد اس قانون کا نیب کے اختیارات میں کمی لانا ہوگا۔ وہ آرڈیننس لاگو ہوگیا تو فاروق نائیک اس کو چند ترامیم کے اضافے کے ساتھ سینٹ سے منظور کروالیں گے۔قومی اسمبلی میں حکومت کو پہلے ہی مناسب اکثریت میسر ہے۔ اس کا بھرپور اظہار بجٹ کی منظوری کے ذریعے ہوچکا ہے۔ انیس سو پچاسی 1985 سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں کے بارے میں مستقل مشاہدے پر مبنی انگریزی کالم لکھتا رہا ہوں۔پیر کی سہر پہر سینٹ میں نظر آئے ماحول پر غور کے بعد ذاتی طورپر مجھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) سے ’’فارورڈ بلاکس‘‘ برآمد کروانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔خالصتاََ عملی اعتبار سے ’’فارورڈبلاکس‘‘ کی ضرورت میری دانست میں فی الوقت IMFکی تسلی کے لئے محسوس ہورہی ہے۔پاکستان کو 39ماہ تک پھیلے Bailout Packageپر کامل درآمدکو یقینی بنانے کے لئے آئی ایم ایفسٹیٹ بینک کی خودمختاری وغیرہ کے نا م پر چند قوانین کا متعارف کروانا ضروری سمجھ رہی ہے۔ہمیں ’’بیل آئوٹ‘‘دینے والوں کی واضح خواہش ہے کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو ’’صحت یاب‘‘ بنانے کے لئے جونسخہ تیا ر کیا ہے اسے فقط عمران حکومت کو تقویت پہنچاتا نسخہ تصور نہ کیا جائے۔گزشتہ دس برسوں میں حکومتی ’’باریاں‘‘ لینے والی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی کھل کر اسے "Own"کرتی نظر آئیں۔ آئی ایم ایف کے تیار کردہ نسخے نے پاکستان میں پھیلی کسادبازاری کو سنگین تر بنادیا ہے۔بجلی اور گیس کے نرخ اس کی وجہ سے ناقابلِ برداشت حدوں کو چھورہے ہیں۔خلقِ خدا پر نازل ہوئی مصیبتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی IMFکے تیارکردہ نسخے کے خلاف بیان بازی کو مجبور ہیں۔ ریاستی اور حکومتی مجبوریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مگر وہ اپنے تجربات کے باعث اس نسخے کو ’’نامنظور‘‘ کروانے والی کوئی عوامی تحریک چلانے سے گریز کریں گی۔IMFکو سیاسی مجبوریوں کے نام پر اپنائی یہ منافقت قبول نہیں۔اصرار ہورہا ہے کہ اس کا تیارکردہ نسخہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے من وعن قبول کیا جائے۔ماضی میں حکمران رہی دونوں جماعتیں بھی مطلوبہ قانون سازی کے عمل میں بھرپور حصہ لیتی نظر آئیں۔ آئی ایم ایف کی خاطر عمران حکومت کو پارلیمانی معاونت فراہم کرنے کو تیار سیاسی جماعتوں کو مگر اپنی حمایت کا کھل کر اظہار کرنے سے قبل نیب کی حراست میں موجود رہ نما یاد آجاتے ہیں۔اسی باعث ڈیل یا ڈھیل کی بات چل نکلی ہے۔۔بشکریہ نوائے وقت

منگل، 3 ستمبر، 2019

دنیا خاموش کیوں؟

Image result for rasool bakhsh raees
 کب تک ۔۔۔۔۔۔۔ رسول بخش رئیس
 کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں‘ عالمی طاقتیں اورمسلمان ممالک‘ جن سے ہم بے معنی توقعات باندھ لیتے ہیں ‘ سبھی کو سانپ سونگھ گیا ۔ صرف ایران کی جانب سے بھارت کو انصاف سے کام لینے کی ہلکی پھلکی تاکید کی گئی ۔ ہم ہیں کہ روزانہ میڈیا میں‘ کانفرنسوں اور جلسے جلوسوں میں دہائی دے رہے ہیں۔ کشمیری محبوس ہیں۔اُن کی خفیہ‘ لیکن یقینی طور پر نسلی کشی کی جارہی ہے ۔ بڑے پیمانے پر قتل ِعام ہوسکتا ہے۔ بھارت کے وزیر ِاعظم نریندر مودی نے پاکستان اور کشمیریوں کو بیک وقت دھوبی پٹکا مارا ہے ۔وہ پہلا وار کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں‘ مگر طاقت کے نشے میں غالباًوہ کشمیریوں کی مزاحمت کی تحریک کا غلط اندازہ لگارہے ہیں۔جارح سب سے پہلے بڑا وار کرتا ہے ۔ اُسے زعم ہوتا ہے کہ جنگ کا میدان اُس کے ہاتھ میں ہے ‘ آئندہ کا نقشہ بھی وہ اپنی مرضی مفادات سے ترتیب دے گا‘ لیکن طاقت کے استعمال اور مزاحمت کا گہرا تعلق ہے ‘ خاص طور پر جب دوقومیتوں کا ٹکرائو مذہب یا نسل کی بنیاد پر ہو۔ کشمیریت ایک قومی جذبہ ہے ‘جس میں مسلمان‘ ہندو‘ بدھ مت اور سکھ ‘ سب زبان‘ تاریخ اور مکانی نسبت سے کشمیری ہیں۔ یہاں تک کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی آخری دم تک کوشش کی کہ کشمیر کی منفرد حیثیت باقی رہے ۔ انہوں نے الحاق اسی شر ط پر کیا تھا کہ انڈیا کے پاس صرف دفاع‘ کرنسی اور مواصلات کے شعبے ہوںگے ۔ معاملات بھارت اور پاکستان کی آزادی کے ساتھ خراب ہوئے۔ تین جون کے منصوبے کو حرف ِآخر سمجھا گیا۔ ریاستوں کے لیے کوئی بھی تیسرا راستہ نہ تھا‘ آزادی دینے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ نوابی ریاستوں کو کسی نہ کسی کا حصہ بنناتھا۔ پاکستان اور بھارت کی آزادی کا راستہ تو آئینی اور قانونی تھا‘ مگر آزادی کی صبح خون میں نہائی ہوئی طلوع ہوئی ۔ اُس میںسب کا خون شامل تھا۔مسلمان‘ سکھ اور ہندو۔ کون زیادہ مارے گئے‘ کون کم؟ کس نے کہاں اور معصوم لوگوں کا قتل ِعام شروع کیا؟ گھر جلے ‘ گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ یہ سب ثانوی باتیں ہیں۔ اُس خون کے گہرے دھبے صرف تاریخ ہی میں نہیں‘ دونوں ریاستوں کے دوطرفہ تعلقات اور انتہا پسند تنظیموں کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔ اُس خون خرابے میں کشمیر بھی دو حصوں میں بٹ گیا‘ اور آج تک دونوں ریاستوں کے درمیان تنازعے کی وجہ بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ ستر برسوں کے دوران انڈیا نے گاجر اور ڈنڈے کی پالیسی اپنا ئے رکھی ۔ ڈنڈا گولیوںکی صورت بہت استعمال ہوا۔ کئی دہائیوں سے جعلی مقابلے کرکے کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے ۔ ہزاروں قیدو بند‘ اور جسمانی تشدد کی اذیت جھیل رہے ہیں۔ پیلٹ گن کے چھروں نے سینکڑوں کی بینائی چھین لی ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق کئی ہزار کشمیری جاں بحق کیے جاچکے ہیں۔ پانچ اگست کے بعد‘ جب سے کشمیر کی رہی سہی داخلی خودمختاری کا خاتمہ ہوا‘ مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ ہے ‘ سکول بند‘ ہسپتال بند‘ تجارت ختم‘ مواصلات کا نظام معطل‘ لوگ گھروں میں محبوس ہیں۔ بھارت کو خوف ہے کہ کرفیو ختم ہوا تو لوگ باہر نکلیں گے‘ جلوس نکلیں گے ‘ بپھرے ہوئے عوام اینٹوں اور پتھروں سے قابض فوج پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ پاکستان کا کشمیر کی آزادی‘ خودمختاری اور اپنے ساتھ الحاق کا مطالبہ ایک طویل داستان رکھتا ہے ۔ بھارت کے ساتھ ٹکرائو‘ تزویراتی حکمت ِعملی کی بنیاد‘ اور سلامتی کا مرکز ِثقل مسئلہ کشمیر ہی رہا ہے ۔ ہمارا کشمیریوں کا ساتھ دینا ہماری اپنی بقا اور سلامتی کی جدوجہد کا حصہ ہے ۔ مصیبت کی اس گھڑی میںکشمیری پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مؤثر انداز میں کشمیر کی موجودہ صورت ِحال اور فسطائیت پرمبنی بھارت کی پالیسی کو دنیا کے سامنے رکھا ہے ۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے رابطے کیے‘ سلامتی کونسل میں ایک عرصے کے بعد یہ مسئلہ زیر ِ بحث آیا‘ مغرب کی بڑی طاقتوں کے سربراہوں کے ساتھ بھی وزیر ِاعظم عمران خان نے رابطے کئے اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ لیکن یہ سب رد ِعمل واجبی سا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بڑی طاقتیں اور زیادہ تر اسلامی ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے؟ امریکی صدر نے دوبارہ ثالثی کی بات کی‘ مگر اس شرط پر کہ پاکستان اور بھارت‘دونوں ثالثی تسلیم کریں۔ بھلا بھارت ایسا کیوں کرے گا؟ زیادہ تر ممالک نے یہ کہہ کر ہمیں ٹال دیا کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پتہ نہیں ہمیں عالمی سیاست کی اصلیت‘ ریاستوں کے کردار‘ بین الاقوامی تعلقات کی ساخت کب سمجھ میں آئے گی؟ اس ضمن میں کچھ گزارشات ہیں: عالمی سطح پر ناانصافی اور امن ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ ہر فلسفہ ‘ ہرنظریہ اور معقولیت یہی کہتی ہے کہ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ریاست کے داخلی نظام میں اگر انصاف نہ ہو تو امن قائم ہی نہیں رہتا‘ اگر دکھائی دیتا ہے تو جبر اور طاقت کے استعمال سے‘ اور داخلی انصاف کا نظریہ وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے ‘ جیسا کہ حقوق‘ اقتصادی ناہمواری کا خاتمہ اورتقسیم ِ زر کے پیمانے۔ خارجی طور پر انصاف فوجی طاقت‘ اور اس کے استعمال کے تابع ہے ۔ ہرطاقتور انصاف کا معیار خود ترتیب دیتا ہے ۔ طاقتور ظالم بھی ہے اور منصف بھی ۔ کمزور اور ناتواں قوموں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا‘ سوائے اُن کے جن کا براہ ِراست مفاد جڑا ہوتا ہے ۔ ان حالات میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کا کشمیری عوام کے ساتھ براہ ِراست مفاد ہے اور کشمیریوں کی حمایت ہماری قومی سلامتی ‘ خارجہ اور داخلی پالیسیوں کا بنیادی حصہ رہی ہے ۔بیرونی دنیا انسانی حقوق کی پامالی سے کم ہی متاثر ہوتی ہے۔ جب تک آگ کے شعلوں سے دوسروں کو خطرہ نہ ہو‘ کوئی پروا نہیں کرتا ۔ کسی دور کے گھر کوآگ نے لپیٹ میں لے رکھاہو‘ اس کے مکین جل رہے ہوں‘ تودوسروں کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ عمران خان نے نیویارک ٹائمز میں اپنے مضمون میں ایک تاریخی نکتہ اٹھایا‘ مغربی طاقتوں کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی تنبیہ کی ‘ درست کہا ہے کہ اگروہ سوچتے ہیں کہ بھارت کی کشمیر پالیسی کے اثرات اُن تک نہیں پہنچیں گے تو وہ سخت غلطی کررہے ہیں۔ یہ وہی غلطی ہوگی کہ جس کی وجہ سے فسطائی جرمنی کو شہ ملی‘ اور وہ ایک کے بعد دوسری ریاست پر فوج کشی کرتا چلا گیا۔ عالمی جنگ اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی ''مٹی پائو‘‘ پالیسی کا نتیجہ تھی۔ اب آہستہ آہستہ مغربی میڈیا ‘ کچھ دانشوروں اوراراکین ِ پارلیمنٹ کی طرف سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں‘ مگر ابھی تک بے اثر اور بے نتیجہ ۔ کسی قوم کا مفاد براہ ِراست کشمیریوں سے وابستہ نہیں۔ انصاف اور انسانی حقوق کی پامالی کی دلیل وسیع مادی مفادات کے سامنے بے وقعت دکھائی دیتی ہے ۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ امید کی شمع جلتی رہی ہے‘ جدوجہد جاری ہے‘ اور انصاف ہدف ہے ۔ طاقت پر مبنی عالمی نظام ٹوٹ تو نہیں سکتا‘ لیکن انسانی حقوق کی کھلی پامالی پر دنیا زیادہ دیر تک خاموش بھی نہیں رہ سکتی ۔ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کے خلاف مغرب اور مشرق ‘ ہر جگہ دہشت گردی کا بیانیہ غالب رہا۔ ہماری تہذیب‘ اسلامی روایات اور عقائد کو انتہا پسندی‘ جہادی اور عسکریت کے رنگ میں پیش کیا گیا ۔ نائن الیون کے واقعات مغرب کے نزدیک تہذیبی ٹکرائو کی عملی صورت تھے ۔ اس سوچ کی وجہ سے آزادی کی جدوجہد کو بھی دہشت گردی کی جنگ قرار دے دیا گیا۔ دنیا میں سوچ کے زاویے تبدیل ہوگئے ‘ حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر اُن کے خلاف عسکری کارروائی کا جواز مل گیا۔ افغانستان سے لے کر سوڈان تک‘ ہر مسلمان ملک میں آگ لگی ہوئی ہے ۔ نہ صرف قومی ریاستیں کچھ مخالف گروہوں کے خلاف برسر ِ پیکار ہیں‘ بلکہ مسلمان اقلیتوں کو کچلنے کی کھلی چھٹی بھی مل چکی ہے ۔ فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ ہم نے دنیا کو خاموش ہی دیکھا ۔ امن کی کوششیں ضرور کی گئیں‘ لیکن مقصد مضبوط اسرائیل کا تمام صورت ِ حال پر کنٹرول تھا۔ خدشہ ہے کہ ایسا ہی '' امن‘‘ کشمیر کے لیے تجویز نہ کردیا جائے۔ ایک بات طے ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر کشمیریوں کا مقدمہ اٹھا رہا ہے ‘ لیکن کشمیریوں کو اپنی جنگ خود لڑنی ہوگی ۔ اس میں پاکستان کی اعانت ضروری ہے ۔ صبر ‘ تحمل‘ دانش مندی اوراجتماعی سوچ کے سہارے پُرامن جدوجہد کا طویل راستہ ہمارے سامنے ہے ۔ اس دوران بھارت کی طرف سے طاقت کے استعمال کا جواب ضرور دینا ہوگا۔

