پیر، 2 نومبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ سوم)





محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی


وادی سون میں تین سال رو پوشی کے اوقات

محمد خان اور اس کا بھائی ہاشم خان وادی سون کے اونچے پہاڑوں اور کھائیوں میں زندگی کے دن گزار رہے تھے پولیس کی بھاری جمعیت ان کی گرفتاری پر مامور تھی لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں لگ سکے کئی مرتبہ پولیس کے دستوں کے ساتھ ان کا آمنا سامنا ہوا لیکن وہ انہیں دھوکہ دے کر کسی پہاڑ کی اوٹ میں چھپ جاتے تھے اور یہ ان کیلئے ممکن نہیں تھا کہ کھائیوں میں انہیں تلاش کر کے مار دیتے یا زندہ گرفتار کرتے‘ اس دوران آس پاس کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جس سے پولیس نے یہ تاثر دیا کہ یہ وارداتیں محمد خان خود کرتا ہے یا اپنے بندوں سے کرواتا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھاوہ رو پوش ضرور تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پیر مکھڈ شریف اور دوسرے بااثر اشخاص پولیس کے ہاتھوں اسے مروا دینا چاہتے تھے اگراسے پولیس کے اس ارادے کا علم نہ ہوتا تو یقیناًعدالت میں حاضر ہو جاتا ہر شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے وہ فوج سے گھر چھٹی آیا تھا تو ملک لال خان نے ڈاکے اور قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا پھر گھیر کر اسے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی بااثر افراد کی وجہ سے مولابخش اور اس کے آدمی مقدمات میں ایک بار بھی کڑی سزا نہیں پا سکے‘ پھر محمد خان کے گھر کا محاصرہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے مسلح افراد نے دھاوا بول دیا مگر مقدمات بھی محمد خان اور اس کے خاندان پر قائم ہوئے مخالف فریق صاف بری ہو گیا یہ واقعات اس کے ذہن میں پتھر پر لکیر کی طرح نقش تھے ان بے انصافیوں نے اسے ایک نیا ذہن نئی سوچ اور الگ تھلگ کردار کا مالک بنا دیاتھا وہ ظالم سفاک قاتل اور لٹیرا نہیں تھا وہ تو اپنی جان بچانے کیلئے پہاڑوں کی وادی میں تنہائی کے مظالم سہ رہا تھا اگرچہ اس کے والد کا سایہ بچپن ہی سے سر سے اٹھ گیا تا ہم گھر میں بھائی فتح شیر ایک بوڑھی ماں اور بہن موجو دتھی اسکا دھیان ہر وقت ان کی جانب رہتا تھا وہ کئی مرتبہ پولیس کا گھیرا توڑ کر گھر آیا اور بہت دیر تک گھر رہ کر پھر رو پوش ہو جاتا پولیس یہ خیال کر رہی تھی کہ اس

نے ڈاکوؤں‘ چوروں اور قاتلوں کا ایک گروہ تیار کر رکھا ہے جو ہینڈ گرنیڈوں‘ آتشیں اسلحہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہے یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ اسکے قریب ہوتے ہوئے پولیس نے گولی نہیں چلائی‘ ایک مرتبہ مغرب کے وقت وہ وادی سون میں وضو کر کے پہاڑوں کے درمیان نماز پڑھنے لگا تو سامنے نگاہ پڑی پولیس کی بھاری نفری اسکا محاصرہ کیے ہوئے تھی اس کے پاس اس وقت ایک رائفل تھی اور ایک لڑکا اس کے ساتھ تھا اس نے پولیس کے خطرے سے محمد خان کو آگاہ کرتے ہوئے کسی محفوظ جگہ نماز ادا کرنے کو کہا اس نے اچٹتی سی نگاہ پر ڈالی اور زور دار قہقہ فضا میں بلند کیا اور اس جگہ مصلہٰ بچھا کر نماز پڑھنے میں مصروف ہو گیا وہ جانتا تھا کہ جس جگہ پولیس موجود ہے وہاں سے وہ اسے نہیں دیکھ سکتی جبکہ نیچے سے وہ پولیس کی حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہاتھا وہ اندازے کے مطابق اسی جگہ آ گئے تھے اگر انہیں اس کی جگہ کا علم ہوتا تو یقیناًوہ گھیرا تنگ کرتے ہوئے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کرتے‘ وادی سون میں محمد خان کے ساتھوں‘ عزیز رشتہ داروں اور بعض پولیس والوں کا تعاون بھی اسے حاصل رہا وہ اسے خطرات سے آگاہ کر دیتے اور حالات سے پوری طرح باخبر رکھا کرتے یہی وجہ تھی کہ وہ پولیس کاروائی سے قبل ہی حفاظتی انتظامات کر لیا کرتا تھا محمد خان کے بارے میں مشہور کر دیا گیا کہ رو پوشی کے دوران ایک خونی لٹیرا بن گیا تھا

اس نے پہاڑوں میں ایک بنک قائم کر رکھا تھا اس کے ہزاروں ساتھی وادی سون میں گھومتے رہتے اور وہ لوگوں کو پکڑ کر قتل کر دیا کرتا تھا اس کے حفیہ اڈے قائم تھے یہ تاثر بالکل غلط ہے‘ وہ فلمی ڈاکوؤں کی طرح پہاڑ میں سردار نہیں بنا بیٹھا تھا‘ اسکے پاس اسلحہ تھا‘ حفاظت خود اختیاری کا پورا سامان تھا اسے لمحہ لمحہ کی خبر رہتی تھی لیکن اس نے ڈاکوؤں کا کوئی گینگ تیار نہیں کیا ہوا تھا بلکہ اس نے اس علاقہ میں امن و امان بحال کرنے کی پوری کوشش کی تھی ہو سکتا ہے بعض اوچھے لوگ اس کا نام استعمال کر کے وارداتیں کرتے ہوئے اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ اس کے علم میں لایا گیا تو اس نے سختی سے اس کا نوٹس لیا‘ اسے تو ہر وقت اپنے بھائی ہاشم خان کی فکر لگی رہتی وہ درد گردہ کا دیرینہ مریض تھا محمد خان پیشاب جاری کرنے والے ٹیکے پاس رکھتا تھا بھائی رن باز کے بچھڑنے کا غم تازہ ہی تھا کہ اس کے چار پانچ ماہ بعد ہی ہاشم کے گردے میں ایک رات شدید تکلیف ہوئی درد اتنا شدید تھا کہ اس کا پیشاب بند ہو گیا محمد خان نے ٹیکہ لگایا لیکن فرق نہ پڑا آخر رات کے گیارہ بجے اس نے اس کے سامنے دم توڑ دیا صبح ہوتے ہی اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بھائی ہاشم خان کی لاش ملک خضر حیات کے ڈیرے پہنچا دیں یہ لاش وہ اس لئے وہاں پہچانا چاہتا تھا کہ معززین کی نگرانی میں اسکے بھائی باعزت طور پر سپرد خاک کیا جاسکے پولیس کو اس کی اطلاع ہو ئی پولیس نے راستے میں ہی ساتھیوں سے اس بھائی کی لاش چھین لی اور لاش پر گولیاں برسا کر پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ لی‘ اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ڈاکو محمد خان کا بھائی ہاشم خان پولیس مقابلہ میں مارا گیا‘ محمدخان کو اس کا بے حد دکھ ہوا وہ تو رو پوش تھا اس وقت کیا کر سکتا تھا پولیس خود اس کی تاک میں تھی‘ اس کے ٹھیک پانچ ماہ بعد اس نے رو پوشی کی زندگی ترک کرتے ہوئے پولیس تھانہ ٹمن میں واقعہ ڈھوک مصائب میں مستقل رہائش اختیار کر لی یہ ٹھیک ہے کہ اس پر قتل کا مقدمہ درج تھا اور پولیس اسے پکڑنے کیلئے چھاپے مار رہی تھی لیکن اب اس کے حالات بدل چکے تھے پولیس اس سے خوف کھانے لگ گئی تھی پولیس کو اسے پکڑنے کی جرات نہیں ہو رہی تھی بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ پولیس کے بعض افراد اس کے ساتھ ساتھ دوستی کرنے کی خواہش کرنے لگے تھے جب محمد خان نے ڈھوک مصائب پر ڈیرہ لگایا تو اس کی دہشت کے سائے وادی سون سے نکل کر تحصیل چکوال‘ تحصیل پنڈی گھیب اور نواحی علاقوں تک پھیل گئے تھے‘ اس نے اس جگہ آتے ہی تمام گھر

والوں کو بھی بلالیا‘ اس کا مخالف فریق چل کر اس کے پاس آگیا‘ اس نے اس سے صلح کر لی اب محمد خان کا وہ دور شروع ہوتا ہے اس کی الگ ریاست قائم کرنے سے تشبیہ دی جاتی ہے‘ محمد خان نے جس طرح قانون و انصاف کا خون ہوتے ہوئے دیکھا انسانیت کی توہین اپنی آنکھوں سے دیکھی اس کے ساتھ جو ظلم و ستم روا کھا گیا اس نے نفسیاتی رد عمل کے طور پر اسے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تحریک دی جسمیں کمزور اور طاقتور برابر ہو سکیں جہاں رشًوت سفارش اور ٹیلی فونوں پر انسانی قسمت کے فیصلے نہ ہوں‘ ظالم کو کڑی سزا ملے اور مظلوم کو اس کا حق دلوایا جائے۔ 

اور پھراس نے اپنی الگ ریاست و عدالتیں قائم کرلی جہاں۔۔حصہ چہارم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں