بدھ، 4 ستمبر، 2019

ڈیل یا ڈھیل کی چل نکلنے والی بات


 برملا ۔۔۔۔۔۔۔ نصرت جاوید
 اپنی صحافتی عمر کا بیشتر حصہ میں نے عملی رپورٹنگ میں صرف کیا ہے۔ خارجہ امور پر نگاہ رکھنے کے علاوہ بنیادی ذمہ داری میری ملکی سیاست کے اُتار چڑھائو اور جوڑ توڑ کو بیان کرنا رہی۔ کئی دہائیوں تک پھیلے اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے حیران ہوں کہ گزشتہ چند دنوں سے نواز شریف کے ساتھ ڈیل یا ڈھیل کی افواہیں ایک بار پھر گردش میں ہیں۔شنید یہ بھی ہے کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ میں سے ’’فارورڈبلاک‘‘ نمودار ہونے ہی والا ہے۔میڈیا میں ان دونوں حوالوں سے برپاشوروغوغا کے باوجود ایک لمحے کو بھی لیکن میرے دل میں یہ خواہش بیدار نہیں ہوئی کہ ان لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے جنہیں میری دانست میں حکومت اور حکومت مخالف حلقوں میں فیصلہ سازی کے عمل تک کماحقہ رسائی میسر ہے۔ ’’ذرائع‘‘ سے تفصیلی بات چیت کے بعد صحافت کے بازار میں پھیلی افواہوں کی تردید یا تصدیق کی راہ نکالی جائے۔ باخبر لوگوں سے ملاقاتوں کی بدولت حاصل ہوئی معلومات کو بعدازاں ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل میں ابھرتے امکانات کو دریافت کرنے کی کوشش ہو۔ اپنے دل ودماغ پر ملکی سیاست کے بارے میں چھائی لاتعلقی کو میں نے اس مایوسی اور اداسی کا شاخسانہ ٹھہرایا جو گزشتہ کئی ماہ سے اپنا مقدر ہوئی نظر آرہی ہے۔عمر کے آخری حصے میں نازل ہوئی کاہلی کو بھی اس لاتعلقی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بعدازاں مگر خیال آیا کہ مبینہ مایوسی اور اداسی کے باوجود ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنا شروع کردیتا ہوں۔بے شک رزق کمانے کے لئے یہ مشقت ضروری ہے۔رپورٹر سے کالم نگار ہوئے صحافی کو مگر بیچنے کے لئے ’’سودا‘‘ بھی درکا ر ہوتا ہے۔ میرے ’’چھابے‘‘ میں وقتاََ فوقتاََ کسی نہ کسی ’’خبر‘‘ کی موجودگی ضروری ہے۔اس کے بغیر قاری یہ کالم پڑھنا چھوڑدیں گے۔یہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو لوگ اسے Likeیا Shareکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔افواہوں کی تصدیق یا تردید کے سفر پر ایک رپورٹر کے لگن کے ساتھ روانگی پر آمادہ ہونے سے قبل مگر ضروری ہے کہ مذکورہ افواہیں کسی نہ کسی صورت آپ کے ذہن کو ’’منطقی‘‘ انداز میں قائل کرتی نظر آئیں۔ اس تناظر میں ٹھنڈے دل سے غور کیا تو یہ اصرار کرنا ضروری سمجھا کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت شہباز شریف صاحب کی قیادت میں گزشتہ کئی مہینوں سے ایک پنجابی لطیفے میں بیان کردہ ’’کونے میں بیٹھ کر دہی کھارہی ہے‘‘۔ اس جماعت میں ’’بولتے جو چندتھے‘‘نیب کی حراست میں ہیں۔رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کے حوالے سے ایک کیس زیر سماعت ہے۔ کسی سیاست دان کے لئے منشیات کا الزام قتل کے الزام سے بھی سنگین تر ہوا کرتا ہے۔احتساب یا دیگر الزامات کے حوالے سے شکنجے میں جکڑے مسلم لیگی رہ نما آفت کی گھڑی میں تقریباََ تنہا دِکھ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں اپوزیشن کی جانب سے ان کا سرسری تذکرہ ہوتا ہے اور پھر رات گئی بات گئی والا معاملہ۔ایک چینی محاورے میں بیان ہوئے تندوتیز ہوا کے سامنے سرجھکا کر ڈنگ ٹپاتی سیاسی جماعت سے ’’فارورڈبلاک‘‘ نکالنے کا میری ناقص رائے میں کوئی منطقی جواز موجود نہیں ہے۔چند ہی ہفتے قبل ایوانِ بالا کے 64اراکین میری اور آپ کی آنکھوں کے سامنے فلورپر کھڑے ہوئے۔ انہوں نے بآواز بلند اعلان کیا کہ انہیں سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پر اعتماد نہیں ہے۔وہ انہیں اس منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں۔مذکورہ اعلان کے چند ہی لمحوں بعد خفیہ رائے شماری شروع ہوئی۔اس کے اختتام پرانکشاف ہوا کہ تنہائی میں بیلٹ پیپرپر مہر لگاتے ہوئے 15اپوزیشن اراکین کا ’’ضمیر‘‘ جاگ گیا۔ صادق سنجرانی اس کی بدولت اپنے عہدے پر قائم ہیں۔اپوزیشن کے تقریباََ ہر رہ نما نے سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اعلان کیا کہ وہ اپنی صفوں میں ’’چھپے غداروں‘‘کی نشان دہی کریں گے۔کئی ہفتے گزرجانے کے باوجود یہ نشان دہی نہیں ہوپائی ہے۔ایوان بالا میں ’’اکثریت‘‘ کی حامل جماعتیں کامل سکون سے بلکہ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرتی نظر آرہی ہیں۔پیرکی سہ پہر میں سینٹ کی گیلری میں موجود تھا۔قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس دیکھنے کے بعد میں The Nationکے لئے پارلیمانی کارروائی کے بارے میں انگریزی کالم بھی لکھتا ہوں۔پیرکی سہ پہر سینٹ کی گیلری اور پریس لائونج میں تین سے زیادہ گھنٹے گزارنے کے باوجود مگر گیلری والا کالم لکھنے کو مائل نہ ہوا۔ حکومتی اور اپوزیشن سینیٹر اس اجلاس میں شیروشکر نظر آئے۔حتیٰ کہ پارلیمانی امور کے نگران وزیر اعظم سواتی نے اس قانون کی مخالفت بھی نہیں کی جو آصف علی زرداری کے وکیل سینیٹر فاروق نائیک نے نیب کے اختیارات میں نرمی لانے کے لئے متعارف کروایا تھا۔ان کا تجویز کردہ قانون متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ اگرچہ مجھے کامل یقین ہے کہ فاروق نائیک کی جانب سے متعارف کردہ قانون کے حتمی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی عمران حکومت اپنے وزیر قانون فروغ نسیم کی ذہانت سے تیار کردہ ایک قانون کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کردے گی۔ مقصد اس قانون کا نیب کے اختیارات میں کمی لانا ہوگا۔ وہ آرڈیننس لاگو ہوگیا تو فاروق نائیک اس کو چند ترامیم کے اضافے کے ساتھ سینٹ سے منظور کروالیں گے۔قومی اسمبلی میں حکومت کو پہلے ہی مناسب اکثریت میسر ہے۔ اس کا بھرپور اظہار بجٹ کی منظوری کے ذریعے ہوچکا ہے۔ انیس سو پچاسی 1985 سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں کے بارے میں مستقل مشاہدے پر مبنی انگریزی کالم لکھتا رہا ہوں۔پیر کی سہر پہر سینٹ میں نظر آئے ماحول پر غور کے بعد ذاتی طورپر مجھے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) سے ’’فارورڈ بلاکس‘‘ برآمد کروانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔خالصتاََ عملی اعتبار سے ’’فارورڈبلاکس‘‘ کی ضرورت میری دانست میں فی الوقت IMFکی تسلی کے لئے محسوس ہورہی ہے۔پاکستان کو 39ماہ تک پھیلے Bailout Packageپر کامل درآمدکو یقینی بنانے کے لئے آئی ایم ایفسٹیٹ بینک کی خودمختاری وغیرہ کے نا م پر چند قوانین کا متعارف کروانا ضروری سمجھ رہی ہے۔ہمیں ’’بیل آئوٹ‘‘دینے والوں کی واضح خواہش ہے کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو ’’صحت یاب‘‘ بنانے کے لئے جونسخہ تیا ر کیا ہے اسے فقط عمران حکومت کو تقویت پہنچاتا نسخہ تصور نہ کیا جائے۔گزشتہ دس برسوں میں حکومتی ’’باریاں‘‘ لینے والی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی کھل کر اسے "Own"کرتی نظر آئیں۔ آئی ایم ایف کے تیار کردہ نسخے نے پاکستان میں پھیلی کسادبازاری کو سنگین تر بنادیا ہے۔بجلی اور گیس کے نرخ اس کی وجہ سے ناقابلِ برداشت حدوں کو چھورہے ہیں۔خلقِ خدا پر نازل ہوئی مصیبتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی IMFکے تیارکردہ نسخے کے خلاف بیان بازی کو مجبور ہیں۔ ریاستی اور حکومتی مجبوریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مگر وہ اپنے تجربات کے باعث اس نسخے کو ’’نامنظور‘‘ کروانے والی کوئی عوامی تحریک چلانے سے گریز کریں گی۔IMFکو سیاسی مجبوریوں کے نام پر اپنائی یہ منافقت قبول نہیں۔اصرار ہورہا ہے کہ اس کا تیارکردہ نسخہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے من وعن قبول کیا جائے۔ماضی میں حکمران رہی دونوں جماعتیں بھی مطلوبہ قانون سازی کے عمل میں بھرپور حصہ لیتی نظر آئیں۔ آئی ایم ایف کی خاطر عمران حکومت کو پارلیمانی معاونت فراہم کرنے کو تیار سیاسی جماعتوں کو مگر اپنی حمایت کا کھل کر اظہار کرنے سے قبل نیب کی حراست میں موجود رہ نما یاد آجاتے ہیں۔اسی باعث ڈیل یا ڈھیل کی بات چل نکلی ہے۔۔بشکریہ نوائے وقت