’’آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔۔۔مگر

 جمہور نامہ۔۔۔۔۔۔۔ روف طاہر
 جناب ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہیں چاہنے والے بھی بہت تھے اور نفرت کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔چاہنے والوں نے انہیں ٹوٹ کر چاہا اور نفرت کرنے والوں نے بے پناہ نفرت کی۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے بجا فرمایا کہ آج بھٹو کا مزار ایک زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ہمیں بھی ایک بار حاضری کا شرف حاصل ہوا‘ لیکن یہ تیس بتیس سال پرانی بات ہے‘ تب یہ آرائش وزیبائش کے لحاظ سے اتنا عظیم الشان اور پرشکوہ نہ تھا اور یاد پڑتا ہے کہ‘ قبریں بھی صرف دو تھیں‘ ایک میں بھٹو صاحب آسودۂ خاک تھے اور دوسری میں ان کے چھوٹے صاحبزادے شاہنواز بھٹو(پھر ان میں اضافہ ہوتا گیا‘مرتضیٰ بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹوبھی یہیں مٹی اوڑھے سورہے ہیں) قاضی حسین احمد 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تو رابطہ عوام مہم کیلئے ''کاروانِ دعوت ومحبت‘‘ کا اہتمام کیا۔ کارواں نے صوبہ سرحد اور پنجاب کے بعد سندھ کا رخ کیا۔لاہور سے جو اخبار نویس اس کا حصہ بنے‘ ان میں سرمد بشیر بھی تھے۔ پی پی آئی والے جید اخبار نویس جناب بشیر قریشی (مرحوم)کے صاحبزادے کو انگریزی صحافت میں نمایاں ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا‘ لاہور پریس کلب کے صدر بھی رہے اور پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امریکہ میں ٹھکانہ کرلیا۔ کارواں سہ پہر کو لاڑکانہ پہنچا۔ جلسہ رات کو تھا۔ ہم نے بھٹو صاحب کی آخری آرام گاہ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔''منتظمین‘‘ نے اس شرط پر اجازت دی کہ ہم مغرب سے پہلے لوٹ آئیں گے کہ ان دنوں سندھ میں امن وامان کے مسائل بڑے سنگین تھے اور رات ہوتے ہی بعض علاقوں میں''ڈاکو راج‘‘ قائم ہوجاتا تھا۔ ہم نے فاتحہ پڑھی اور مغرب تک لاڑکانہ لوٹ آئے۔ بھٹو صاحب کا معاملہ اپنے رب کے اور تاریخ کے سپرد ہوچکا۔ ویسے بھی سیاسی کالم نگاروں کے لیے ‘ آج کے مسائل کچھ اور ہیں(ان دنوں کشمیر سرِ فہرست ہے)۔ رئیس صاحب نے تازہ کالم میں اپنے ممدوح کا ذکر چھیڑا ہے اور ان کے الفاظ میں ‘ اس ضمن میں خاموشی بزدلی اور مصلحت کوشی ہوگی۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے جواوصاف اور کمالات گنوائے ہیں ‘ ان سے کسے اختلاف ہوگا‘ وہ بلا شبہ ایک کثیر الجہت انسان تھے۔ کمال کی ذہانت ‘ وسیع مطالعہ‘ عمیق فہم و ادراک اور علم ودانش سے بے پناہ شغف ۔ آکسفورڈ اور برکلے یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ‘ قانون‘ سیاسیات اور فلسفے کے علاوہ فنِ تقریر اور عوامی جذبات کو سمجھنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ جناب رئیس نے تاریخ کو مسخ ہونے سے بچانے کی بات کی ہے‘ یہی جذبہ ہماری ان سطور کا محرک بنا ہے۔بھٹو صاحب کی سیاست (اور شخصیت)کالم کا نہیں‘ کتاب کا موضوع ہے (ان پر کئی کتابیں لکھی جاچکیں۔ ان میں عالمی شہرت یافتہ سوانح نگار پروفیسر سٹینلے والپرٹ کی ''زلفی بھٹو آف پاکستان‘‘ بھی ہے ‘ جس کی تیاری میں بھٹو فیملی نے فاضل مصنف کی بھرپور معاونت کی‘ یہ الگ بات کہ کتاب آئی تو اس میں بھٹو صاحب کے ورثاکے لیے تسکین کی نسبت بے اطمینانی کا سامان زیادہ تھا؛ چنانچہ اس کی پروموشن سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بھٹو صاحب کی سیاست کو ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک حصہ اکتوبر 1958ء سے(جب انہوں نے پاکستان کے پہلے مارشل لاء میں وفاقی وزارت کا حلف اٹھایا) 16دسمبر1971ء تک‘ جب قائد اعظم کا پاکستان دولخت ہوگیااور دوسرا حصہ20دسمبر 1971ء سے 4جولائی1977ء تک‘ جب وہ اپنے ''نئے پاکستان‘‘ میں برسرِ اقتدار رہے اور اسی دوسرے حصے کا اختصار سے ذکریہاں مقصود ہے۔ شہریوں کے لیے شناختی کارڈ سکیم‘ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ پروگرام اور مختلف قومی اداروں ‘ مثلاً لوک ورثہ‘ انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز ‘ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز‘ قائد اعظم یونیورسٹی اور پانچ مختلف یونیورسٹیوں میں مختلف ایریا سٹڈی سنٹرزجیسے اداروں کا قیام ‘ سٹیل ملز اور پاکستان کے نیو کلیئر پرگرام کا آغاز بلا شبہ بھٹو دور کے اہم کارنامے ہیں‘ لیکن ایسے کارنامے تو ڈکٹیٹر بھی انجام دیتے ہیں۔ آج ایک منصوبے کے تحت جنرل ایوب خان کی امیج بلڈنگ میں اُس دور کے منگلا اورتربیلہ کا ذکربھی کیا جاتا ہے۔ جناب بھٹو ایک سیاستدان تھے‘ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ‘ اب ان کا اپنا ''نیا پاکستان‘‘ تھاتو کیا یہ توقع بے جاتھی کہ وہ نئی سیاست کا آغاز کریں گے‘کہ جمہوری روایات کا فروغ ہو‘ سیاسی اقدار مستحکم ہوں۔پارلیمنٹ ‘ عدلیہ اور انتظامیہ جیسے آئینی ادارے‘ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ بروئے کار آئیں۔ ذرائع ابلاغ حقائق کے اظہار میں آزاد ہو ۔ لیکن بدقسمتی سے ان حوالوں سے ''قائد عوام‘‘ (اور ان کی حکومت) کا کردار چنداں قابلِ تعریف نہ تھا۔میڈیا کی آزادی ان کا پہلا ہدف تھا۔ زیڈ اے سلہری کی پاکستان ٹائمز کی چیف ایڈیٹری سے برطرفی بجا‘ کہ بھٹو صاحب سے سیاسی ونظریاتی اختلاف رکھنے والے صحافی کو ایک سرکاری اخبار کی ادارت پر کیسے قائم رکھا جاسکتا تھا۔ الطاف حسن قریشی‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ‘مجیب الرحمن شامی اور صلاح الدین کی گرفتاری (اور ان کے پرچوں کی بندش ) کا بھی شاید کوئی ''جواز‘‘ پیش کیا جاسکے‘ لیکن ''پنجاب پنچ‘‘ کے ایڈیٹر ‘ ترقی پسند حسین نقی تو بھٹو کے ''جددجہد کے دنوں‘‘ کے ساتھی تھے‘ ‘وہ بھی حوالۂ زنداں کردیئے گئے۔ بھٹو صاحب شملہ روانہ ہوئے تو لاہور ایئر پورٹ پر الوداع کہنے والوں میں میاں طفیل محمد‘ چودھری ظہور الٰہی اور جاوید ہاشمی جیسے سخت ترین سیاسی مخالفین بھی موجود تھے‘ کچھ عرصہ بعد یہ بھی زیر ِعتاب تھے ۔ میاں طفیل محمد‘ جیل میں روارکھے جانے والے سلوک کا ‘ہائی کورٹ میں ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ ملک قاسم کی کہانی بھی مختلف نہ تھی‘ جاوید ہاشمی کو برف کی سلوں پر لٹانے کی خبر آئی تو سید مودودیؒ بھی ''جذباتی‘‘ ہو ئے بغیر نہ رہے ۔ان کا کہنا تھا: میں نے کبھی کسی کو بددعا نہیں دی‘ لیکن موجودہ حکمرانوں کے لیے بددعا کرنے پر مجبور ہوں۔عوامی حکومت کے پہلے ہی سال لاہور میں خواجہ رفیق اور ڈیرہ غازی خاں میں ڈاکٹر نذیرکا قتل...چودھری ظہور الٰہی کو بلوچستان کی مچھ جیل میں ڈال دیا گیا۔ گورنر اکبر بگٹی کے بقول: انہیں ظہور الٰہی کو ''پولیس مقابلے‘‘ میں مروانے کی ہدایت کی گئی‘ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ بلوچوں کے آداب ِمہمان نوازی کے خلاف ہے... بلوچستان میں عطا اللہ مینگل کی منتخب حکومت سال بھی مکمل نہ کرپائی تھی کہ اسے ''عراقی اسلحہ سکینڈل‘‘میں برطرف کردیا گیا (صوبہ سرحد میں مفتی محمود صاحب کی حکومت احتجاجاً مستعفی ہوگئی) اس پر لیاقت باغ کے احتجاجی جلسۂ عام پر فائرنگ میں متعدد افراد مارے گئے ‘ ان میں زیادہ تعداد صوبہ سرحد والوں کی تھی۔ انہیں لانے والی گاڑیاں نذرِ آتش کردی گئیں۔ اس کے باوجود ولی خاں کی زیر قیادت‘ حزب اختلاف نے 1973ء کے آئین کومتفقہ بنانے میں بھرپور تعاون کیا‘جس کے صلے میں کچھ ہی عرصہ بعد نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے کر ‘ ولی خاں ‘ سردار عطا اللہ مینگل‘ نواب خیر بخش مری اور غوث بخش بزنجو کو غداری کے الزام میں حیدر آباد ٹربیونل کے سپرد کردیاگیا اور اڑھائی‘ تین سال کے عرصے میں آئین میں پانچ ‘چھ ترامیم کردی گئیں(یہ عدلیہ کو بے بال وپر کرنے کے لیے تھیں) ایسا بھی ہوا کہ آئینی ترمیم کو بلڈوز کرنے کے لیے اپوزیشن کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے ایوان سے باہر دھکیل دیا گیا۔لاہور میں حلقہ6کے ضمنی الیکشن میں‘ شادباغ کے تاجپورہ گرائونڈ میں خون کی ہولی...خود بھٹو صاحب کے اپنے انقلابی ساتھیوں مثلاً معراج محمد خاں پر جیل میں نارواسلوک‘ افتخار تاری جیسے باغیوں کے لیے دلائی کیمپ۔1977ء کے الیکشن میں‘ انتخابی حریفوں کے اغوا کے ذریعے جناب وزیر اعظم اور چاروں صوبائی وزرا ئے اعلیٰ سمیت متعدد نشستوں پر''بلا مقابلہ‘‘ کامیابی۔ الیکشن کے دن دھونس دھاندلی کے نئے ریکارڈ ۔انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے محابااستعمال‘ پھر مذاکرات کی بلا جواز طوالت ...اور آخر میں ضیا الحق کا مارشل لا۔ مجھے جناب بھٹو سے شکایت یہ ہے کہ انہیں نئے پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کا جو موقع ملا تھا‘ کاش! وہ اسے ضائع نہ کرتے‘ 5جولائی1977ء کا سبق یہ ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے نہ لگایا جائے‘ تبدیلی کیلئے آئینی راستے مسدود نہ کئے جائیں‘ کوئی ایک کھڑکی‘ کوئی ایک روشندان تو کھلا رکھا جائے کہ حبس اس انتہا کو نہ پہنچ جائے جہاں لوگ لُو کی دعا مانگنے لگیں۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ دنیا

جو اہل حق تھے‘وہ سولیوں پر چڑھے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے

 کٹہرا ۔۔۔۔۔۔۔ خالد مسعود خان
&قلم ہاتھ میں ہو تو لکھنے والے کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ اسے دنیا بھر کی ہر بات کے بارے میں مکمل علم ہے۔ سو ‘ہوتا یہ ہے کہ سیاسیات‘ اردو اور فارسی اختیاری کے مضامین کے ساتھ تھرڈ ڈویژن میں بی اے کرنے والا عالمی معیشت پر‘ بین الاقوامی ادب پر اور تاریخ پر اس روانی سے لکھتا ہے کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے اور جب یہ پتا چلتا ہے کہ موصوف نے ان موضوعات پر لکھنے سے پہلے بھی ان پر نظر دوڑانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی اور موصوف کا کل علم صرف سنی سنائی پر مشتمل تھا تو اس پریشانی میں حیرانی کا بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ کوئی 37سال ہوتے ہیں‘ جب اس عاجز نے ایم بی اے کے دوران GATT کے بارے میں پڑھا تھا۔ یہ اقوام عالم کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ تھا۔ یہ ''جنرل ایگزیمنٹ آن ٹیرف اینڈ ٹریڈ‘‘ کا مخفف ہے۔ اس معاہدے کے تحت بہت سی باتوں کو عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے پابندی کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اب 37سال بعد مجھے اس معاہدے کی تفصیلات تو ایک طرف رہیں‘ بنیادی باتیں بھی یاد نہیں ہیں‘ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ اس معاہدے کے تحت آپ دوسرے ممالک کی درآمد شدہ اشیاء پر ایک خاص حد سے زیادہ ڈیوٹیاں نہیں لگا سکتے۔ مخصوص اشیاء کے علاوہ عام اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد نہیں کر سکتے۔ کسی ملک میں ڈمپنگ وغیرہ نہیں کر سکتے اور اسی قسم کی دیگر شقیں ہیں ‘جن کے تحت عالمی تجارت کو بعض پابندیوں کے ساتھ ممکنہ حد تک آزاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا ‘لیکن گمان ہے کہ اس پر دستخط کرنے کے بعد ہم قانونی طور پر بہت سی بھارتی اشیاء کی درآمد پر پابندی نہیں لگا سکتے‘ لیکن یہ صرف حکومتی سطح والی پابندیوں کی بابت ہے۔ اگر کوئی درآمد کنندہ از خود کسی ملک سے کوئی چیز درآمد نہ کرنا چاہیے‘ تو GATTچھوڑ اس کا باپ بھی آپ کو کسی ملک سے کسی چیز کی درآمد پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ہم حکومت کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہاتھوں سے ہٹ کر از خود بھارتی اشیاء کی درآمد کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرے ایک دوست نے درجنوں بھارتی اشیاء کی تصاویر بھیجیں ‘جو ہمارے سٹورز پر فروخت ہو رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اشیاء متحدہ عرب امارات کے ذریعے یا سری لنکا وغیرہ سے گھوم کر پاکستان آ رہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں‘ جس کے بغیر ہمارا گزارا نہ ہو سکتا ہو یا ایسی کوئی چیز ہو جس کا کوئی متبادل نہ ہو۔ ان تمام چیزوں کے ان سے کہیں بہتر متبادل بھی موجود ہیں اور ان میں کوئی چیز ایسی بھی نہیں کہ اس کے بغیر گزارا کرنا ممکن نہ ہو۔ کیا ہم بحیثیت ِپاکستانی اپنے امپورٹرز کو‘ اپنے کاروباری اداروں اور تاجروں کو ان بھارتی اشیاء کے بائیکاٹ پر مجبور کر سکتے ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس میں شک ہے‘ بلکہ شک کا لفظ بھی میں نے رعایت لیتے ہوئے لکھا ہے۔ ہم بحیثیت ِمجموعی صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کر سکتے ہیں۔ پوسٹ کو لائیک کر سکتے ہیں۔ دوسروں کو غیرت دلا سکتے ہیں۔ طعنے مار سکتے ہیں۔ عزت اور غیرت کے نعرے مار سکتے ہیں ‘مگر عملی طور پر بازار سے چیزیں خریدتے ہوئے خود کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے تاجر چار پیسے کے نفع کی خاطر قومی عزت و آبرو جیسی ''فرسودہ‘‘ چیزوں بارے سوچنے کی حمایت سمجھتا ہے اور بھارتی اشیا کا بائیکاٹ تو ایک طرف رہا بھارتی فلموں‘ ڈراموں اور گانوں پر حکومتی پابندی کو اس وقت جوتے کی نوک پر اڑاد یتا ہے‘ جہاں اسے ایسا کرنے کی تھوڑی سی بھی آزادی مل جائے۔ اس سلسلے میں بھارتی ہم سے کہیں زیادہ قوم پرست ہیں۔ میکاسنگھ پاکستان میں ایک پروگرام کر کے واپس ہندوستان گیا توو ہاں کی ساری شہری تنظیموں اور فلمی حلقوں نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ کراچی کے ایک پروگرام میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر‘ یعنی دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کا زر مبادلہ بھارت لے جانے والے میکا سنگھ کو اس بائیکاٹ سے نانی یاد آ گئی اور اس نے سب سے معافی بھی مانگی اور آئندہ پاکستان میں پرفارم کرنے سے توبہ بھی کرلی۔ ابھی عالم یہ ہے کہ بھارت غاصب ہے اور اس نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور اس کے گلوکار کے پاکستان آنے پر بھارتیوں نے اس کی طبیعت صاف کر دی ہے۔ ادھر ہماری طرف یہ عالم ہے کہ کسی نے اس بھارتی کو پاکستان بلانے پر ‘کشمیر میں جاری انسانی تاریخ کے سب سے بڑے کریک ڈاؤن کے دوران بھارتی گانے سننے پر‘ پرفارمنس پر ڈیڑھ لاکھ ادا کرنے پر‘ کشمیر میں کرفیوکے دوران کراچی میں موج میلا منانے پر‘ پندرہ بھارتیوں کو خصوصی طور پر ایک ماہ کا کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کا ویزہ جاری کرنے والوں کے بارے میں کسی پاکستانی تنظیم نے رتی برابر احتجاج نہیں کیا۔ کسی کو شرم نہیں دلائی۔ کسی کو غیرت نہیں دلائی اور کسی کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا۔ گزشتہ ہفتے ملک خالد بتا رہا تھا کہ وہ لندن میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ ایک چینل پر ٹاک شو ہو رہا تھا اور اس میں حصہ لینے والے ایشین تھے۔ وہ اس چینل پر رک گیا۔ یہ برطانیہ میں چلنے والا ND TV تھا۔ یہ چینل بھارتی ہے‘ یعنی اس کے مالکان بھارتی ہیں۔ اس وقت وہاں کشمیر کے حوالے سے کوئی گفتگو ہو رہی تھی اور گفتگو کے چار شریک افراد میں سے ایک پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ٹی وی پر بیٹھا ہوا سرعام کہہ رہا تھا کہ میں کسی ایسے ریسٹورنٹ یا ٹیک اوے سے کھانا نہیں منگواتا ‘جس کا رائیڈر (کھانا گھر پہنچانے والا ریسٹورنٹ کا ورکر) کوئی پاکستانی ہو۔ ایک اور پاکستانی بتا رہا تھا کہ وہ ایک انڈین گروسری سٹور پر گیا اور وہاں اس نے شان کے مصالحے بارے پوچھا تو کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے اس کے انڈین مالک نے مروت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنے کی بجائے کہ ہمارے پاس یہ مصالحہ نہیں ہے یا ختم ہو گیا ہے۔ سیدھے سبھاؤ یہ کہا کہ ''ہم کوئی پاکستانی پراڈکٹ اپنے سٹور پر نہیں رکھتے‘‘۔ میرا وہ پاکستانی دوست کہنے لگا: میں نے اسی روز تہیہ کیا کہ آئندہ اس سٹور پر نہیں آنا۔ اس کے بقول‘ اس نے اور کئی پاکستانیوں کو یہ بات بتا کر اس سٹور کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا۔ آگے سے اکثر نے یہ جواب دیا کہ اس کی کمینگی اپنی جگہ ‘لیکن کیا کریں؟ ہمیں یہی سٹور نزدیک پڑتا ہے۔ وہی دوست بتانے لگا کہ ایک بار وہ ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ اس پر ایک بھارتی یہ کہہ رہا تھا کہ وہ بیس میل دور جا کر بھارتی سے خریداری کرے گا ‘ لیکن دو میل دور پاکستانی کی ملکیت کسی سٹور سے کوئی چیز نہیں خریدے گا۔ ہم نعرے مار سکتے ہیں‘جلوس نکال سکتے ہیں‘ سڑک پر باہر آدھ گھنٹہ کھڑے ہو سکتے ہیں ‘لیکن بھارتی اشیاء کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے۔ بھارتی گانے سننے سے باز نہیں آ سکتے۔ بھارتی گلوکاروں کو بلانے سے نہیں رک سکتے اور بھارتی گلوکاروں کو بلانے و الوں کی زبانی مذمت تک نہیں کر سکتے۔ اور ہاں! سڑک پر کھڑے رہنے سے یاد آیا۔ ایک غزل ہاتھ لگی ہے۔ خدا جانے کس کی ہے ‘مگر اس سے کیا غرض کہ کس کی ہے؟ ایسی چیزیں بھلا کسی کی ملکیت کب ہوتی ہیں؟ صدقہ جاری ہوتی ہے۔ سو‘ پیش خدمت ہے۔ غزل دلوں میں نیزے‘ جگر میں خنجر‘ چبھے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے ہماری نظروں کے سامنے تن‘ کٹے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے یہ حال غیرت‘ یہ سوزِ ایماں‘ یہ کیف ہستی‘ کہ فربہ ہو کر عدو کے ہاتھوں‘ گلے ہمارے‘ دبے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے ہمارے نیزوں‘ ہماری ڈھالوں‘ پہ تھا بھروسہ‘ جنہیں ازل سے ہمارے آگے‘ وہ سربریدہ‘ پڑے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے جنہیں دلاسہ‘ دہائیوں سے‘ وفا کا ہم نے‘ دیا ہوا تھا وہ خواب آزادیوں کا لے کر مرے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے لکھو مورخ! یہ المیہ کہ جہان بھر کے‘ ستم کدوں میں ہماری بہنوں کے جسم سارے‘ چھلے ہوئے تھے‘ پر ہم کھڑے تھے پاکستان سے ایک دوست کا فون آیا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ اس جمعہ آدھ گھنٹہ کھڑے ہونے سے کام ہو جائے گا یا اگلے جمعے پھر کھڑا ہونا پڑے گا؟ میں نے کہا: یہ گھر سے نکل کر کھڑے ہونے سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے واقعتاً کھڑے ہونا پڑے گا‘ لیکن ہمت کا کام ہے اور ادھر یہ عالم ہے کہ ہمت ہی تو پڑ نہیں رہی۔.۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ دنیا

پیر، 2 ستمبر، 2019

ایک قدیم کہانی کا جدید روپ

 وسعت اللہ خان 
 جب شیر کمزور ہوگیا اور باقی جانور اتنے منہ پھٹ ہو گئے کہ کچھار کے آگے سے گزرتے ہوئے پھبتیاں کسنے لگے تو رہی سہی عزت
 چانے کے لیے ایک دن شیر نے تمام جانوروں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ اب آپ اس قابل ہو گئے ہیں کہ جنگل کا انتظام خود چلا سکیں۔ شیر نے کہا آپ جسے چاہیں حکمران منتخب کر لیں اور اگر کبھی میرے مشورے کی ضرورت پڑے تو حاضر ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ مل بیٹھ کر ایک نیا آئین مرتب کر لیں تاکہ اس آئین کے تحت ہر پرند، چرند اور درند اس جنگل میں خود کو آزاد اور محفوظ تصور کر سکے۔ چنانچہ تمام جانوروں کی اسمبلی ہوئی۔ درندوں نے دلیل دی کہ شیر نے بھی درندہ ہونے کے سبب ہی جنگل کا انتظام کامیابی سے چلایا ہے لہٰذا حقِ حکمرانی انھی کا ہونا چاہیے جن کے دانت نوکیلے اور تیز دھار ہوں۔ چرندوں کے نمائندے نے کہا کہ ہماری تعداد بھی کم نہیں اور چونکہ ہم دوسرے جانوروں کا شکار نہیں کرتے لہٰذا باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں رہے تو جنگل کے باسی خود کو زیادہ محفوظ تصور کریں گے۔ پرندوں نے دلیل دی کہ چونکہ وہ درندوں اور چرندوں کے مقابلے میں اڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں لہٰذا اگر کسی بیرونی دشمن نے اس جنگل پر حملہ کرنے کی ٹھانی تو انھیں پہلے سے پتہ چل جائے گا کہ دشمن کس سمت سے آ رہا ہے اور اس کی تعداد و طاقت کتنی ہے۔ چونکہ وہ اڑ سکتے ہیں لہٰذا مصیبت کے وقت ساتھ کے جنگلوں سے بھی تیزی سے مدد مانگ سکیں گے۔ اس لیے جنگل کی قیادت اگر ان کے پاس رہے تو وہ زیادہ بہتر انتظام چلا سکیں گے۔ کئی دن کے مباحثے کے باوجود چرند، درند اور پرند کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ معاملہ پھر بوڑھے شیر کے پاس گیا۔ اس نے تینوں فریقوں کے دلائل سن کے تجویز دی کہ چونکہ آپ کے دل میں ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن کی شدید کمی ہے لہٰذا ایک ہی حل ہے کہ جنگل کو درندوں اور چرندوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے اور پرندے چونکہ اڑ سکتے ہیں چنانچہ وہ پورے جنگل میں کہیں بھی گھونسلہ بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ حد بندی ہو گئی اور طے پایا کہ اگر کوئی درندہ یا چرندہ غلطی سے ایک دوسرے کے علاقے میں چلا جائے تو اسے تنبیہ کر کے واپس کر دیا جائے گا۔درندستان نے اپنا حکمران بھیڑیے کو چن لیا اور چرندستان نے اپنی زمامِ کار چاق و چوبند پھرتیلے بندر کے ہاتھ میں دے دی۔ ایک دن چرندستان سے ایک بکری کا بچہ غلطی سے درندستان کی حدود میں داخل ہو گیا۔ گشت پر موجود بھیڑیوں نے اسے کھا لیا۔ جب یہ خبر ایک عینی شاہد چڑیا نے بکری کے بچے کے والدین کو سنائی تو وہ بندر بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور دہائی مچا دی۔ تمام چرندے محل کے باہر جمع ہو گئے اور درندستان کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ بندر بادشاہ نے بالکونی میں آ کر رعایا کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے یقین دلایا کہ بدلہ ضرور لیا جائے گا اور ضرورت پڑی تو اردگرد کے جنگلوں میں رہنے والے چرندوں سے بھی انصاف کے لیے مدد طلب کی جائے گی۔ طوطے، مینا، چڑیا، جنگلی کبوتر وغیرہ کو ایلچی بنا کے دیگر جنگلوں کی طرف اڑایا گیا۔ کچھ دن بعد خبر آئی کہ درندستان کے سات لگڑ بگوں نے چرندستان اور درندستان کی سرحد پر بہنے والے نالے پر پانی پینے والے بھیڑ کے تین بچوں کو اغوا کر لیا۔ دو کو کھا لیا اور ایک کو زخمی کر کے چھوڑ دیا۔ چرندستان میں پھر دہائی پڑ گئی۔ چرندوں نے بندر بادشاہ کے محل تک احتجاجی جلوس نکالا۔ پوری فضا انتقام، انتقام کے نعروں سے گونج اٹھی۔ بادشاہ نے پھر بالکونی پر آ کر خطاب کیا اور خوشخبری سنائی کہ دیگر جنگلوں کے باسیوں نے ہمیں بھرپور مدد کا یقین دلایا ہے۔ اگرچہ باز اور عقاب گوشت خور پرندے ہیں مگر ان کی برادری نے بھی درندستان کی ممکنہ جارحیت کی صورت میں ہر طرح کی مدد کا وعدہ کیا ہے۔ ہمیں جوش سے زیادہ ہوش دکھانے اور درندستان کی چیرہ دستیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درندستان والے کسی بھی جنگل میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ عین اس خطاب کے دوران ایک طوطا اڑتا ہوا آیا اور محل کی منڈیر پر بیٹھ کر چلانے لگا درندستان کی لومڑیوں نے بگلوں کے ایک خاندان کو چیرپھاڑ دیا، میں نے خود دیکھا ہے۔ مجمع آگ بگولا ہو گیا اور فضا پر درندستان مردہ باد کے نعرے چھا گئے۔ بندر بادشاہ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سے دوسرے درخت پر لٹکنا، اترنا، چڑھنا شروع کر دیا۔ وزیرِ باتدبیر سارس نے پوچھا بادشاہ سلامت یہ آپ کیا کر رہے ہیں تو بندر نے پھولی سانس کے ساتھ کہا دیکھ نہیں رہے کہ میں اس بحران کے حل کے لیے پسینہ پسینہ ہو رہا ہوں۔ بادشاہ کی ایسی انتھک محنت دیکھ کر مجمعے نے چھٹنا شروع کر دیا۔ شام کو بندر محل سے حکم جاری ہوا کہ چرندستان کی حدود میں رہنے والے تمام پرندے درندستان سے ملنے والی حدود سے کم ازکم دس کلومیٹر دور رہیں گے۔ وہ جو بھی دیکھیں گے اسے عوام کو بتانے سے پہلے بادشاہ سلامت کے وزیرِ باتدبیر سے کلیئر کروائیں گے تاکہ چرندستان میں خواہ مخواہ اشتعال نہ پھیلے اور بادشاہ سلامت بحران کا حل نکالنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ متاثر نہ ہوں۔۔۔۔۔ بشکریہ بی بی سی اردو

اتوار، 1 ستمبر، 2019

ایٹمی جنگ کی دھمکیاں امن نہیں کولڈوار ہیں

کالم نگار: سید سردار احمد پیرزادہ 
 انسانوں کی طرح جنگوں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ انہی میں سے ایک ”کولڈوار“ ہے جس کا ذکر سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے بہت عام تھا۔ جونہی سوویت یونین ڈوبا، لوگوں نے سمجھ لیا کہ کولڈوار کا زمانہ بھی ختم ہوگیا۔ کولڈوار کے خاتمے کی بات کرنے سے پہلے اس کے آغاز کی بات کرتے ہیں۔ اب سے ٹھیک سات سو برس قبل یعنی چودہویں صدی میں سپین کا ایک مشہور پرنس ”ڈون جان مینوئل“ ہوگزرا ہے۔ وہ اپنی بہت سی شادیوں کے انتخاب میں اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کو ضرور مدنظر رکھتا تھا۔ اس کی شدید خواہش ہوتی کہ اس کی اولاد کا تعلق شاہی خاندانوں سے برقرار رہے۔ وہ اپنے وقت کا امیر ترین اورسب سے طاقتور پرنس بن گیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے عہد کے بادشاہ کے مقابلے میں اپنی کرنسی بھی جاری کردی۔ ڈون جان کو لٹریچر کا بہت شوق تھا۔ اُس کی اِس عادت کو معاشرے میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانے میں لٹریچر یا ادب سے تعلق رکھنے والے معزز اور باعزت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ تاہم ڈون جان نے اپنا کام جاری رکھا اور شاعری سمیت 13کتابیں تحریر کیں جن میں سے اب 8 دستیاب ہیں۔ یہ ڈون جان ہی تھاجس نے سب سے پہلے کولڈوار کی حکمت عملی کی نشاندہی کی۔ اُس نے اُس وقت کی مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے ہسپانوی لفظ ”ٹیپڈ“ کا استعمال کیا جس کا مطلب تھا ”نیم گرم“ یعنی ”نیم گرم جنگیں“۔ انیسویں صدی میں جب ڈون جان کی ان کتب کا ترجمہ کیا گیا تو جلدبازی یا ناقص ترجمے کے نتیجے میں ترجمہ کرنے والوں نے ”ٹیپڈ وار“ کا ترجمہ ”کولڈوار یعنی ٹھنڈی جنگیں“ کردیا۔ تاہم یہ لفظ زیادہ عام نہ ہوسکا۔ اس کے بعد برطانیہ کے مشہور ناول نگار ”جارج آروِل“ نے کولڈوار کی اصطلاح اپنے ایک مضمون ”آپ اور ایٹم بم“ میں لکھی جو 19 اکتوبر 1945ء کو برطانوی اخبار ”ٹریبیون“ میں شائع ہوا۔ جارج آروِل نے کولڈوار کی مثال کو اُس وقت کے مغربی بلاک اور سوویت یونین کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے جوڑا۔ اس کے بعد مشہور امریکی سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار ”والٹرلپ مین“ کی ایک کتاب 1947 میں ”کولڈوار“ کے نام سے شائع ہوئی۔ کتاب کی اشاعت کے بعد یہ اصطلاح پوری دنیا میں وبائی بیماری کی طرح پھیل گئی اور 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بظاہر غائب ہوگئی۔ چودہویں صدی کے ڈون جان سے لے کر بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے مصنفین تک کے نزدیک یعنی آغاز سے لے کر 1945ء تک چھ سو برس کے درمیان کولڈوار کے اجزائے ترکیبی ایک جیسے ہی تھے جس میں ملک ایسی حالت جنگ میں ہوتے ہیں جو براہِ راست جنگ نہیں ہوتی۔ اس میں فریقین معاشی، سیاسی، پراپیگنڈہ، سفارت کاری اور جاسوسی کے نظام کے ذریعے ایک دوسرے پر پراکسی وار مسلط کرتے ہیں۔ اس میں فریقین جنہیں ”سیٹلائٹ ملک“ کہا جاتا ہے عموماً بڑی طاقتوں کے زیراثر رہ کر ایک دوسرے کے خلاف کولڈوار لڑتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اپنے اتحادی سیٹلائٹ ملکوں کو کولڈوار کے لیے معاشی امداد، اسلحہ، فوجی ٹیکنالوجی اور ملٹری ایڈوائزر فراہم کرتی ہیں۔ کولڈوار کی مذکورہ تشریح میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نیا رنگ شامل کیا گیا۔ یعنی ایک طرف سوویت یونین اور اُس کے تعلق دار ممالک، دوسری طرف امریکہ اور مغربی بلاک وغیرہ۔ کولڈوار کی اس جدید تعریف کو سامنے رکھا جائے تو بہت واضح ہو جائے گا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی کولڈوار ختم نہیں ہوئی بلکہ اس لفظ کا مخصوص مقاصد کے تحت باربار دہرانا ختم کیا گیا ہے جبکہ مختلف خطوں میں کولڈوار اب بھی جاری ہے۔ کولڈوار کے فارمولے کو ہم برصغیر میں بھی لاگو کرکے دیکھتے ہیں۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نوے کی دہائی کے درمیان تک بھارت اپنے ناتواں بھاری بھرکم بے ہنگم جسم کے باعث ڈگمگا رہا تھا اور دھڑام کرکے گرنے ہی والا تھا کہ امریکہ نے آکر معاشی اور فوجی کُشتے کھلانے شروع کردیئے۔ امریکہ اور مغربی بلاک کے نزدیک بھارت کی کسمپرسی پر ترس کھانے سے زیادہ مستقبل کی پیش بندی تھی۔ اس کا مقصد چین کا گھیراؤ تھا۔ پاکستان اور بھارت کی ازلی دشمنی اس ٹارگٹ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ پاکستان اور بھارت کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے امریکہ مختلف کوششیں کرتا رہا لیکن نریندر مودی کے حکومت میں آنے کے بعد بھارت پاکستان کے حوالے سے مہم جوئی کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے اِس خطے میں مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ بھارت کے لاڈ اٹھائے۔ بھارت نے بھی امریکہ کی اس کمزوری کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر چڑھائی کرنے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔ راز جاننے والے جانتے ہیں کہ کافی عرصے سے بھارت پاکستان پر کسی بڑی کاروائی کے لیے پرتول رہا ہے لیکن پہل کرنے کے نتیجے میں عالمی ردعمل سے گھبراتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کیمپ پر حملے اور پھر پاکستان کے اندر بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے نام نہاد دعوے کو لے کر بھارت نے عالمی برادری سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا پرمٹ حاصل کرنا چاہا لیکن کچھ عالمی سیانوں نے پاکستان کے شدید ردعمل کے باعث بھارت کو ہوش کے ناخن لینے کا کہا۔ پاکستان میں بعض اطلاعات کے مطابق 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت اب ایک مرتبہ پھر کسی دہشت گردی کی کاروائی کے ڈرامے کا سہارا لے کر پاکستان پر بڑے حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تازہ صورتحال میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ہلکی پھلکی کولڈوار کو مکمل کولڈوار میں بدل دیا ہے۔ کولڈوار کے مندرجہ بالا تاریخی فارمولے کو مدنظر رکھا جائے تو یہاں سب اجزائے ترکیبی پورے ہیں یعنی بھارت پاکستان کو عالمی برادری میں سفارتی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے، آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کی زراعت تباہ کرنا چاہتا ہے، پاکستانی سیاست میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے، کل بھوشن یادیو جیسے ریاستی جاسوسوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرتا ہے اور پراپیگنڈہ کرکے پاکستان کو بدنام کررہا ہے۔ بھارت امریکہ کا اہم سیٹلائٹ ملک ہے۔ دوسری طرف چین پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ خطے کی بدلتی صورتحال میں کچھ عرصہ قبل ایک حساس تبدیلی یہ آئی کہ روس نے پاک فوج کے ساتھ مل کر پاکستان میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ گویا برصغیر میں کولڈوار کے تمام مصالحہ جات پورے ہیں لیکن کولڈوار کی تاریخ بتاتی ہے کہ بھاری بھرکم اور بے ہنگم پھیلے ہوئے جسم والا سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ بھارت بھی بھاری بھرکم اور بے ہنگم پھیلا ہوا جسم رکھتا ہے۔ اب فیصلہ بھارت کو ہی کرنا ہے۔ جواب پاکستان دے گا۔ جارج آروِل نے لکھا کہ ”ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کا سایہ ایسا امن ہے جو امن نہیں ہوتا، اسے مستقل کولڈوار کہنا چاہیے“۔

دنیا کا ڈرائنگ روم

ذرا ہٹ کے ۔۔۔۔۔۔ یاسر پیرزادہ  
 موازنہ بنتا تو نہیں مگر کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ پاکستا ن کے پاس سرسبز پہاڑ ہیں، سوئٹزر لینڈ کے پاس بھی دنیا کے بہترین
 پہاڑ ہیں، پاکستان میں دریا بہتے ہیں سوئٹزر لینڈ کے شہروں میں بھی دریا ٹھاٹھیں مارتے ہیں، پاکستان کے پاس برف پوش چوٹیاں ہیں سوئٹزر لینڈ میں بھی برفیلی وادیاں ہیں، پاکستان میں خوبصورت جھیلیں ہیں سوئٹزر لینڈ کی جھیلیں بھی سبز ہیں، دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کی خوبصورتی میں زیادہ فرق نہیں بلکہ پاکستان کو زیادہ نمبر ملنے چاہئیں کہ یہاں سمندر ہے، جو سوئٹزر لینڈ میں نہیں، یہاں صحرا ہے جو وہاں نہیں، پاکستان میں بڑے مذاہب کے تاریخی مقامات ہیں جو سوئٹزر لینڈ میں نہیں اور ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بلند ترین پلیٹو دیوسائی ہے جو کسی اور ملک کے پاس نہیں۔ مگر موازنہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ سال بھر میں جتنے سیاح سوئٹزر لینڈ جاتے ہیں اگر اس کا پانچواں حصہ بھی پاکستان آنا شروع کر دیں تو ہماری تقدیر بدل سکتی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ قوموں کی تقدیر فرد سے مختلف ہوتی ہے، انفرادی طور پر لوگ خوش قسمت ہو سکتے ہیں مگر قومیں خوش قسمتی یا دعائیں قبو ل ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کے تمام تفریحی مقامات مل کر اتنا منافع نہیں کما سکتے جتنا سوئٹزر لینڈ کا ایک چھوٹا سا شہر کماتا ہے، آپ زیورخ سے کوئی ٹرین پکڑیں، نقشے میں کسی جگہ انگلی رکھیں اور آنکھیں بند کر کے وہاں اتر جائیں، کوئی قصبہ، گاؤں یا تحصیل، اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی، ہر جگہ اعلیٰ معیار کی پبلک ٹرانسپورٹ ملے گی، پُرفضا تفریحی مقامات ملیں گے اور انواع و اقسام کی تفریحات کا ڈھیر لگا ہوگا۔ ہم نے یہ تجربہ کرکے دیکھا۔ زیورخ سے ٹرین میں بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ جہاں دل کیا اتر جائیں گے، قریباً ڈیرھ گھنٹے بعد Thunشہر آیا، ہماری ٹرین پلیٹ فارم نمبر دو پر آ کر لگی تو اُس وقت وہاں زیادہ رش نہیں تھا، چند مسافر دکھائی دے رہے تھے، ہم وہیں اتر گئے۔ ’’تُھن‘‘ کو آپ وزیرآباد کی طرح جنکشن سمجھ لیں، ٹکٹ گھر میں کچھ لوگ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اور دو تین چھوٹی سی دکانیں، جہاں نظر کی عینک سے لے کر کافی تک سب کچھ دستیاب تھا۔ ہم نے کافی پی اور اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ پہلی نظر میں شہر سے محبت ہو گئی، سامنے سرسبز پہاڑ، ان میں چھوٹے چھوٹے رنگین مکانات جن میں وہی پھولوں سے سجی ٹوکریاں جو فضا کا حسن دوبالا کر رہی تھیں۔ کسی نے بتایا کہ ذرا سا آگے بائیں طرف کو مڑو گے تو دریا کے کنارے چلتے ہوئے شہر کے پُررونق مرکز میں پہنچ جائو گے، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، سو چل پڑے، پانچ منٹ بعد ہم دریا تک پہنچ گئے۔ یورپ کے اکثر شہروں میں دریا ایسے ہی ملتے ہیں، شہر کے بیچوں بیچ، یہ بھی ایسا ہی تھا، کنارے پر جا بجا ریستوران اور دکانیں مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ لوگ اس دریا کو تیر کر پار بھی کر رہے تھے اور اس کے لیے اُنہوں نے جو انتظام کر رکھا تھا وہ بہت منفرد تھا۔ ایک نوجوان جو دریا میں تیرنے آیا تھا، اُس نے اپنے کپڑے ایک تھیلے میں ڈالے، پھر ایک دھوتی نما چادر اپنی کمر کے گرد لپیٹ کر سوئمنگ کاسٹیوم پہنا، اپنا موبائل فون، چاجر، پاور بینک اور دیگر چیزیں بھی اسی تھیلے میں ڈال کر اُس کا منہ یوں بند کر دیا کہ اُس میں کچھ ہوا بھر گئی، یہ ایک واٹر پروف تھیلا تھا جو تیرتے وقت سہارا بھی دیتا تھا، نوجوان نے تھیلا دریا میں پھینکا، ساتھ ہی خود بھی چھلانگ لگا دی اور یہ جا وہ جا۔ کچھ دیر بعد چند خواتین نے بھی یہی حرکت کی جس کی تفصیل میں جانا یہاں مناسب نہیں، خواہشمند احباب علیحدگی میں ملاقات کا وقت لیں۔ دنیا میں سیاحت کے دو ماڈل ہیں، ایک مذہبی ٹورازم اور دوسرا تفریحی، سوئٹزر لینڈ تفریحی ماڈل پر چلتا ہے جبکہ ہمارے پاس دونوں مواقع موجود ہیں مگر ان میں سے ایک بھی نہیں چلتا۔ وہ زمانہ گیا جب لوگ محض گرمی سے تنگ آکر پہاڑوں پر جاتے تھے، اب لوگ لاہور سے ناران جاتے ہیں اور دنبے کی کڑاہی کھانے کے بعد سوچتے ہیں کہ اب کیا کریں۔ اگر سیاحت صرف خوبصورت پہاڑوں اور دریاؤں سے فروغ پا سکتی تو ہمارے ملک میں سیاحوں کا رش لگا رہتا مگر ایسا نہیں ہے، وجہ اُس کی یہ ہے کہ ہمارے بہترین تفریحی مقامات بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، بلوچستا ن کے ساحل ہوں یا دیو سائی کا میدان، کشمیر کی وادی ہو یا موہنجو دڑو جیسا قیمتی ورثہ، کہیں کوئی ڈھنگ کا ہوٹل ملے گا نہ ریستوران، ٹھہرنے کی کوئی جگہ ہوگی نہ صاف ستھرے ٹائلٹ، ایسے میں سیاحت نہیں ہو سکتی صرف نعرے بازی ہو سکتی ہے کہ ہمارے جیسے پہاڑ کسی کے پاس نہیں، اور یہ بھی ہماری غلط فہمی ہے۔ زیورخ سے انٹر لاکن کی ٹرین سوا دو گھنٹے کی ہے، آپ یہاں سے ٹرین بدل کر گرنڈل وال جا سکتے ہیں، خدا نے اس خطے کو عجیب و غریب خوبصورتی سے نوازا ہے، گرنڈل وال سےکیبل کار سات ہزار فٹ کی بلندی تک لے جاتی ہے، اوپر جاتے ہوئے وادی کا نظارہ اس قدر دلفریب ہے کہ جنت کا گمان ہوتا ہے، مکانوں کے بیچوں بیچ راستے بنے ہوئے ہیں، لوگوں نے گھاس کاٹ کر برابر کر رکھی ہے اور یہ اُن کی ضرورت ہے، سردیوں میں یہاں دو دو فٹ برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے انہیں گرمیوں میں اپنی گائے بھینسوں کے لیے چارہ کاٹ کر رکھنا پڑتا ہے، کام بھی ہو جاتا ہے اور وادی کی خوبصورتی بھی برقرار رہتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ریستوران بنے ہیں، سوینیئر شاپس ہیں، یہاں سے آپ کرائے پر سائیکل یاموٹر سائیکل لے کر خود پہاڑوں کی سیر کو نکل سکتے ہیں، مزید ایڈونچر کا شوق ہے تو ایک رسی سے لٹک کر چوٹی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھی جا سکتے ہیں، پھر بھی دل نہ بھرے تو کسی پرندے کی طرح پیرا گلائڈنگ کرتے ہوئے سوئس پہاڑوں کا اوپر سے نظارہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی گرنڈل وال جیسے پہاڑ ہیں، مگر بات وہی کہ وہاں تک جانے کے لیے نہ ٹرین ہے اور نہ کیبل کار، چلیں اس کے بغیر بھی گزارا ہو جاتا ہے اگر لوگ پروفیشنل ہوں، صفائی ستھرائی ہو، کہیں رات گزارنے کا معقول انتظام ہو اور یہ ڈر نہ ہو کہ اگر سڑک بند ہو گئی تو پھر ٹی وی پر خبر چلنے کے بعد ہی کھلے گی۔ سوئٹزر لینڈ میں ایسا کوئی خوف نہیں اور اس کی وجہ سوئٹزر لینڈ کا شاندار انفراسٹرکچر ہے جس کی پوری قیمت یہ ملک سیاحوں سے وصول کرتا ہے، اس کا ٹرانسپورٹ کا نظام دنیا کا بہترین نظام ہے اور اتنا ہی مہنگا بھی، مگر انہوں نے عام سیاحوں کی سہولت کے لیے مختلف سفری پاس بنائے ہوئے ہیں، آپ اپنی مرضی سے کوئی پاس بنوا لیں اور پھر پورے سوئٹزر لینڈ میں اس پاس پر سفر کریں، یہ قدرے سستا پڑتا ہے۔ اگر ہماری زمین پر کسی دوسرے سیارے کی مخلوق مہمان بن کر آئے تو شاید ہم اسے سوئٹزر لینڈ میں ٹھہرائیں گے کہ یہ ہماری دنیا کا ڈرائنگ روم ہے، ایسی دل موہ لینے والی خوبصورتی شاید ہی کسی اور ملک کے حصے میں آئی ہو۔ ایسا قدرتی حسن دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے، پاکستان کا خیال آتا ہے، ہمارے پاس بھی انٹر لاکن جیسی خوبصورتی ہے مگر ہم نے ابھی کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہیں جب تک وہ نہیں ہوتے اُس وقت تک مری پر گزارا کریں۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جنگ

کشمیریو! جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا

 کٹہرا ۔۔۔۔۔۔۔ خالد مسعود خان
 شام پانچ بجے میں گلن ڈیل روڈ پر بالکل اکیلا کھڑا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان اس وقت دنیا بھر میں اکیلا کھڑا ہے۔ میں تب رضائی میں گھسا بیٹھا تھا جب پاکستان سے شوکت علی گجر کا فون آیا۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ اس وقت پاکستان میں دن کے بارہ بج رہے ہیں اور حکومتی اپیل پر کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہمیں باہر نکل کر کھڑا ہونا ہے۔ اللہ اس کا بھلا کرے کہ اس نے مجھے دیارِ غیر میں یاد دلایا کہ اس وقت پاکستان میں بارہ بجنے والے ہیں۔ میں نے کمرے سے نکل کر جوتا پہنا اور گھر سے باہر چل دیا۔ میری بیٹی نے سمجھا کہ شاید میں کوئی فون سننے کے لیے گھر سے باہر جا رہا ہوں۔ اس نے پوچھا: کوئی فون کرنا ہے؟ میں نے کہا: فون تو وہ سامنے بیڈ پر رکھا ہوا ہے۔ میں کشمیری بھائی‘ بہنوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے باہر جا کر گلی میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ باہر سورج غروب ہونے کو تھا۔ سردی تھی اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ ساری گلی بالکل سنسان تھی۔ میرے علاوہ اور کوئی شخص اس سرد موسم میں گھر سے باہر نہیں تھا۔ میں باہر کھڑا تھا۔ پوری گلی میں کوئی اور باہر کیا ہوتا؟ کسی کو تو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ میں باہر کھڑا ہوں اور اگر کھڑا ہوں تو کس لیے؟ میں گلی میں قریب آدھا گھنٹہ کھڑا رہا۔ اس دوران میں مسلسل سوچتا رہا کہ یہاں پوری گلن ڈیل روڈ پر بلکہ گلن ڈیل روڈ تو رہی ایک طرف پورے سپرنگ ویل قصبے میں کسی کو خبر نہیں کہ میں کس لیے گھر سے باہر کھڑا ہوں۔ ادھر کسی کو یہ علم نہیں کہ ملتان میں شوکت علی گجر اور دوسرے دوست بھی گھروں سے نکل کر کھڑے ہیں۔ یہ تو وہ حقیقت تھی جو فی الوقت پوری دنیا کے بارے میں کہا جا سکتا ہے‘ کیا ملتان اور کیا سپرنگ ویل۔ بھلا میرے‘ شوکت علی گجر کے‘ شوکت اسلام کے‘ رانا شفیق کے یا آصف مجید کے گھر سے یا دفتر سے باہر کھڑے ہونے کا دنیا پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ دنیا پر تو تین حرف بھیجیں۔ کشمیریوں کو اس کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ مجھے اپنے اس عمل کے نتیجے کا علم تھا لیکن صرف اور صرف حکومت کے اس فیصلے پر اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے آدھا گھنٹہ سپرنگ ویل روڈ کی فٹ پاتھ پر گزارا‘ لیکن کچھ سوال تو بنتے ہیں جو کرنے ہیں۔ اب یہ ایک اور سوال ہے کہ یہ سوال کس سے کرنے ہیں؟ حکومت تو ہم لوگوں کو آدھا گھنٹہ گھر سے باہر کھڑا کر کے بری الذمہ ہو گئی ہے۔ حکومت کے حساب سے کشمیریوں کے دکھ درد کا ازالہ بھی ہو گیا ہے۔ کشمیریوں کو ہماری طرف سے محبت کا پیغام بھی مل گیا ہے۔ پاکستانیوں کی طرف سے کشمیریوں کی حالیہ صعوبتوں میں کمی بھی ہو گئی ہے اور بھارت کو دندان شکن جواب بھی مل گیا ہے۔ ہم سے تو وہ ہیجڑا ہی اچھا رہا تھا جس کو دوسری جنگ عظیم میں جبری بھرتی کے قانون کے تحت برطانوی فوج میں بھرتی کر لیا گیا تو اس نے تالیاں بجا بجا کر پوری یونٹ میں با آواز بلند یہ کہنا شروع کر دیا کہ ''خدا کرے جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘خدا کرے جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘۔ ۔ ادھر گلن ڈیل روڈ پر میں اکیلا تھا اور اُدھر پاکستان کشمیر کے مسئلے پر پوری دنیا میں اکیلا ہے۔ لے دے کر ایک چین ہے جس کا مسئلہ اس کے ذاتی جغرافیائی تحفظات ہیں نہ کہ کشمیریوں سے محبت اور پاکستان کی حمایت۔ لیکن چلیں اس جغرافیائی معاملے کو ہی غنیمت سمجھیں کہ اس بہانے ہی سہی‘ چین ہمارے ساتھ تو کھڑا ہے‘ وگرنہ کون ہے جو اس وقت کھل کر بھارت کی مذمت کر رہا ہے؟ لوگ باگ اس وقت مودی کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے سب سے بڑے سول ایوارڈز ملنے پر چیں بہ جبیں ہیں‘ لیکن کسی ''مسلم برادر‘‘ ملک کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ ایک برادر عرب ملک نے فرانس پر خاصا زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ میں کشمیر والی قرارداد پر ویٹو کر دے‘ لیکن فرانس نے ویٹو والی انتہا پر جانے کے بجائے صرف قرارداد کی مخالفت میں بیان بازی پر ہی اکتفا کیا۔ لیکن ایک سوال یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ کی اس قرارداد کا کیا فائدہ ہو گا؟ اکہتر سال پہلے بھی اسی قسم کی بلکہ اس سے کہیں زیادہ زوردار قرارداد پاس ہوئی تھی۔ پھر وہ سات عشروں تک نا انصافیوں کے ڈھیر تلے دبی رہی۔ اب ایک بار پھر دنیا نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے تو اس سے کیا فائدہ ہوا؟ کیا کشمیریوں پر جو عرصۂ حیات تنگ ہے اس میں کوئی کمی ہوئی؟ کیا اقوامِ متحدہ نے بھارت کو یہ کہا کہ وہ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری کرفیو ختم کرے؟ کیا اقوام متحدہ نے یہ کہا کہ اس متنازعہ خطے میں استصواب کروایا جائے؟ کیا اقوام متحدہ نے بھارت کو یہ کہا کہ اس متنازعہ علاقے کی خصوصی حیثیت دوبارہ بحال کرے؟ کیا اقوام متحدہ نے کشمیر میں کسی ''فیکٹ فائینڈنگ‘‘ مشن کے بھیجنے کا اعلان کیا جو کشمیریوں پر اس ابتلا کا ازالہ کر سکے؟ کیا اقوام متحدہ نے کم سے کم کوئی عملی قدم اٹھاتے ہوئے بھارت کی مذمت کی؟ اقوام متحدہ نے نہ کشمیریوں کی کوئی عملی مدد کی‘ نہ بھارت کی مذمت کی اور نہ ہی کشمیر کے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا۔ تو ہمیں اس قرارداد کا عملی طور پر کیا فائدہ ہوا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے؟ ہم نے عملی طور پر کشمیر کے لیے اب تک کیا کیا ہے؟ صرف اجے بساریہ کو بھارت رخصت کیا ہے اور بس! اور ہاں پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی دہلی سے واپس بلا لیا ہے۔ نہ بھارت کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند کی‘ نہ بھارت کا افغانستان اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے لیے زمینی تجارتی راستہ بند کیا اور سنا ہے کہ کھیوڑہ سے بھارت کو نمک کی سپلائی بھی بند نہیں ہوئی۔ ایسے موقع پر جب کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پوری دنیا میں گھوم رہا ہے‘ ہمارے وزیر خارجہ صاحب خط پر خط لکھ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کا یہ عالم یہ ہے کہ پہلے والے چیئرمین کی نیت خراب تھی اور اب والے چیئرمین کی صحت خراب ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کاز سے زیادہ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے جڑے ہوئے فائدوں سے مثلاً سرکاری دورے‘ سرکاری رہائش گاہ‘ سرکاری گاڑی‘ سرکاری نوکر چاکر‘ وزیر کا پروٹوکول اور دیگر بے شمار سہولتوں سے غرض تھی۔ اور اب جناب فخر امام صاحب اس کمیٹی کی چیئرمینی پر متمکن ہیں۔ عمر کے اس حصے میں وہ کبیر والا سے جھنگ تک جانے سے قاصر ہیں۔ انہیں اس دور میں جب کشمیر کے لیے دنیا بھر میں رابطوں کی اشد ضرورت تھی‘ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے اور انہوں نے اس سارے عرصے میں کشمیر کے لیے جو فریضہ سر انجام دیا ہے وہ یہ کہ انہوں نے لاہور میں ہلال احمر کے دفتر کا دورہ کیا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ کیا دنیا بھر میں کسی قوم نے گھر سے آدھا گھنٹہ باہر کھڑا ہو کر کسی مقبوضہ علاقے کو آزاد کروایا ہے؟ کیا الجزائر والوں نے فرانس سے اپنا ملک آزاد کروانے کے لیے صرف دعائوں پر گزارا کیا تھا؟ اگر سرحدوں کی حفاظتیں دعائوں سے ممکن ہوتیں تو میرے آقاؐ پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق نہ کھودتے۔ اگر معاملات جنگ کے بجائے آدھا گھنٹہ گھر سے باہر کھڑے ہو کر حل ہو جاتے تو میرے آقاؐ تین سو تیرہ اصحاب کے ساتھ میدان جنگ میں جانے کے بجائے مدینے کی گلیوں میں اپنے رب سے دعا کر کے گھر چلے جاتے۔ ان کی تو دعا بھی قبول ہو جاتی تھی‘ ہم کس شمار و قطار میں ہیں؟ پرویز مشرف نے لائن آف کنٹرول پر باڑ لگوا دی‘ نواز شریف نے مسئلہ کشمیر سرد خانے میں ڈال دیا اور عمران خان نے حافظ سعید کو گرفتار کر لیا۔ اب لے دے کر کشمیر پر ہم لوگ گھر سے باہر آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر پر ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی ہے۔ اللہ سید علی گیلانی کو لمبی عمر عطا کرے‘ اب ساری امیدیں اس بوڑھے اور جری شیر سے وابستہ ہیں اور برہان الدین وانی کے جانشین کشمیری نوجوانوں سے۔ ہم نے تو اہل کشمیر کو واضح لفظوں میں یہ پیغام دے دیا کہ ہم حکومتی سطح پر یہی کچھ کر سکتے تھے جو مورخہ تیس اگست بروز جمعۃ المبارک دن بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک کیا ہے۔ کشمیریو! جاگدے رہنا۔ ساڈے تے نہ رہنا۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ دنیا

’ ناہیدامیر تیمور ‘‘ سے بیگم ناہید سکندرمرزا

 طارق احمدمرزا
 پاکستان کی پہلی خاتون اول محترمہ بیگم ناہید سکندرمرزا اپنی سوویں سالگرہ سے صرف دوہفتہ قبل مؤرخہ ۲۵جنور ی ۲۰۱۹ء کولندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔ آپ جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدرسکندرمرزاکی اہلیہ تھیں۔آپ خراسانی نژادایرانی تھیں ۔آپ کا شجرہ نسب امیرتیمورلنگ سے جا ملتا ہے۔آپ کے والد امیرتیمورقبیلے کے سربراہ تھے اور ایران کے سیاسی،سماجی اورتجارتی منظرنامہ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔کم ازکم تیرہ مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ دومرتبہ منسٹررہے۔بیگم ناہیدکی والدہ بھی ایران کے قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کے ایک بھائی سفارتکارتھے جو دہلی میں بھی سفیررہے۔ بیگم ناہید ’’ ناہیدامیر تیمور ‘‘ سے بیگم ناہید سکندرمرزاکیسے بنیں،یہ کسی ناول یا فلمی کہانی کی طرح ایک انتہائی دلچسپ داستان ہے۔ایرانی اخبارکیہان (تہران) نے اپنی اشاعت مؤرخہ ۱۴ فروری ۲۰۱۹میں اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ناہیدامیرتیمورکی شادی مہدی افخامی نامی ایک ایرانی کرنل سے اس وقت کردی گئی تھی جب وہ ابھی نوعمرتھیں۔ کرنل مہدی کی تقرری اس وقت کے پاکستانی دارالحکومت کراچی میں قائم ایرانی سفارتخانہ میں بطورملٹری اتاشی ہوئی تو ان کی یہ نوعمراہلیہ بھی کراچی آگئیں،گو ان کی خواہش تھی کہ کراچی جانے سے کہیں بہترہے کہ طلا ق لے کرایران ہی میں بسی رہیں۔لیکن والدکے حکم کے سامنے ان کا بس نہ چلا۔ کراچی پہنچنے کے کچھ عرصہ بعدروسی سفارت خانہ کی ایک تقریب میں ان کی ملاقات سکندرمرزا سے ہوئی جو ہجوم کوچیرتے ہوئے عین ان کے سامنے آکھڑے ہوئے اورآؤدیکھانہ تاؤ،بولے ’’تم میری بیوی بنوگی‘‘۔ ذرا تصور میں لائیں،باون سالہ پختہ عمر،پختہ کارفوجی افسر جو شادی شدہ ہی نہیں چھ عدد بچوں کا باپ بھی تھا،ایک ایسی خاتون کو اس قسم کی بات کہہ گیا جو عمر میں اس سے بیس برس سے بھی زیادہ چھوٹی تھی،شادی شدہ تھی اور ایک بچی کی ماں بھی ۔ ان دونوں افرادکی ایک دوسرے سے شادی ؟۔اس کا توکسی کے ذہن میں کہیں دور سے بھی کوئی خیال یاامکان پیدانہیں ہو سکتا تھا۔ خاص کر یہ بات کہ سکندرمرزاپاکستان کے سیکرٹری ڈیفنس تھے اور ان کے سامنے کھڑی یہ خاتون برادرہمسایہ ملک ایران کے ملٹری اتاشی کی اہلیہ تھیں!۔ کوئی پاگل ہی اس قسم کے جوڑکی بات کرسکتاتھا۔ لیکن ان دونوں کا جوڑ بنانے کی کم از کم دووجوہات ایسی تھیں جو ان دونوںکی قدرمشترکہ قراردی جاسکتی تھیں۔اول تو یہ کہ یہ دونوں افراد اپنی اپنی موجودہ ازدواجی زندگی سے غیر مطمئن تھے۔دوسرے یہ کہ ان دونوں کا تعلق حکمران گھرانوں سے تھا۔ناہید امیرتیمورکے گھرانے سے تھی تو سکندرمرزابنگال ،بہار اور اڑیسہ کے نواب خاندان کی اولادتھے۔ ایک برس بعدکرنل مہدی کو تہران واپس بلا لیا گیا،سکندرمرزانے ناہیدسے کہا کہ وہ مستعفی ہوکر اپنا تقررایران میں بطورپاکستانی سفیرکروالیں گے۔جس پر ناہید نے سختی سے انہیں ایساکرنے سے منع کیا کیونکہ وہ اپنی بچی سمیت لندن جانے کا پروگرام رکھتی تھیں تاکہ ان کی بچی وہاں تعلیم حاصل کرسکے۔اصل میں ناہید ابھی تک سکندرمرزاکے بارہ میں شکوک شبہات ہی رکھتی تھی اور ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی بھی نہیں ہوئی تھی۔ چندماہ بعددسمبر ۱۹۵۲میں انہوں نے بالآخراپنے شوہر سے طلاق لے لی جس کے بعدسکندرمرزاکے لندن میں ان کے نام بھیجے ہوئے پے درپے محبت ناموں سے انہیں یقین ہوہی گیا کہ اسکندمرزاواقعی ان سے محبت کرتے ہیں ۔ ہرمحبت نامہ کے آخرپر ’’دل وجان سے فقط تمہارا‘‘ لکھاہوتا تھا۔اگلے برس ستمبر میں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ سکندرمرزاکا ارادہ تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ لے کر بقیہ زندگی خاموشی سے اپنی نئی جیون ساتھی کے ہمراہ لندن میں گزاریں گے،لیکن جب شادی کے بعدپاکستان لوٹے تو انہیں مشرقی پاکستان کا گورنربنادیا گیا۔چونکہ وہ بنگالی پس منظر رکھتے تھے اس لئے ان سے یہ توقع تھی کہ وہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لئے قابل قبول بھی ہونگے اور ان پہ توجہ بھی دیں گے،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ذاتی طورپر خود انہیں بھی بنگالیوں کی خدمت کرنے میں لطف آنے لگ گیا۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے لندن شفٹ ہونے کا خیال ترک کردیا۔ ستمبر۱۹۵۴ میں گورنرجنرل سرملک غلام محمدنے قومی اسمبلی تحلیل کردی،اسکندرمرزاکو وزیرداخلہ اور ایوب خان کو وزیردفاع مقررکردیاگیا۔جب ملک غلام محمد علاج کے لئے لندن چلے گئے تو سکندرمرزا کوقائم مقام گورنرجنرل بنادیا گیا، دوماہ مزید گزرجانے کے بعدسکندرمرزانے غلام محمد کو ان کی عدم موجودگی میں ان کے عہدے سے برطرف کردیا اورخودگورنرجنرل بن گئے۔ سنہ ۱۹۵۶ میں پاکستان اسلامی جمہوریہ قرارپایاتو سکندرمرزا متفقہ طورپر اس کے پہلے صدرمنتخب ہوئے اور یو ں ان کی محبت بیگم ناہیدسکندرمرزاپاکستان کی پہلی خاتون اول بن گئی۔آپ نے اس تاریخی حیثیت پہ فائزہونے سے قبل بھی اور بعد میں بھی اپنے شوہر کے شانہ بشانہ قومی اور ملی خدمات بجالائیں۔آپ نے خود کو پاکستانی ماحول میں رچابسالیاتھا،ساڑھی میں ملبوس رہتی تھیںاوربطورخاتون اول پاکستانی عوام کا اعتماداور پیارحاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ افسوس کہ ملکی سیاست کے حالات ایک جیسے نہ رہے،۱۹۵۸ کا مارشل لالگا،ایوب خان وزیراعظم مقررہوئے لیکن انہوں نے صدر سکندرمرزااور ان کی اہلیہ کو ۲۸ ؍اکتوبر کی رات نیند سے جگاکر پہلے کوئٹہ میں چاردن محصوررکھا اور پھر مغربی طاقتوں کے اصرارپر براستہ کراچی لندن بھجوادیا۔ لندن پہنچنے کے بعد بالآخر بیگم ناہید اور سکندرمرزا نے اس زندگی کا آغازکیا جس کا خواب انہوں نے دس برس قبل شادی کے معاًبعددیکھاتھا۔لیکن اب سکندرمرزاکو دل کاعارضہ لاحق ہوچکاتھا۔دس برس بعد سنہ ۱۹۶۹ میںلندن میں انتقال کر گئے،۔اس وقت اقتدارپر یحیٰ خان قابض تھے،انہوں نے سکندرمرزاکی میت پاکستان لا کردفنانے کی اجازت نہیں دی۔شاہ ایران محمدرضاشاہ پہلوی نے ان کے خاندان کی منظوری کے بعد تہران میں ان کی میت کو پورے فوجی اعزازکے ساتھ دفن کرنے کے خصوصی احکامات جاری کئے کیونکہ سکندرمرزاکے دورمیں ہی پاک ایران تعلقات اپنے عروج کو پہنچے تھے اور شاہ ایران کے دل میں ہمیشہ ان کے لئے انتہائی قدرومنزلت کے جذبات موج رہتے تھے۔ اخبارکیہان کے مطابق بیگم ناہیداسکندرمرزانے بیوگی کے پچاس سال جس طرح گزارے وہ ایک الگ داستان ہے۔آپ نے خود کو مہانوں اور رشتہ داروں کی خدمت کے لئے وقف کردیاجو آپ کے ہاتھ کے پکے دیسی اور ایرانی کھانے بھی کھاتے اور آپ کی شاعری بھی سنتے۔آپ کو ایران کے صوفی شعراء کے دیوان بھی کم وبیش زبانی یادتھے اور نجی محافل اور مجالس میں وہ ان کا کلام زبانی سنایاکرتی تھیں۔ شوہرکی وفات کے بعدآپ نے پاکستان اور پاکستانیوں سے ناطہ نہیں توڑا۔آپ کے دل میں پاکستان اور ایران دونوں دھڑکتے تھے۔آپ بیگم نصرت بھٹوکی بھی دوست تھیں جو کردش ایرانی تھیں۔جب بینظیربھٹو وزیراعظم بنی تو انہوں نے بیگم ناہیدمرزاکوپاکستان مدعوکیا۔کراچی،لاہور اورپشاورمیںاپنے والہانہ استقبال پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کے مرحوم شوہرکی چھوڑی ہوئے ذاتی یادگاراشیاء نوادرات وغیرہ دستیاب ہو سکیں لیکن ایوب خان نے ان کے گھر کی ایک چیز بھی محفوظ نہیں رکھنے دی تھی ،حتیٰ کہ سکندرمرزاکے وہ یادگارمحبت نامے بھی تلف کرڈالے تھے جو انہوں نے شادی سے قبل لکھ لکھ کرلندن بھجوائے تھے۔(بحوالہ کیہانلائف)۔ بیوگی کے پچاس سالوں کو اپنے شوہراور اس کے وطن کی یادوں سے سجانے والی بیگم ناہیدآج ہم میں موجود نہیں ۔۔۔بشکریہ نیازمانہ ڈاٹ کام

ہفتہ، 31 اگست، 2019

آج بھی بھٹو زندہ ہے

Image result for rasool bakhsh raees

  رسول بخش رئیس
  یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، ایک تاریخی حقیقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین جو بھی کہیں، وہ امر ہو چکے۔ وہ صحافی، دانشور اور ہزاروں کی تعداد میں سیاست دان اور سیاسی خاندان جو اُس پرآشوب زمانے میں جنرل ضیاالحق کے نعرہ باز اور قلم بردار سپاہی بنے تھے، چار دہائیاں گزرنے کے بعد شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے، ظالم مٹ جاتے ہیں، لیکن مظلوموں کی یاد اور ان کے دکھ سب میں نہیں تو بھی کچھ دلوں میں ضرور زندہ رہتے ہیں۔ سندھ جائیں‘ عام لوگوں سے ملیں اور بھٹو کے بارے میں بات تو کریں۔ فرصت ہوتو گڑھی خدابخش کا سفر کریں؛ بھٹو کا مزار ایک زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سندھ کے مختلف علاقوں کے علاوہ بلوچستان، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ حاضری دیتے ہیں۔ مجھے بھی وہاں جانے کا شرف حاصل ہے۔ اسے میں اپنے لیے سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ کئی روز سے بھٹو صاحب کا خیال دل میں ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگا رہا تھا۔ یہ کیفیت اُس وقت پیدا ہوئی جب ضیاالحق کی برسی کے موقع پر کئی ایک ہم عصر مبصرین کے مضامین نظر سے گزرے۔ مردِ مومن کے لازوال کارناموں، قومی خدمات اور آہنی قوتِ فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے کئی ایک نے بھٹو صاحب کو اپنے روایتی انداز میں لتاڑا۔ اس ضمن میں خاموشی بزدلی اور مصلحت کوشی ہوگی۔ سو چند باتیں، اور چند یادیں آپ کی نذر کہ تاریخ مسخ نہ ہو اور نئی نسل کے لیے ظالم اور مظلوم کی پہچان آسان ہو۔ ویسے تو بھٹو صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا، لیکن صرف دو مستند کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک پروفیسر سٹینلے والپرٹ اور دوسری انوار حسین سید کی۔ سید صاحب بہت اعلیٰ پائے کے محقق، استاد اور مصنف ہیں۔ اُنھوں نے امریکی جامعات میں زندگی گزاری ہے۔ کئی بار اُن کی بھٹو سے ملاقات ہوئی، اُن کے انٹرویو کیے، پاکستانی تاریخ، ادب اور سیاست پر اُن کی بہت گہری نگاہ ہے۔ وہ بھٹو صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک کثیرالجہت انسان تھے۔ یعنی اُن کی شخصیت کے کئی پہلو تھے‘ کمال کی ذہانت، وسیع مطالعہ، عمیق فہم و ادراک اور علم و دانش سے بے پناہ شغف۔ وہ کوئی معمولی تعلیم یافتہ انسان نہیں تھے۔ وہ آکسفورڈ، کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے سے فارغ التحصیل تھے۔ اُس زمانے میں بہت کم سیاسی خاندانوں کے بچے یہ معراج حاصل کرسکتے تھے۔ قانون، سیاسیات اور فلسفے کے علاوہ فنِ تقریر اورعوامی جذبات کو سمجھنے میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کئی دہائیاں گزر چکیں، سیاست کے میدان میں بھٹوصاحب کے پائے کا کوئی عالم فاضل اور قابل سیاست دان دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی تعلیم اور تربیت بھی بھٹو صاحب نے اپنے خوابوں کی روشنی میں کی۔ زندگی نے مہلت نہ دی کہ وہ بے نظیرکی مزید رہنمائی کرتے، اور اپنے سیاسی سائے میں اُنہیں پھلتا پھولتا دیکھتے۔ بے نظیر بھی اپنے بہادر باپ کی طرح بہادر نکلیں۔ آمر کو للکارا اور آخرکار وہ بھی شہادت کا درجہ پاگئیں۔ طالب علمی کے زمانے کی بات ہے۔ جب کالج کی زندگی میں ہم دو، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، کچھ وقت میں نے بھٹو مخالف طلبہ تنظیم میں گزارا۔ دیہاتی پسِ منظر، دانشور ی کا شوق، سیاست سے لگائو، اور ملک سے محبت اور اس کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ، اور سب سے بڑھ کر اس کے نظریاتی سدھار کا عزم۔ دوست بھی کمال کے تھے۔ مسیح اﷲ جامپوری اور عاشق بزدار، جن سے بحثوں کا میدان رات کو سجتا تھا۔ جامپوری صاحب صحافت سے وابستہ ہیں، اور اسی میں ساری زندگی کھپا دی۔ بزدار صاحب سرائیکی زبان کے مشہور شاعر، ادیب ہیں اور سرائیکی ثقافت کی آبیاری کرتے ہیں۔ میں اُس زمانے میں بی اے کا طالب علم تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں ایک سال سے زیادہ عرصہ بھٹو صاحب کی وکالت کی۔ اُن کے انتخابات کیلئے ہم نے والہانہ انداز میں مہم چلائی۔ چند سال بعد ملازمت شروع کی تو عملی سیاست کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بھٹو صاحب کا دور بہت قریب سے دیکھا، لیکن اس وقت موضوع بھٹو دور نہیں، اُن کی ذات ہے۔ پروفیسر رفیق افضل بہت بڑے تاریخ دان ہیں، مگر درویش منش مزاج پایا اور خاموشی سے زندگی بسر کی۔ سیاسی تاریخ پر اُن کے حوالے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ وہ بہت مظلوم انسان تھے۔ جب اُن کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اُن کی پارٹی کے لوگ غائب ہوگئے۔ جس جرأت و بہادری کی مثال بھٹو خود تھے، اُن کے نام نہاد حامیوں میں اُس کا عشر عشیر بھی دکھائی نہ دیا۔ کچھ بدل گئے، کچھ کھسک گئے، بہت کم تھے جو ثابت قدم رہے۔ آخر میں بھٹو تنہا تھے۔ بیگم نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور اُن کے وکیل یحییٰ بختیار ہی دکھائی دیتے تھے‘ باقی سب فصلی بٹیرے ثابت ہوئے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سیاسیات پر پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا۔ ساری دنیا میں اس فیصلے پر تنقید ہورہی تھی۔ جنرل صاحب نے کچھ دانشور سپاہیوں کا انتخاب کیا اور اُنہیں امریکی جامعات اور دیگر فورمز پر سرکاری خرچے پر روانہ کیا تاکہ دنیا کو قائل کیا جا سکے کہ یہ ایک منصفانہ فیصلہ تھا۔ ہمارے نزدیک بھٹو مظلوم تھے کیونکہ فیصلے پر ریاست کی خواہش اور مداخلت غالب تھی۔ امریکہ میں میرے ہم جماعتوں اور اساتذہ نے بھٹو کی سزا منسوخ کرانے کیلئے ایک پٹیشن تیار کرکے جنرل ضیاالحق کو ارسال کی۔ یہ سند میرے پاس محفوظ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ساری دنیا میں اساتذہ، طلبہ، صحافی اور دانشور بھٹو کی جان بچانے کیلئے متحرک تھے، لیکن پاکستان کے اندر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ارد گرد نظر دوڑائیں، آج کے سیاست دانوں کو دیکھیں کہ ان میں سے کتنے ہی ضیاالحق کے شریکِ اقتدار رہے۔ کچھ نے اگر موقف تبدیل کیا تو بھٹو کو پھانسی ملنے کے بعد۔ نہ جانے بھٹو پر کس قسم کے لغو لیبل لگائے جاتے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے المیے نے ساری قوم کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ہوا کیسے؟ کاش اُس وقت ذرائع ابلاغ پر آمریت کے پہرے نہ ہوتے۔ بھٹو نے بہت کم وقت میں نئے پاکستان کی تعمیر کی۔ پانچ سال کے عرصے میں جو کام بھٹو نے کیا وہ کوئی اور سیاسی اور فوجی قیادت کئی دہائیوں تک نہ کر سکی۔ لکھنے سے پہلے کچھ تحقیق کرلی جائے تو بہتر ہے۔ شاید ذہن سے تعصب کی کچھ گر د صاف ہوجائے۔ کچھ اداروں کی تشکیل کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی اُنھوں نے قومی شناختی کارڈ کی سکیم کا اعلان کیا۔ میں اُس وقت جامعہ پنجاب میں زیرِ تعلیم تھا۔ ہماری ترقی پسند تنظیم نے ہر جگہ، دیواروں پر نعرے لکھوائے کہ شناختی کارڈز ملک میں فسطائیت پیدا کرنے کے لیے جاری کیے جا رہے ہیں۔ آج اس کی افادیت پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جامعات سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے رضاکار تنظیم بنائی جس کا اعادہ پنجاب حکومت انٹرن شپ پروگرام کی صورت کررہی ہے۔ میں نے خود اپنی پہلی نوکری کا آغاز بطور محقق رضاکار دوسو پچاس روپے ماہوار پر کیا تھا۔ رزلٹ کے دوسرے ہی دن روزگار کا بندوبست ہوگیا۔ اسلام آباد میں لوک ورثہ ہماری قومی ثقافت کی حفاظت، ترویج اور اس کی نمائش کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ بھٹو صاحب نے ہی قائم کیا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ صرف دو سال کے عرصے میں اس ادارے کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد، انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز، قائدِ اعظم یونیورسٹی، اور پانچ ایریا سٹڈی سنٹر پانچ مختلف قومی جامعات میں قائم کیے۔ تاریخ کی تحقیق کے لیے اُنھوں نے نیشنل کمیشن فار ہسٹریکل ریسرچ، قائد اعظم یونیورسٹی میں قائم کیا۔ میں نے اپنی علمی اور تحقیقی زندگی کا آغاز دوماہ جامعہ پنجاب میں رضاکار محقق رہنے کے بعد ہسٹری کمیشن سے کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اس وقت کے مشہور مورخ خورشید کمال عزیز کو سوڈان سے ترغیب دے کر بلایا، اور اس ادارے کی سربراہی سونپی تھی۔ بعد وہ بھی جنرل ضیاالحق کے غیظ وغصب کا شکار ہوئے، اور اپنے خلاف انکوائریاں بھگتتے رہے۔ بھٹو صاحب کی علمی کاوش کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے تباہ کردیا۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھٹو صاحب کو ہمیشہ تعصب کی نظر سے دیکھا۔ اُن میں سے زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا، یا جن کا تعلق اُن مذہبی سیاسی جماعتوں سے تھا جو بھٹو کو پاکستان کا نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ قوم کو متفقہ آئین دینا تھا۔ وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ پائیدار سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ اکثریت پارلیمانی نظام کے حق میں تھی۔ بھٹو صاحب کی خارجہ امور اور قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بصیرت غیر معمولی تھی۔ ''موہوم آزادی‘‘ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے چھ سال پہلے لکھی تھی۔ اس میں طاقت اور خوف کے توازن کے حوالے سے ایک باب ہے، جس میں اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ بھارت کا مقابلہ پاکستان صرف جوہری ہتھیار بنا کرہی کرسکتا ہے۔ یہ بات تاریخ کا مطالعہ اور عالمی واقعات پر گرفت رکھنے والا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ عوام کے اجتماع، یا اقوامِ متحدہ میں بات کرتے تو اُن کا انداز منفرد اور عالمی معیار کا ہوتا۔ بھٹو صاحب ایک خاص وقت میں ابھرے، اور قومی زندگی پر ایسا نشان چھوڑ گئے کہ کوئی مٹانا چاہے تو ناکامی اُس کا مقدر ٹھہرے گی۔ سیاسی مخالفین، اور جنرل ضیا نے اُنہیں مہلت نہ دی ورنہ پاکستان میں اصلاحات کا عمل ہوتا، ادارے بنتے اور فعال ہوتے، اور یقینا ہم ایک نارمل اور جدید ریاست بن کر آج دنیا میں باعزت مقام پر ہوتے۔ ناانصافی کا شکار ہونے والے بھٹو صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ بھٹو صاحب کی علمی کاوش کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے تباہ کردیا۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھٹو صاحب کو ہمیشہ تعصب کی نظر سے دیکھا۔ اُن میں سے زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا، یا جن کا تعلق اُن مذہبی سیاسی جماعتوں سے تھا جو بھٹو کو پاکستان کا نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ قوم کو متفقہ آئین دینا تھا۔ وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ پائیدار سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ اکثریت پارلیمانی نظام کے حق میں تھی۔ بھٹو صاحب کی خارجہ امور اور قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بصیرت غیر معمولی تھی۔ ''موہوم آزادی‘‘ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے چھ سال پہلے لکھی تھی۔ اس میں طاقت اور خوف کے توازن کے حوالے سے ایک باب ہے، جس میں اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ بھارت کا مقابلہ پاکستان صرف جوہری ہتھیار بنا کرہی کرسکتا ہے۔ یہ بات تاریخ کا مطالعہ اور عالمی واقعات پر گرفت رکھنے والا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ عوام کے اجتماع، یا اقوامِ متحدہ میں بات کرتے تو اُن کا انداز منفرد اور عالمی معیار کا ہوتا۔ بھٹو صاحب ایک خاص وقت میں ابھرے، اور قومی زندگی پر ایسا نشان چھوڑ گئے کہ کوئی مٹانا چاہے تو ناکامی اُس کا مقدر ٹھہرے گی۔ سیاسی مخالفین، اور جنرل ضیا نے اُنہیں مہلت نہ دی ورنہ پاکستان میں اصلاحات کا عمل ہوتا، ادارے بنتے اور فعال ہوتے، اور یقینا ہم ایک نارمل اور جدید ریاست بن کر آج دنیا میں باعزت مقام پر ہوتے۔ ناانصافی کا شکار ہونے والے بھٹو صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

جمعہ، 30 اگست، 2019

کمزور احتجاج کرتا ہے ،، طاقتور بدلہ لیتا ہے

Image may contain: Malik Rauf Awan, text
)کمزور احتجاج کرتا ہے،، طاقتور بدلہ لیتا ہے،، کبھی گاؤں کے چودھری کو احتجاج کرتے دیکھا؟؟؟ احتجاج کمی کرے گا ہمیشہ،،، کبھی اسرایئل نے احتجاج کیا،، آپ ہولو کاسٹ پر بیان دیں، اسرائیل احتجاج نہیں کرے گا لیکن آپ کے ملک میں آپ کی لاش ملے گی،، اسے کہتے ہیں طاقت،، 
نبی کریمؐ نے کبھی احتجاج کیا؟؟؟ نہیں،،کعب بن اشرف آپؐ کی ہتک کرتا تھا، ابھی مکہ فتح نہیں ہوا تھا،، مسلمان کمزور تھے، لیکن احتجاج نہیں کیا،، صحابہ ؓ سے پوچھا تم میں سے کون کعب کو اس کے گھر یعنی علاقہ میں قتل کر کے آۓ گا،، ایک صحابی گۓ اور اس گستاخ کو اس کے اپنے علاقے میں جہنم واصل کیا، یہ ہے سنت محمدؐ

اور یہی ہے کافر کا علاج،،


یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ان مغربی اقوام کی تعریفیں کرتا ہے کہ یہ بڑی دیانتدار، ایماندار، وقت کی پابند، وعدے کی پابند، معاملات میں کھرے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو میرا خون کھول جاتا ہے کیونکہ بچپن سے اب تک ان " مہذب " اقوام کو ہم نے بڑے بڑے جرائم میں ہی ملوث پایا ہے۔ یہ انکی ظاہری دیانت داری تجارتی Commercial ذہن کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ یہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ Honesty is the best policy.
یعنی ایمانداری سے کام اس لئے کریں کہ اس میں مادی فوائد ہیں۔ یعنی ایماندار اس لئے نہیں بنیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور یہ کہ ہمیں آخرت میں جواب دہی کرنی ہے۔
اس کے علاؤہ آپ نے چند ممالک کی مثال دی ہے۔ اسرائیل کے خلاف کتنی قرار دیں سلامتی کونسل نے پاس کی ہیں لیکن کسی ایک پر بھی اس نے عمل نہیں کیا اور اسرائیل نے دنیا کو مسیج دیا کہ ہم صرف ایک ہی اصول جانتے ہیں کہ
Might is right
جس کی لاٹھی اسکی بھینس۔

ہمیں یاد ھے_ذراذرا

یہی سیکیورٹی کونسل تھی اور یہی تم پانچوں وڈے چودھری(۔امریکا۔فرانس۔برطانیہ۔چائنہ۔روس)
کیس لیکر آنے والا امریکا تھا اور جس پر کیس تھا وہ صدام حسین تھا۔ کون تھا۔۔؟؟ صدام حسین۔ یاد ہے نہ۔ 
جھوٹی دلیلوں، فیک ڈاکیومینٹس، غلط ثبوتوں پر بنا ہوا ماس ڈسٹرکشن ویپنس کا تاریخ کا کمزور ترین کیس۔ مگر تم نے حملہ کرنے کے لیئے ریزولیشن پاس کردی تھی۔ اور تم پانچوں امریکا کی سربراہی میں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر چڑھ دوڑے تھے۔
انبیاء کرام کی اس سرزمین پر انسانی خون کی ندیاں بہادی گئیں۔ بچوں اور عورتوں کی چیخیں آسمان ہلانے لگیں۔ عراق کو نسلی اور مسلکی بنیادوں پر ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔زمیں کا چپا چپا چھانا گیا مگر ماس ڈسٹرکشن ویپنس کا کہیں نام نشان بھی نہ تھا۔ 
پھر تمہارے ہی اک چوہدری برطانیہ کے وزیراعظم نے ٹی وی پر آکر قبول کیا کے ہم پروپیگینڈہ میں آگئے تھے اور غلط کردیا۔۔۔۔۔آہ

یہی سیکیورٹی کونسل تھی،
پھر کیس لیکر آنے والا امریکا تھا اور جن پر کیس تھا وہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن تھے۔ 
وہ ہی جھوٹی گواہیاں، وہی جھوٹے ثبوت کے اسامہ نے ٹون۔ٹاورس پر حملہ کیا ہے اور ملا عمر اس کو امریکا کے حوالے نہیں کررہا۔
تم نے پھر حملہ کرنے کی ریزولیشن پاس کردی۔ اک بار پھر امریکا دنیا کی بیالیس ملکوں کی جدید فوج جو پوری دنیا کی آرمی کا ساٹھ فیصد ہے کو لیکر غریب افغانیوں پر چڑھ دوڑا۔ اور پھر جو کچھ ہوا وہ بھی اک تاریخ ہے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کے ٹون۔ٹاورس حملہ تم نے خود کروایا تھا۔

اور پھر یہی سیکیورٹی کونسل تھی
کیس مشرقی تیمور اور دوسرا پھر جنوبی سوڈان کا تھا۔ تم نے دنوں کے اندر رائیٹ آف سیلف ڈٹرمینشن کے تحت رائے شماری کرواکر، دونوں مسلم ریاستوں کے ٹکڑے کرکے اپنی عیسائی ریاستیں قائم کروا دی۔

اور پھر کل
یہی کونسل اور وہی تم پانچ، کیس لیکر آنے والا پاکستان تھا اور مجرم نریندر مودی تھا۔ 
سچے ثبوتوں اور ٹھوس گواہیوں پر مبنی کیس کے انڈیا نے کشمیر کی تاریخی حیثیت کو ختم کیا ہے، پورے خطے کے امن کو داو پر لگادیا ہے۔ کشمیر میں انڈین آرمی روزانہ معصوم عورتوں کی عصمت دری کرتی ہے، وہاں روزانہ نوجوانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ پچھلے پندرہ روز کرفیو کی وجہ سے لوگوں کے کھانے کی چیزیں اور دوائیاں ناپید ہوگئی ہیں، مریض تڑپ رہے ہیں۔

مگر تم نے کوئی ریزولیشن پاس نہیں کی، کوئی آفیشل مذمتی اسٹیٹمینٹ تک جاری نہ کیا، سوائے تشویش ظاہر کرنے کے۔
اگر یہی کیس لیکر آنے والا
کوئی مائیکل یا ڈیوڈ یا کمار ہوتا اور ملزم احمد، محمد یا عبداللہ ہوتا تو پوری دنیا میں جنگ کے نقارے بج چکے ہوتے اور اس وقت تک تمہاری نیٹو کے ایف سیونٹین اڑان بھر چکے ہوتے۔۔۔۔

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات۔انیکا حل اور طرلقہ وہی ہیے جو حضور پاک نے غزوہ بدر میں 313 جانثاروں اور جانبازوں نے اس وقت کے فرعون نمرود قرلیش مکہ کی رعنیویت کو خاک میں ملا دیا یہ عربی اپنے ہاتھ سے کھودے ہوے کنوہیں میں گرے گے اور برباد ہونگے آج چوبیسواں روز ہو گیا کرفیو لگے نوے لاکھ کلمہ گو مقبوضہ کشمیر کے بچے عورتیں بیمار اس بلیک آوٹ میں ہزاروں دختران کشمر اپنی عزت آبرو گنوا بیھٹی ہیں ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو عقوبت خانوں اندھا کرکے شہید کردیا گیا ہیے ان عربوں کی تباہی اور بربادی اللہ کریم نے لکھ دی ہیے ہمارے سپہ سالار کو پورے ملک میں ایمرجنیسی کا نفاذ کرنا چاہیے انشااللہ فوجی ٹرنییگ کیمپوں میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان فوجی ٹرنییگ لینے کے لیے تیار ہیں یہ سیاسی قیادتیں اب دھرنوں ہڑتالوں اور ریلیوں کا ڈرامہ ختم کرہیں عمران خان کو پہل کرنی چاہیے اپنے دونوں بچوں کو فوجی ٹرنینگ کے لیے والنٹیرز کرے خاندان شرلفیآ کے ٹنوں منوں اور تمام نوجوان اسی طرح خاندان زرداری کے بلاول انیڈ کمپنی فضل الرحمان انیڈ بردارز کو تو رانی توپ چلانے کی ٹرنییگ دہینی چاہیے اور ہر ہفتے ایل او سی باڈرز پے جا کر مکار گھٹیا نازی مودی کو للکارنا چاہیے اور اس طرح ہمارے ان جری بہادر افواج کو بھی یقین ہوگا کہ اس آر پار کی جنگ میں ہمارے شانہ بشانہ پوری 22کڑور عوام اور سیاسی قیادت بھی کھڑی ہیے 

...........
 مصنف ملک عبدالروف اعوان فری لانس انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کالم نگار ممبرز ایمنسٹی انٹرنشنیل و سوشل میڈیا بلاگرز صدر سول سوساہیٹئ ہیں