بدھ، 4 نومبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ پنجم)



محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی


زوال کی ابتداء ایوب خان ‘ محمد خان اس کے مخالف ہو گئے

یہ اگست 1966ء کی بات ہے کہ انٹیلی جنس نے صدر ایوب خان کے کان بھرے کہ ملک امیر محمد خان‘ محمد خان کے ہااتھوں تمہیں قتل کرنے کی سازش کر رہا ہے صدر ایوب خان نے اس اطلاع پر یقین کرتے ہوئے آئی جی پولیس کو محمد خان کی فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیااس وقت ایس پی دل باز خان نے محمد خان کو عدالتیں لگانا چھوڑ دینے کا ہمدردانہ مشورہ دیا تاکہ حکومت مطمئن ہو سکے اس نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ حالات رخ بدل رہے ہیں عدالت نے تمام کارندوں کے حساب باق کرتے ہوئے وہ اپنا ڈیرہ چھوڑ کر ملتا ن چلا آیا ابھی اسے ملتان آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ملک امیر محمد خان اور محمد خان کے مخالف پولیس افسران کو حکم دیا گیا جس طرح بھی ہو محمد خان کو تلاش کر کے گولی سے اڑا دیا جائے۔ اسے بھی اس حکم کا علم ہو گیا وہ اپنی جان بچانے کیلئے بہاولپور چلا گیا اور بال بچوں کو سرگودہا میں ایک رشتہ دار کے ہاں بھیج دیا پولیس کی بھاری نفری اسکی گرفتاری کیلئے تعینات کر دی گئی تھی حتیٰ کہ سپیشل دستے تعینات کر دیئے گئے اب وہ باقاعدہ رو پوش ہو گیا اسے خطرہ تھا کہ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو کبھی زندہ نہیں بچے گا پولیس نے اسکے رشتہ داروں اور جان پہچان رکھنے والوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں جب وہ پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکا تو ایک نہایت اعلیٰ خفیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رو پوشی کی حالت میں کسی بھی طرح اسے پکڑ کر مار دیا جائے اور ملک امیر محمد خان کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے پابہ زنجیر کر دیا جائے۔ اس منصوبہ

کو عملی جامہ پہنچانے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا گیا کہ اس کی ضعیف ماں سے ایک سادہ کاغذ پر انگوٹھا لگوا لیا گیا اس کاغذ پر بعد میں یہ لکھا گیا کہ ملک محمد خان کو ملک امیر محمد خان نے قتل کر دیا ہے اس حلفیہ بیان کی روشنی میں استغاثہ تیار کر کے عدالت کو دے دیا گیا جب محمد خان کو اس کا علم ہوا کہ ملک امیر محمد خان کی زندگی خطرے میں ہے اور حکومت انہیں اسکے قتل کے کیس میں الجھا کر سزا دینا چاہتی ہے تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اس نے 27 جولائی 1967 کو رات کے 9 بجے خفیہ مقام سے فون کیا اس نے انہیں بتایا کہ کسی نے اسے قتل نہیں کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے رو پوش ہے کیونکہ جن پولیس افسران کی نگرانی میں سپیشل پولیس کی گار دیں تیار کی گئی وہ سب اس کے جانی دشمن ہیں وہ پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ کے اسے ٹھکانے لگا دیں گے اس لئے وہ گرفتاری پیش نہیں کر رہا اگر غیر جانبدانہ پولیس مقرر کر دی جائے تو وہ خود بخود گرفتاری پیش کرے گا‘ اس کے بعد سید اکبر شاہ انسپکٹر پولیس کو سپیشل گارد دے کر محمد خان کی گرفتاری پر مامور کر دیا گیا یہ ایک مخلص نیک کردار اور اچھا انسان تھا اس نے اس کی جانب اپنا ایک آدمی بھیجا اور گرفتاری پیش کرنے کیلئے جگہ اور تاریخ کا تعین کر دیا اور کہلوا بھیجا کہ وہ تھا لاوا میں واقع ڈھوک بشیر یکم اگست 1967ء کو دن دس بجے آکر اسے گرفتار کر لے اس کی گرفتاری کیلئے پورے ملک میں پولیس حرکت میں آ چکی تھی صرف وادی سون میں ا یس ایس پی عبداللہ خان اور ڈی آئی جی پولیس کی نگرانی میں تین ہزار سپاہیوں پر مشتمل پولیس گارد تعینات تھی خود آئی جی پولیس قریشی صاحب ہیلی کاپٹر پر وادی سون کے اوپر جکر لگاتے رہے تھے پورے ملک کے عوام کی دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں جو دن طلوع ہوتا لوگ بڑی بے تابی سے اخبار کھولتے اور سب سے پہلے محمد خان کی گرفتاری کی خبر تلاش کرتے‘ گیارہ ماہ کی روپوشی کیدوران پولیس سے اس کی جو آنکھ مچولی ہوتی رہی ہے ان میں سے چند واقعات کا بیان کرنا خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ ستمبر 1966ء سے یکم اگست 1967ء تک گیارہ ماہ تک پولیس کے ساتھ اس کی آنکھ مچولی جاری رہی شیور لٹ کار اس کے پاس تھی وہ اس کی نمبر پلیٹ تبدیل کر لی اور خود بھیس بدل کر پولیس کی نگاہوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا جب وہ اپنے علاقے میں ہوتا تو مونچھیں رکھ لیتا جب لیہ یا کسی اور علاقہ میں جاتا تو مونچھیں صاف کر دیتا عام طور پر شلوار قمیض پہنتا تھا لیکن رو پوشی کے دوران میں پینٹ کورٹ‘ نکٹائی‘ ٹائی اور ہیٹ بھی استعمال کرتا تھا آنکھوں پر مختلف رنگوں کی عینک بھی لگالیتا‘ یعنی کہیں بھی جاتے ہوئے وہ مکمل طور پر اپنا حلیہ بدل لیا کرتا رو پوشی کے دوران 6 ماہ یزمان منڈی میں اس نے ایک اینٹوں کے بھٹے پر پناہ لئے رکھی ایک ماہ ملتان میں ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر لے کر رہا تین ماہ میانوالی میں گزارے یہاں اس نے 30 روپے ماہانہ میں ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کا خاص افراد کو علم تھا‘ اس طرح لیہ میں بھی اپنے قیام کیلئے اس نے ایک جگہ کرایہ پر لے رکھی تھی اور گرفتاری پیش کرنے سے قبل ایک ماہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں گزرا‘ پولیس نے بہاولپور میں چھاپہ مار کر شاہ نواز آف حاصل پور کو گرفتار کر لیا حالانکہ اس سے اسکی کوئی شناسائی نہیں تھی خانیوال سے اسکے چچا بشی اور ملک جان بیگ کو پکڑ لیا‘ اس کی تلاشی کے دوران ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ محمد خان کہاں رو پوش ہے پھر ان میں سے بعض افراد پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور پولیس نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا تاکہ اسکا پتہ چلایا جا سکے‘ تھوہا محرم خان کے ڈیرہ سو افراد کے مکانوں کو پولیس نے صرف اس لئے آگ لگا دی کہ ان سے محمد خان کے تعلقات تھے لیکن وہ اس کے کسی بھی کام میں شریک نہ تھے پولیس ان کو کہتی کہ محمد خان کو لاکر پیش کر دو بھلا وہ اسے کہاں سے لاکر پیش کرتے اس طرح موضع ڈھرنال میں رہنے والے رشتہ داروں اور عزیزوں
