جمعرات، 5 نومبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا (آخری حصہ)




محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی

تو مجبوراً انسپکٹر شاہ کو بلایا گیا اس نے موقع پر آگے بڑھ کر اسے آواز دی محمد خان اکبر شاہ کو بلایا اور خود کو اس کے حوالے کر دیا اتنے عرصے میں اس کا بہت سا خون ضائع ہو چکا تھا اور وہ بہت کمزوری محسوس کر رہا تھا پولیس اسے ڈیرے پر لے آئی وہاں چار پائی پر لٹا دیا خون آلود چادر اتار کر دوسری باندھی گئی‘ بعدازاں اسے تھانہ ڈھوک میں لایا گیا جو تین سو گز فاصلے پر واقعہ اسی وقت وائرلیس پر صدر ایوب کو محمد خان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی او انہیں اس کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا صدر ایوب نے اس وقت حکم دیا کہ اسے بلاتا خیرملٹری ہسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا جائے چنانچہ رات کے درس کے قریب اسے پنڈی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں اس کے سینے سے گولی نکال لی گئی اور وہ 18دن تک اسی ہسپتال میں پولیس کے کڑے پہرے میں زیر علاج رہا جس کمرے میں اسے علاج کی غرض سے رکھا گیا وہاں چار انسپکٹر‘ ایک ڈی ایس پی چار ایس ایچ او اور مسلح سپاہی دروازوں پر موجودہوتے‘ محمد خان کی گرفتاری پر پورے ملک میں قیامت برپا ہو گئی اور اسے اخبارات میں ڈاکو قاتل اور وادی سون کا بے تاج بادشاہ لکھا جاتا رہا اور اس سے ایسی ایسی باتیں اور بے سرو پا وارداتیں منسوب کی گئی جن کا اسے شائد علم تک نہیں تھا کیونکہ یہ یک طرفہ پراپیگنڈا تھا اور وہ اس کی تردید کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اس لئے لوگوں میں وہی تاثر عام ہو گیا جو اخبارات کے ذریعے پھیل گیا‘ اس کے بعد اسے شاہی قلعہ لاہور منتقل کر دیا گیا اٹھارویں روز جب وہ ہسپتال سے شاہی قلعہ منتقل کرنے لگے تو ہسپتال سے نکلنے سے پہلے اسکے پاؤں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں اسے شاہی قلعہ میں جس کمرہ میں رکھا گیا وہاں سے کوئی 18 گز کے فاصلے پر تفتیشی کمرہ تھا اسے وہاں تک بھی ہتھکڑیوں اور بیڑوں سمیت پیش کیا جاتا اور اے آئی جی کرائم برانچ عبدالوکیل خان کی نگرانی میں باقاعدہ تفتیش شروع ہوئی اسے وہاں چھ ماہ رکھا گیا حکومت یہی کوشش کرتی رہی کہ وہ امیر محمد خان اس کے ہاتھوں ایوب خان کو قتل کروانا چاہتے تھے‘ یہ بات غلط تھی اس بیان کی روشنی میں حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو الجھانا چاہتی تھی انہوں نے اس سے یہ بیان حاصل کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا دفتروں کے دفتر دیکھے گئے کہیں سے بھی محمد خان اور امیر محمد خان کی ملاقات کا ریکارڈ حاصل نہ کیا جاسکا اس نے بھی حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ہر وار اپنی جان پر سہہ لیا لیکن وعدہ معاف گوا بن کر اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا پولیس نے اس کے ڈیرے کا مال و متاع لوٹ لیا گیا گھروں کو آگ لگا دی اس کی پانچ مربعہ اراضی بحق سرکار ضبط کر کے نیلام کر دی گئی شاہی قلعہ میں اسے کڑے پہرے میں رکھاگیا‘ 6 ماہ بعد اسے گوجرانوالہ جیل منتقل کر دیا گیا وہاں اسے پھانسی کی کوٹھڑی میں رکھا گیا حالانکہ

ابھی اسے کسی مقدمہ میں سزا نہیں ہوئی تھی یہاں بھی اتنے سخت حفاظتی انتظامات تھے کہ پھانسی کی کوٹھڑی کے اوپردائیں بائیں اور آمنے سامنے مسلح سپاہی تعینات تھے حتیٰ کہ پھانسی کوٹھڑی کے اندر بھی اس کے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں لگائی جاتیں پاؤں میں بیڑیاں اور ایک موٹا سنگل ہتھکڑی کے ساتھ باند ھ کر پھانسی کوٹھڑی کے لوہے کے دروازے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا کھاناکھانے اور وضو کرنے کیلئے بھی اسکی ہتھکڑیاں نہیں کھولی جاتی تھیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خود آکر صرف ایک ہاتھ کی ہتھکڑی کھولتا اسی حالت میں وضو کر کے نماز پڑھتا اور کھانا کھاتا تھا‘ جیل میں قتل کے 19 اور 5 زخمیوں کے کیس کی سماعت شروع ہوئی اس کیلئے حکومت نے جج مظہرالحق اور سپیشل مجسٹریٹ اعجاز احمد چیمہ پر مشتمل خصوصی پینل تشکیل دیا 8 ماہ تک سماعت جاری رہی بالآخر 12 ستمبر 1968ء کو محمد خان ڈھرنالیہ کو 5 بار سزائے موت اور 149 سال قید مشقت کی سزا سنادی گئی‘ اس نے کم و بیش 12 سال اسی حالت میں پھانسی کوٹھڑی میں گزارے اس مقدمہ میں نہ وکیل کی اجازت تھی اور نہ ہی وہ کسی سے مل سکتا تھا مکمل طور پر اسے قید تنہائی میں رکھا گیا اسے اتنی ذہنی اذیتیں دی گئیں کو کوئی اورہوتا تو پاگل ہو گیا ہوتا‘ اس فیصلے کے خلاف اسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
وہ تختہ دار چوم کر لوٹا
وہ کیمبل پور جیل میں تھا8 جنوری 1976ء کو صبح چار بجے اسے تختہ دار پر لٹکانے کے تمام تراتنظامات مکمل تھے اور بلیک وارنٹ جاری ہو چکے تھے اسے علم تھا کہ صبح اسے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا جائیگا لیکن اس کا دل مطمئن تھا سارا دن ارد گرد کے قید اس کے پاس آتے رہے اور الوداعی سلام لیتے رہے وہ بے خوف و خطر پھانسی سیل میں بیٹھا رہا معمول کے مطابق اس نے روٹی کھائی‘ چائے پی اور ملنے والوں سے گپیں ہانکتارہا حتیٰ کہ رات کو گہری نیند سویا جیل حکام کو مصیبت پڑی ہوئی تھی وہ پھانسی گھر میں خصوصی انتظامات کرنے میں لگے ہوئے تھے اور جیل کے باہر بھی عیر معمولی انتظامات تھے‘ پھانسی دینے والے جلاد کو بھی بلا لیا گیا تھا لیکن یار لوگ گھوڑے بیچ کر سوتے رہے‘ رات کے گیارہ بجے کے بعد پھانسی پانے سے صرف 5 گھنٹے قبل ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم مل گیا اسے جگا کر اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور نماز ادا کرنے کے بعد گہری نیند سویا‘ 6 جنوری 1976ء کو اس کے چھوٹے بھائی فتح شیر نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی کہ جو منظور ہو گئی اور 1978ء میں اس کی سزائے موت معاف ہو گئی تاہم 149 سال قید با مشقت کی سزا بحال رہی‘ جیل میں قابل رشک چال چلن کے باعث ملنے والی معافیاں شامل کر کے مجموعی طور پر 55 سال قید کاٹی اور بغیرمعافیوں کے 14 سال سے اوپر بھگتی جس میں سے 12 سال پھانسی کوٹھڑی میں گزارے‘ پھانسی کی سزا معاف ہونے کے باوجود وہ پھانسی کوٹھڑی میں رہا اس کی وجہ یہاں کا سکون تھا کوئی شور وغل نہیں نہ آمد و رفت تھی وہ نہایت یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہتا لوگوں کی نظروں سے دور گوشہ تنہائی میں راحت محسوس کرتا۔ اپنے دور میں اپنے علاقہ کا بے تاج بادشاہ محمد خان 29 ستمبر 1995ء کو طبعی موت مرا۔ اسے آبائی گاؤں ڈھوک مصائب تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں دفن کیا گیا۔