منگل، 3 نومبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ چہارم)




محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی


محمد خان کی ریاست عدالتیں اور تاریخی فیصلے

وہ زیادہ پڑھا ہوا نہیں تھا لیکن تجربے نے بہت کچھ سکھایا تھا اس نے اپنی الگ عدالتیں لگانا شروع کر دیں وہ لوگ جو جان کے دشمن تھے اس کے خوف سے لرزنے لگے پولیس آفیسر‘ تحصیل دار‘ دوسرے محکموں کے سربراہ اس کے پاس آیا کرتے اور پاس بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے ہیں وہ محمد خان ان عدالتوں کا سربراہ اعلیٰ ہو کرتا تھا اس کے پاس سینکڑوں سپاہی ہوا کرتے جنہیں وہ خود بھرتی کیا کرتا انہیں باقاعدہ تنخواہ دی جاتی تھیں ہزاروں رضا کار تھے باقاعدہ مقدمات کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا سب کاروائی عام عدالتوں کی طرح لکھی جاتی شہادتیں لی جاتیں مقدمات کی انکوائری کی جاتی وارنٹ جاری کئے جاتے اور مسلح سپاہی ملزموں کو پکڑ کر لایا کرتے تھے محرر تمام کاروائی نوٹ کرتا اس کے ساتھ علمائے کرام بیٹھا کرتے تھے تمام مقدمہ کی کاروائی سننے کے بعد و ہ قرآن و سنت کے روشنی میں جو فیصلہ دیا کرتے ہیں وہ ان پر دستخط کر کے اور اپنے سامنے عمل درآمد کرایا کرتا تھا سپاہیوں کے پاس اسلحہ ہوا کرتا تھا اگر کوئی شخص عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر تا دیتا تو طاقت کے ذریعے اس پر عمل کرایا جاتا جب اس کی عدالتیں لگا کرتی تھی تو ارد گرد کے تھانے اجڑ گئے تحصیلیں سونی ہو گئی تھیں اور دوسرے انصاف مہیا کرنے والے ادارے بالکل ویران ہو گئے‘ چار سال تک متذکرہ علاقوں پر اسکا مکمل کنٹرول رہا وادی سون ‘ تحصیل چکوال ‘ تحصیل پنڈی‘ گھیب اور تلہ گنگ کے علاقوں میں اس کا سکہ جاری تھا اس کی اجازت کے بغیر ان علاقوں پرمشتمل ریاست میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی ان علاقوں کی انتظامیہ بالکل بے کار ہو کر رہ گئی تھی یہ درست ہے کہ وہ 1963ء سے 1966 میں تک اپنی ریاست کا بے تاج باد شاہ تھا اس کی عدالتوں میں 302 کے علاوہ ہر قسم کے مقدمات پیش ہوا کرتے تھے 1964ء کے صدارتی انتخابات میں ملک امیر محمد خان کے کہنے پر اس نے علاقہ کے تمام بی ڈی ممبروں اور چیئرمینوں کے ووٹ صدر ایوب خان کو دلوائے تھے‘ 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان سے جنگ شروع کی تو اس نے جنرل محمد موسیٰ اور صدر ایوب خان کو تار دی کہ اسے پانچ ہزار مجاہدین کو لے کر محاذ جنگ پر جانے کی اجازت دی جائے اسے اس تار کا جواب آیا ابھی انتظار کرو بعد میں جنگ بندی کے باعث اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی‘ اس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا اس کا نام ریاست کے راجے کے مترادف معانی اختیار کر گیا تھا اس کے پاس مظلوم لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی‘ یہاں تک کہ وہ صبح عدالت لگا کر بٹھ جایا کرتا اور رات گیارہ بجے تک مقدمات سماعت کرتا رہتا اس حالت میں رضا کاروں کا اس کے گرد جمع ہوجانا قدرتی بات تھی۔ 

اس سے انکار نہیں کہ ان کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا تھا مگر لوٹا ہوا انہیں لائسنس کا کہیں کوئی ناجائز بھی ہوگا جس کی قسم نہیں کھائی جاسکتی‘ لوگ اس کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کو تیار تھے وہ یہ عدالتیں سرکاری ریسٹ ہاؤس میں لگایا کرتا تھا جس پر اس نے قبضہ کر رکھا تھا اس کے نیچے

ایک تہہ خانہ بھی تھا جو خاص مقاصد کیلئے تھا‘ اس وقت کی پولیس اس سے بخوبی آگاہ تھی آخر عدالتوں کار یکارڈ بھی تو محفوظ کرنا ہوتا تھا اورفیصلوں کی دستاویزات کی حفاظت کا مسئلہ بھی تھا تہہ خانہ اسی کام کی حفاظت کیلئے استعمال کیا جاتا تھا‘ اسکے کارندوں کے پاس اسلحہ تو ہوا کرتا تھا اور حکومت کے افسران بھی اس بات سے آگاہ تھے اس کی عدالتوں اور الگ ریاست کے قیام سے حکومت بھی لاعلم نہیں تھی‘ اسکی عدالتوں کا نظام ٹھیک ٹھاک انداز سے چل رہاتھا چار سال کے طویل عرصہ میں اس کی ریاست سے رشوت کامکمل خاتمہ ہو گیا تھااکثر و بیشتر مقدمات جرمانے کیے جاتے تھے جرمانے کی رقم مدعی کو دے دی جاتی تھی‘ ہزاروں میں سے صرف تیس روپے رکھے جاتے تھے اس کٹوتی سے جو رقم اکٹھی ہوتی اس میں سے عدالت کے کارندوں کو تنخواہ دی جاتی تھی اور عدالتوں کا خرچہ پورا کیا جاتا تھا اس کے علاوہ علاقہ کے امیر کبیر افراد بھی اس کی خدمت کر جاتے اس لئے اس کی ریاست اور عدالتیں کبھی مالی بحران سے دوچار نہیں ہوئیں اس وقت اس کے پاس نئی شیور لیٹ کار تھی اور ذاتی استعمال کیلئے دو گھوڑے بھی تھے‘ اس کی عدالت کے قاضی عبدالرحمن نہایت عرق ریزی سے اسلام کی روشنی میں جرم کی نوعیت کے پیش نظر اپنے ساتھی قاضیوں سے مشورہ کر کے فیصلہ دیا کرتے تھے اس نے اس عرصہ میں دلیرانہ اور سنسی خیز فیصلے کیے‘ 1963ء سے 1966ء تک اس کی ریاست میں عدالتیں قائم رہیں دور دراز علاقوں کے کیس بھی اسکے سامنے پیش کیے جاتے رہے کہ وقت نے انگڑائی لی ملک امیر محمد خان اور صدر ایوب خان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے ملک امیر محمد خان نے گورنری سے استعفیٰ دے دیا‘ محمد خان کے مخالف عناصر نے صدر ایوب کو اس کے خلاف بھڑکا دیا اور حکومت کی پوری مشینری اس کے خلاف حرکت میں آ گئی‘ یہا سے وہ کہانی شروع ہوتی ہے جس کو اس کے مخالف گروپ نے ترتیب دیا تھا محمد خان کے عروج کو زوال آنے لگا اور تباہی اور بربادی کے اندھیرے اس کا تعاقب کرنے لگے