کو گرفتار کر کے سخت اذیتیں دی گئیں پولیس نے شک و شبہ میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے لیکن محمد خان کا سراغ نہ پا سکے‘ وہ بعض اوقات ان کے بیچ سے گزر جاتا انہیں بعد میں پتہ چلتا کہ محمد خان دھوکہ دے کر نکل گیا ہے اس بار پولیس کو علم ہوا کہ وہ میانوالی میں ہے اس نے نشاندہی کیے گئے راستوں کی ناکہ بندی کر لی محمدخان نے بھی بھیس بدلا پینٹ کوٹ پہنچا سر پر ہیٹ رکھا مونچھیں پہلے ہی صاف تھیں بڑی بے نیازی سے شیور لٹ کار میں بیٹھا اور پولیس کے پیچھے سے گاڑی نکال کر لیہ کی جانب نکل کھڑا ہوا‘ جب پولیس کو اس کے جانے کا علم ہوا تو وہ پیچھا کرتے ہئے لیہ پہنچ گئی وہاں پہنچ کر محمد خان نے اپنے کپڑے تبدیل کیے کار کی نمبر پلیٹ تبدیل کی اور منڈا چوک پہنچ کر پولیس کے بالکل سامنے کار روک دی نلکے سے وضو کیانمازپڑھی ایک دوکان سے چائے پی اور سیدھا لیہ شہر اپنے کرائے کے مکان میں آگیا یہ مکان اس نے جعلی نام سے لے رکھا تھا‘ پولیس کو شائد شک گزرا کہ محمدخان ان کے پاس سے ہو کر گزر گیا ہے بعد میں انہیں پتہ چلا تو اس کے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے لیکن وہ اب ان کی زد سے بچ چکا تھا‘ اسی طرح ایک رات میں میانوالی دندے کے علاقے میں آیا رات گزارنے کے بعد صبح اسے میانوالی جاناتھا کسی طرح اس کے پروگرام کی اطلاع پولیس کو مل گئی پولیس افسران کیل کانٹے سے لیس ہو کر بھاری نفری کے ساتھ دندا شاہ بلاول تھانہ لاوہ کے لاری اڈا پر پہنچ گئے اور ہر طرف سے ناکہ بندی کر دی جب اسے پتا چلا کہ پولیس نے جانے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں اس نے گھر سے سفید ٹوپی والا برقعہ لیا عورتوں کے سینڈل لے کر پاؤں میں ڈالی شلوار اور کرتا پہلے ہی پہنا ہوا تھا پاؤں میں جرابیں تھی ایک مرد بوڑھی عورت اور پانچ سالہ بچی کو ساتھ لیا اور بس پر سوار ہونے کیلئے نکل کھڑا ہوا مر د کو اس کا خاوند ظاہر کیا گیا جب کہ بوڑھی عورت اس کی ساس بنی اور لڑکی بیٹی۔ واقعہ یہ بنایا کہ مرد اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ اپنے گھر جا رہا ہے ساس اپنی بیٹی کو چھوڑنے کیلئے ساتھ جارہی ہے‘ اس علاقے کی روائت ہے کہ جب کوئی عورت برقہ پہن کر باہر نکلے تو مرداحتراماً منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں چنانچہ محمد خان بیوی کے بھیس میں ٹھمک ٹھمک چلتا پولیس کے بیچ میں سے گزر کر میانوالی کی لاری پر سوار ہو گیا غضب یہ ہوا کہ اسے اور اسکے خاوند کو ڈرائیور کے بالکل پیچھے سیٹ ملی اب یہاں اور دلچسپ المیہ ہوا کہ ڈرائیور کے آگے جو شیشہ لگا ہوا کرتا ہے اس میں سے اس کی آنکھیں دے رہی تھی ڈرائیور سوچا بڑی اونچی لمبی اور خوبصورت عورت گاڑی میں آ بیٹھی ہے گاڑی چلاتے ہوئے بھی وہ بار بار اس کی جانب دیکھ رہا تھا اور اسے دامن محبت میں گرفتار کرنے میں خاطر الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگ گیا یہ نظارہ اسکے عجیب و غریب تاثر رکھتا ہے ڈرائیور اس کے عشق میں اتنا کھو گیا ایک دو دفعہ بس دوسری بس سے ٹکر ہوتے ہوتے بچی‘ اس نے سوچا کہ اگر اسی طرح یہ کرتا رہا تو کہیں بس دے مارے گا سواریوں کو جو نقصان ہو گا وہ اپنی جگہ وہ یقیناًگرفتار ہو جائیگا۔ اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ وہ ڈرائیور کو اسے گھور کر دیکھنے سے منع کرے چنانچہ اس کے ٹوکنے پر ڈرائیور کو چین آ گیا۔ جب ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو اس بات کاعلم ہوا کہ صدر ایوب کے کہنے پر اکبر شاہ کو اس کی گرفتاری پر مامورکر دیا گیا ہے تو انہیں بہت برا لگا انہوں نے اکبر شاہ پر پابندی لگا دی اور اسے نظربند کر دیا‘ اکبر شاہ کے متعمد ساتھیوں کو ڈھوک شیر کا علم تھا یہ پولیس افسران ہزاروں سپاہیوں کو لے کر یکم اگست 1967ء دن گیارہ بجے ڈھوک شیر میں پہنچ گئے اور اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں ڈھوک شیر ایسا علاقہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے نالے‘ کھائیاں اور پہاڑیاں ہیں ایس ایس پی عبداللہ نے آتے ہی اسے گرفتاری کو کہا وہ اس وقت دھوتی اور بنیان پہنے ہوئے تھا وہ جب سے رو پوش تھا اس کے پاس ہینڈ گرینڈ‘ تہہ کی جانیوالی
رائفل‘ ریوالور اور ڈھیر ساری گولیاں تھی جنہیں وہ ایک صندوق میں بند رکھتا تھا‘ ایس ایس پی عبداللہ نے کہ محمد خان ہاتھ کھڑے کر دو اور خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دو پولیس نے چاروں طرف سے تمہیں گھیر لیا ہے اب تم کسی صورت نہیں بچ سکتے‘ اس جواب میں اس وقت بالکل خالی ہاتھ ہوں اکبر شاہ کو بھیجو کہ مجھے گرفتار کر لے یہ سنتے ہی ایس پی عبداللہ نے فائر کھول دیا وہ اس وقت بالکل نہتا تھا پہلی گولی اس کی چھاتی میں لگی اس نے بھاگ کر بیٹھک سے تہہ بند لیا جہاں گولی لگی وہاں باندھا گھنی جھاڑیوں کے درمیان گہری کھائی میں جا چھپا پولیس نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھاتھا حتیٰ کہ شام کے ساڑھے پانچ بج گئے اگر پولیس کو علم ہوتا کہ وہ واقعی ہی خالی ہاتھ ہے تو وہ لازمی طور پر گھیرا تنگ کرتے ہوئے اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتے لیکن پولیس کو خدشہ تھا کہ اس کے پاس ہینڈ گرینیڈ آتشیں اسلحہ اور دوسرا تباہ کن سامان موجود ہے وہ اس لئے آگے نہ بڑھ سکے جب انہوں نے دیکھا کہ وہ کسی طرح اسے گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے

اسکی پھانسی کے تمام انتظامات مکمل تھے جلاد کو بھی بلا لیا گیا مگر۔۔۔ آخری حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں