جمعرات، 29 اگست، 2019

کنڈیاں دی واڑ۔۔۔۔از محمد نعیم یاد


مبصر:عقیل شافی۔لاہور

اَدب کے ہر فیشن کی طرح افسانچہ نگاری بھی مغرب سے ہی اُٹھ کر آئی ہے۔اُردواَدب میں پہلی بار اس کا تجربہ سعادت حسن منٹو نے کیا،اورپھر ان کے بعد جوگندرپال نے ان کے کام کو آگے بڑھا یا۔رفتہ رفتہ افسانچوں کی طرف کئی ادباء نے توجہ دی تو محفلِ اَدب میں یہ چھوٹے چھوٹے قمقمے جگمگاکر قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔افسانچہ تخلیق کرنا افسانے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے،جو بات آپ دس صفحات میں بیان کرتے ہیں اُسے چار پانچ جملوں میں کہہ کر دس صفحات کا تاثر پیداکرنا،آسان نہیں۔پاکستان میں اَفسانچہ نگاری کو اچھی نظر سے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا،اس کے باوجود چند قلمکار ایسے ہیں جو افسانچے تخلیق کررہے ہیں۔ان میں ہی ایک نام محمد نعیم یاد کا بھی ہے جو پچھلے کئی برسوں سے افسانے کے ساتھ ساتھ افسانچوں پہ کام کررہے ہیں۔نعیم یاد کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اُردو زبان کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی افسانچوں کو پیش کیا۔اور کم عمری میں افسانوں اورافسانچوں پہ مبنی اب تک سات کتب لکھ چکے ہیں۔ حال ہی میں پنجابی اَفسانچوں پہ مبنی ان کی کتاب ”کنڈیاں دی واڑ“منظر عام پرآئی۔”کنڈیاں دی واڑ“میں نعیم یاد نے معاشرے کی سچائیوں کو بڑی چابک دستی سے افسانچوں کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔ان کی تحریر میں ایک خاص قسم کی جاذبیت ہے جو پڑھنے والے کوچونکا دیتے ہیں۔زندگی کے نشیب وفراز،حرام وحلال،صحیح وغلط،دغابازی،دوغلہ پن،سیاسی شعبدہ بازیاں،قول وفعل کا تضاد،مفلسی اوربھوک جیسے کئی عوامل ہیں جنھیں نعیم یاد نے افسانچے کے قالب میں اس فن کاری سے ڈھالاہے کہ افسانچہ قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔پنجابی میں صاف ستھری زبان میں یہ افسانچے زبان کی بھول بھلیوں میں نہیں بھٹکاتے بلکہ اس جھٹکے سے ختم ہوجاتے ہیں کہ قاری کے ذہن پر دیر پااثرات قائم کرتے ہیں۔مجموعی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ نعیم یاد کے یہ افسانچے پنجابی اَدب میں ایک لطیف جھونکے کی مانند ہیں جو ہر قاری کے ذہن و دل کو تازگی بخشتے ہیں۔
ناشر:طٰہٰ پبلی کیشنز،اُردوبازار،لاہور
قیمت:300روپے