اتوار، 1 نومبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ دوم)

محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی

محمد خان آف ڈھرنال


کچھ عرصہ امن سے گزر گیا محمد خان دنگے فساد سے دور پر سکون زندگی گزارنے کی جدوجہدمیں مگن تھا کہ حالات نے کروٹ لی سکندر مرزا کو ہٹا کر محمد ایوب خان بر سر اقتدا آ چکے تھے اکتوبر 1958ء کو جب فیلڈ مارشل ایوب خان کر سی اقتدار پر بیٹھے تو ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان بن گئے وقت کا گھوڑا مخصوص رفتار سے دوڑتا رہا کہ مئی 1959ء کی ایک رات ڈھرنال کی زمین انسانی خون سے سرخ ہو ئی اس خوفناک اور لرز دینے والے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مولا بخش پارٹی نے حالات سے سبق سیکھنے کی بجائے انتقام لینے کا منصوبہ بنایا‘ محمد خان اپنے بھائی ہاشم خان کے ہمراہ گھر بیٹھا تھا 15 مئی کی رات کافی گرم تھی 9 بج چکے تھے اور دونوں بھائی کسی خاندانی مسلہ پر بات کر رہے تھے کہ اچانک مکان کے باہر سے کچھ لوگ پکانے لگے باہر نکلے بڑے سورمے بنے بیٹھے ہو باہر نکلو اس نے یہ آوازیں سنیں باہر جھانک کر دیکھا تو 30,40 افراد کے کا محاصرہ کیے کھڑے تھے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں محمد خان حالات کی نزاکت کو بھانپ گیا اس نے اس لڑائی کو ٹالنے کی بہت کوشش کی ہمسائیوں کے ذریعے انہیں کہلوایا کہ وہ واپس چلے جائیں اور خود ایک دیوار کی اوٹ سے بلند آواز سے انہیں کہا کہ وہ یہ خونی کھیل نہ کھیلیں وہ ابھی رہا ہو کر آیا ہے وہ خود بھی زندہ رہیں اور انہیں بھی زندہ رہنے دیں وہ رات کے 3 بجے تک یہی جدوجہد کرتا رہا کہ کسی طرح خطرہ ٹل جائے لیکن دشمن نے ان کوششوں کو کمزوری سمجھا اور بندوقوں کے منہ گولیاں اگلنے لگے انہوں نے دو اطراف سے فائرنگ شروع کر دی‘ وہ اس میں بری طرح پھنس گئے تھے کہ نہ گھر میں جان محفوظ تھی اور نہ باہر نکل کر کہیں چھپ سکتے تھے تنگ آمد یجنگ آمد کے مصداق جب کوئی چارہ کار نہ رہا تو رات کے پچھلے پہر محمد خان نے بھی دشمن کا مقابلہ کرنے کافیصلہ کیا بندوقین لیں اور دونوں بھائیوں نے گھر کے اندر مورچے سنبھال لئے‘ مخالف فریق دائیں اور بائیں جانب سے فائرنگ کر رہا تھا دائیں جانب محمد خان رائفل اور ڈھیر ساری گولیاں لے کر بیٹھ گیا اور بائیں جانب اس کا بھائی ہاشم خان ، وہ مکان کے اندر سے باہر کھڑے مسلح افراد کی ہر حرکت کو دیکھ سکتے تھے لیکن خود ان کی نگاہوں سے اوجھل تھے جب ان دونوں نے تاک تاک کر انہیں گولیاں سے بھوننا شروع کر دیا آن کی آن میں 9 افراد اسی جگہ مو ت کے گھاٹ اتر گئے 9 افراد نے ان کی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا اور بہت سے خمی ہوئے یہ دیکھ کر باقی لوگوں میں بھگدڑ مچ گئیں اور وہ بدحو اسی میں جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے‘ گھر کے باہر گلی میں 9 افراد کی لاشیں بے گورو کفن پڑی تھیں اور زمین گرم خون سے سرخ ہوگئی تھی‘ سارے گاؤں میں بھونچال آ گیا اس گاؤں مں کیا کسی بھی جگہ ایک وقت میں اتنے قتل ہوئے ہوں‘ ڈھرنال گاؤں کے بچے اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹ گئے تھے نولاشیں خون اور مٹی لت پت ساری رات گلی میں پڑی رہیں‘ محمد خان اور ہاشم خان گھر کے مورچوں میں بیٹھے رہے اتفاق کی بات ہے کہ انہیں ایک چھرا تک بھی نہیں لگا شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گھر کے اندر مورچہ بند تھے اور دشمن گھر کے باہر وہ دونوں دشمن کی ہر حرکت کو نوٹ کررہے تھے جبکہ دشمن انہیں اندھیرے کے باعث دیکھ بھی نہیں سکتا تھا‘ انہیں یہ تو پتا چل گیا تھا کہ گولیاں کس سمت سے آرہی ہیں لیکن وہ ان کی گولیوں کی زد سے باہر تھے صبح ہوئی تو وہاں ایک کہرام برپا تھا کہ آج تک گاؤں میں اتنا بڑا تصادم نہیں ہوا تھا ڈھرنال ایک طرح کا میدان جنگ بن گیا تھا دہشت اور خوف نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ محمد خان نے اپنے بندوں کو کہا کہ وہ خاک و خون میں لوٹتے زخمیوں کو تلہ گنگ کے ہسپتال میں پہنچا دیں اب وہ ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھے‘ محمد خان نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ملتان میں بڑے بھائی رن باز خان کو اس حادثہ کی اطلاع کردی‘ وہ 14مئی کی شام ڈھرنال پہنچ گیا اس روز تلہ گنگ کا انسپکٹر سید مرتضیٰ شاہ پولیس کی بھاری نفری لے کر گاؤں جائے وقوعہ پر پہنچ گیا یہ انسپکٹر مقتولین کا رشتہ دار اور پیر صاحب کا خاص آدمی تھا اس نے سر سری تفتیش کے بعد جو کیس تیار کیا اس میں مخالف فریق کے بے قصور قرار دیتے ہوئے حادثہ کی تمام تر ذمہ داری نہ صرف دونوں بھائیوں پر ڈال دی بلکہ ان افراد کو بھی قتل کیس میں ملوث کر لیا‘ جو موقع پر موجود نہیں تھے‘ انصاف کی آنکھوں میں ریت بھر جائے مفادات کی افیون دے کر ضمیروں کو موت کی نیند سلا دیا جائے تو انسانی جسموں میں روحیں مر جاتی ہیں اخلاق کا جنازہ نکل جاتا ہے‘ اسے ابتداء ہی سے معاشرتی ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ جھوٹے مقدمات میں الجھایا گیا ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا اور اس مرتبہ تو ظلم و زیادتی کی حد کر دی گئی قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ انصاف کے منہ پر تھپڑ رسید کئے گئے آپ حیران ہوں گے اس کوڑھی نظام میں زخم کس طرح ناسور بن جاتے ہیں ایک شریف انسان کس طرح ڈاکو بنا دیا جاتا ہے اس سے چل جائے گا کہ پولیس نے محمد خان کے بہنوئی ملک علی خان جو حضرہ میں سکول ہیڈ ماسٹر تھے اور ڈیوٹی پر حاضر تھے انہیں بھی مقدمہ میں دھر لیا یاد رہے حضرہ گاؤں سے 133 میل دور ہے یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ ملک علی خان لڑائی کے دن ڈیوٹی پر حاضر تھے‘ بڑے بھائی رن باز خان کو اس نے خود تصادم کی اطلاع دے کر بلوایا اور وہ اسی شام گھر آئے تھے پولیس نے انہیں بھی 302 چالان کر دیا اس کے علاوہ انکا ایک نوکر محمد عارف کو بھی قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا حتیٰ کہ بہنوئی کے بھائی محمدصادق بھی پولیس کے ظلم کا نشانہ بن گئے۔ اس مجرمانہ حمایت پر ان کی پولیس انسپکٹر کے ساتھ جھڑپ ہو گئی اور انہوں نے اپنی گرفتاری نہیں دی ان کا موقف تھا کہ قتل میں ملوث افراد کو ہی پکڑا جائے جو بے گناہ ہیں انہیں مقدمے میں نہ الجھایا جائے اس نے کھلے بندوں قتل کا اعتراف کر لیا لیکن پولیس انسپکٹر اپنی ضد پر ڈٹا رہا اس نے محمد خان اس کے بھائی ہاشم خان کے علاوہ بڑے بھائی رن باز خان‘ محمد عارف‘ ماسٹر علی خان‘ محمد صادق پر قتل کا نامزد پرچہ درج کر لیا اور انہیں گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا جبکہ مخالف پارٹی کے ایک شخص کو بھی ہتھکڑی نہیں پہنائی گئی حالانکہ انہوں نے گھر کا محاصرہ کیا تھا اور گھیرے میں لے کر انہیں مارنے کی کوشش کی تھی ان کی زبردست فائرنگ سے گھر کے درو دیوار پر گولیوں کے بے انتہاء نشانات موجودتھے دشمن فریق کی لاشیں ان گھر کے آگے پڑی تھیں اور جائے واردات کے سر سری معائنے میں ہی یہ بات ثابت ہو جاتی تھی کہ قصور مولابخش کے آدمیوں کا ہے اور اس قتل کے ذمہ دار وہ خود ہیں لیکن ظلم کی حد ہے کہ ان میں سے ایک آدمی بھی گرفتار نہیں کیا گیا یہ جانب داری کی انتہا تھی قانون شکنی اور بے ضمیری تھی پولیس محمد خان کیخلاف پارٹی بن گئی تھی اثر و رسوخ حرکت میں آچکا تھا ٹیلی فون کی کالیں گونج رہی تھی دولت اپنا جادو جگا رہی تھی ظالم مظلوم بن گئے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر محمد خان اور ہاشم خان مفرور ہو گئے اور بھاگ کر وادی سون کے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے کچھ عرصہ بعد اسکے بڑے بھائی رن باز خان کی فوج سے چٹھی آ گئی کہ وہ نوکری پر حاضر ہو جائے اب پولیس کی آنکھ کھلی اور انہیں مقدمہ سے ڈسچارج کر دیا گیا وہ ملتان ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے دیگر افراد کا چالان کر کے پولیس نے انہیں متعلقہ جیل بھیج دیا‘ کیمبل پور سیشن کورٹ میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی دو سال تک مقدمہ چلتا رہا حتیٰ کہ 1961ء کے سال نے زندگی کے صحنقدم رکھا اس کے بڑے بھائی ہر پیشی پر عدالت حاضر ہوتے تھے۔ کہ بے رحم وقت نے ظلم کا ایک اور باب کھول دیا‘ ہوایوں کہ سال

1961ء کا تھا رن باز خان مقدمہ پیشی کے لئے کیمبل پور کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھا جمعہ کا دن تھا وہ کیمبل پور کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے بعد مسجد سے نکل رہا تھاس کہ پیر صاحب کے بندوں نے رن باز خان پر اچانک فائرنگ کر دی رن باز اسی جگہ جان کی بازی ہار گیا‘ انسپکٹر پولیس مرتضیٰ شاہ ان دنوں ڈی ایس پی کیمبل پور تھا اس قتل کے تیسرے روز عدالت سے نو افراد قتل کیس میں گرفتار شدگان تمام افراد بری ہو گئے ان پر قتل ثابت نہ کیا جا سکا البتہ محمد خان اور ہاشم خان کو قتل کے کیس میں مفرور قرار دے دیا گیا دوسرے ہی روز اس کے بندوں نے پہاڑوں میں اس کے بھائی کے قتل کی اطلاع دی تو محمد خان کے دل بجلی سی گر گئی اسے شک تھا کہ مولا بخش کے آدمیوں نے اس کے بھائی رن باز خان کے خون سے ہاتھ رنگے ہو ں گے لیکن جب پتہ چلا کہ مرتضی شاہ نے یہ سازش تیار کی تو اس کے سینے میں شعلے بھڑک اٹھے اور دماغ انتقام کی آگ میں جلنے لگا وہ اور ہاشم خان مرتضیٰ شاہ سے اس قتل کا بدلہ لینے کی ترکیب سوچنے لگے کہ کسی طرح اسے ان کے اس ارادے کا پتہ چل گیا اس نے ایک دوست کے ذریعے پیغام بھیجا کہ رن باز کے قتل میں اس کا ہاتھ نہیں ہے ساتھ ہی اس نے قسم بھی دی کہ آئندہ وہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی بھی نہیں کرے گا‘ اس کے بعد انہوں نے اس کاپیچھا چھوڑ دیا اگر یہ نہ ہوتا تو وہ لازماً اسے کسی نہ کسی طرح موت کے گھاٹ اتار کر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرتے اور یہ بات مرتضیٰ شاہ بھی جانتا تھا کیونکہ ان دنوں ارد گرد تمام علاقوں میں محمد خان کی زبردست دہشت پھیلی ہوئی تھی اور لوگ اس کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے تھے