ہفتہ، 7 ستمبر، 2019

میں اپنے اَفسانوں میں تمہیں پھر مِلوں گا۔۔۔منشایاد

یادرفتگاں
کہتے ہیں یادیں دلوں میں بستی ہیں پر یہ بھی سچ ہے کہ دلوں میں یادیں انہی کی بستی ہیں جو دلوں کے قریب ہوتے ہیں۔کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں اکثر اوقات آنکھیں آنسوؤں سے دھوتی رہتی ہیں، تاکہ کوئی گزرا ہوا لمحہ وقت کے گرد و غبار میں گم نہ ہو جائے۔ایسے ہی اُردواورپنجابی کے نامورافسانہ نگاروادیب منشایادکے ساتھ جُڑی میری کچھ یادیں ہیں جومجھے اپنے حصارمیں لیے رکھتی ہیں۔ اُردواُفق پہ منشا یاد کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔آپ ۵ستمبر۷۳۹۱ء کو موضع ٹھٹھہ نشتربراستہ فاروق آباد،تحصیل و ضلع شیخوپورہ (پنجاب) پاکستان میں پیدا ہوئے۔آپ کے دادا کا نام غلام محمد حکیم تھا۔غلام محمد حکیم پیشے کے لحاظ سے طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔غلام محمد حکیم نے طب اپنے ماموں زاد حکیم مولا داد سے سیکھی۔منشا یاد کے داد ا غلام محمد حکیم سے طب و حکمت منشا یاد کے چچا محمدخلیل کو منتقل ہوگئی۔منشا یاد کے والد کا نام نذیر احمد تھا۔نذیراحمدپہلے زراعت کے شعبے سے وابستہ رہے مگر بعد میں طب کاپیشہ اختیار کیا۔ آپ کی والدہ کا نام بشیرہ بی بی بنت محمد اسمعٰیل تھا۔ بشیرہ بی بی ایک نیک اور پرہیزگار خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ کتابیں پڑھنے کا شوق بھی رکھتی تھیں۔خاص طورپر پنجابی اَدب کا مطالعہ بہت دلچسپی سے کرتی تھیں۔ اپنے اَفسانوی مجموعہ ”شہر فسانہ “ کے حرفِ دوم میں منشاء یاد اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ان کی تعلیم دینی اور مکتبی تھی۔۔ ماں جی اور پھوپھی گھر کا کام کاج کرتے ہوئے اکثر بارہ ماہوں، دو ہڑوں اور سی حرفیوں کے ابیات گنگناتی رہتیں رات کو گھر میں خوب 
 محفل جمتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) منشا یاد کو شعر و اَدب کا ماحول گھر ہی سے ملا۔اگر یہ کہا جائے کہ منشایاد کو اَدب سے دلچسپی ماں جی سے ورثے میں ملی، تو غلط نہ ہوگا۔منشا یاد خود بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔اس حوالے سے اسلم سراج الدین لکھتے ہیں کہ: منشا یاد کے دو ماموں تھے جو اَب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔بڑے غلام محمد،جو ان کی بہن زہرہ کے سسر اور شاعر بھانجے خلیق الرحمن کے دادا تھے،مذہبی سکالر اور شعر و اَدب کا اچھا ذوق رکھنے والے بزرگ تھے۔منشا یادکا خیال ہے کہ ان میں اَدبی ذوق والدہ کے توسط سے ننھیال کی طرف سے آیا۔ (۲) منشا یاد نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں گجیانہ میں حاصل کی۔ پھر منشا یاد کے والد نے ماسٹر رحمت اللہ کے مشورے سے آپ کو ایم بی ہائی سکول نمبر ۱ حافظ آباد میں داخل کروایا۔لیکن یہاں آپ کو دوبارہ پانچویں جماعت میں ہی داخلہ ملا،اور ۵۵۹۱ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان بھی یہاں سے ہی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ۷۵۹۱ء میں جی ایس ای رسول سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ ۴۶۹۱ء میں ادیب فاضل کورس،پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ ۵۶۹۱ء میں بی۔اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد ۷۶۔۵۶۹۱ء میں حشمت علی اسلامیہ کالج راولپنڈی سے اُردو میں ایم۔اے کیا۔پھر ۶۷۔۰۷۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی زبان میں پرائیویٹ طور پر ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۸۵۹۱ء سے ۰۶۹۱ء تک آپ پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ بحالیات اور بعدازاں دارالحکوت کے ادارے (سی ڈی اے، اسلام آباد) میں بحیثیت سب انجینئر/ اسسٹنٹ انجینئر /ایگزیکٹو انجینئر،کے عہدوں پر فائز رہے۔پھر۰۶۹۱ء تا ۷۹۹۱ء میں افسر تعلقات عامہ اور افسر اعلی شکایات کے عہدوں پر اپنے فرائض سر انجام دینے کے بعد یہاں سے ڈپٹی ڈائریکٹرکے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ منشایادنے اَدبی سفرکاآغازنہ صرف کہانیوں سے بلکہ کہانیوں کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی کیا۔اوریہاں پر انھوں نے اپناتخلص یادؔاستعمال کیا۔مگر دوست احباب کے سمجھانے پر شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کیا اور صرف کہانیوں اور نثری تخلیقات کی طرف توجہ دی۔ اس حوالے سے منشا یاد ”شہرِفسانہ“کے حرفِ دوم میں یوں بیان کرتے ہیں: عفوان شباب میں ہر شخص آدھاشاعر تو ضرور ہوتا ہے۔میں بھی تھا۔شروع میں کہانیوں کے علاوہ شاعری بھی کرتا تھا۔ لیکن پھر چھوڑدی۔کیوں؟۔پہلی بات تویہ کہ شاعری کے انسپائریشن کا ہوناضروری ہے۔ادھر یہ چاند جلدہی غروب ہوگیا،اب اماوس میں کیا سجھائی دیتا۔دوسری بات یہ کہ بعض رسالوں میں اس قسم کے اعلانات چھپتے دیکھے کہ مہربانی کرکے ہمیں نظمیں،غزلیں نہ بھجوائی جائیں ان کا ذخیرہ بہت ہوگیاہے۔ہمیں نثری تخلیقات کی ضرورت ہے۔تیسرے یہ کہ شاعرتو پہلے ہی بہت تھے سوچاشاعری چھوڑ دی تو کچھ فرق نہ پڑے گا مگر نثر نہیں چھوڑی جاسکتی تھی۔کیوں کہ کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں 
 جو صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۳) ۵۵۹۱ء میں منشایادکاپہلاافسانہ ”کنول“ کے عنوان سے رسالہ ”شمع“لاہور میں شائع ہوااس کے بعد ان کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آئیں ان کتب کو علمی و ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین دیکھا: بند مٹھی میں جگنو (۵۷۹۱ء)،ٹانواں ٹانواں تارا (پنجابی ناول) ۷۷۹۱ء، ماس اور مٹی ۰۸۹۱ء، خلا اندر خلا۳۸۹۱ء، و قت اور سمندر ۴۸۹۱ء،وَگداپانی(پنجابی (شاہ مکھی اور گور مکھی) ۷۸۹۱ء، درخت آدمی ۰۹۹۱ء، دور کی آواز ۴۹۹۱ء،تماشا ۵۹۹۱ء،شہر فسانہ ۳۰۰۲ء،خواب سرائے ۵۰۰۲ء،انھاں کھوہ (گور مکھی) ۹۰۰۲ء، اک کنکر ٹھہرے پانی میں ۰۱۰۲ء،منشائیے (شگفتہ تحریریں) ۱۱۰۲ء اور راہیں ۳۱۰۲ء۔علاو ہ اَزیں منشا یاد اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب ”یادیں“ بھی تحریر کر رہے تھے۔ مگر بوجہ رحلت وہ اس کو مکمل نہ کر سکے۔ زیرِ نظر اُردو ناول ”راہیں“ بھی ان کی وفات کے بعد شائع ہوا جس کا حرفِ آغاز ان کی بیگم فرحت نسیم نے تحریر کیا۔ منشایادنے اسلام آباد میں پہلی اَدبی تنظیم حلقہ اَربابِ ذوق کی بنیاد رکھی،دسمبر ۲۷۹۱ء میں حلقہ اَربابِ ذوق اسلام آباد کی ایک ادبی حوالے سے انٹرنیٹ پر ایک ویب سائٹ (htt://halqaone2.tripad.com.1)بنائی اوراسے ہر ہفتے کی ادبی کاروائی بمع تصاویرکے ساتھ اَپ ڈیٹ کرتے رہتے۔اس کے ساتھ ہی اسلام آباد میں لکھنے والوں کی انجمن،بزم کتاب،رابطہ اور فکشن فورم جیسی اہم تنظیمں قائم کیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اسلام آباد میں حلقہ اَربابِ ذوق اور دیگر اَدبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے مختلف اخبارات میں کالم نگاری اورادبی رپورٹس لکھتے رہے اسلام آباد کے مختلف نمائندہ اخبارات تعمیر، نوائے وقت، مشرق،جنگ اور ہمدرداسلام آباد کے ادبی صفحات میں آپ نے بھرپور طبع آزمائی کی۔ منشایادنے اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کے مسائل کو چھوا،محسوس کیا،خود پر طاری کیا اور اسے کہانی کی شکل میں ہمارے سامنے لائے۔آپ نے اپنے دیہات کی سونی مٹی سے اپنی محبت کا اظہار اَفسانوں کی صورت میں کیا۔ منشا یاد کو اپنے عہد کے اَفسانہ نگاروں میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے دیہات کی عکاسی میں فکر کے ساتھ فن کے تجربے بھی کیے ہیں۔چونکہ وہ خود دیہات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سادہ دل دیہاتیوں کے غم اور خوشی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے اَفسانوں میں سادہ لوح دیہاتی اور ان کی بے لوث زندگی، خلوص، مہمان نوازی، رسم و رواج، غم، خوشیاں، دوستیاں، دشمنیاں، خود داری کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ انھوں نے دیہاتی زندگی کی تصویر کشی اس انداز میں کی ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا اور قاری کے سامنے دیہاتی زندگی اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ گھومنے لگتی ہے۔آپ نے دیگر جدید اَفسانہ نگاروں کے برعکس گھمبیر اور گہری علامتوں کے بجائے ہلکی پھلکی علامتوں اور استعاروں کا استعمال کیا۔ منشا یاد جہاں روایت سے جڑے ہوئے ہیں وہیں وہ روایت میں نیا پن پیدا کرتے ہیں۔ ان کے اَفسانے جہاں کلاسیکی طرز لیے ہوئے ہیں وہیں جدت کی ہم آہنگی کلاسیکی انداز کو ایک نئے معنی عطا کر رہی ہے۔ منشایاد اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔تمام ملنے والوں سے اخلاق اور اخلاص سے بھر پور بر تاؤکرنا ان کا شیوہ تھا جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا وہ ان کی وضع داری اور حسن سلوک کا شیدائی ہو جاتا تھا۔۰۱مئی ۰۱۰۲ء کو راقم کی منشایادسے پہلی ملاقات ہوئی۔انٹرنیٹ پہ جناب منشایادکاٹیلی فون نمبر ڈھونڈااوردھڑکتے دِل کے ساتھ ان سے بات کی۔دل میں بارباریہی خیال آرہاتھاکہ اتنے بڑے آدمی مجھ ناچیز سے نہ جانے کیسے بات کرتے ہیں،میں نے فون پہ ملاقات کی درخواست کی توکہنے لگے ”جب بھی اسلام آبادآناہوتو مجھے بتادیناملاقات ضرورکریں گے۔“آپ کے محبت بھرے لہجے نے ملاقات کے اشتیاق کومزید بڑھادیا،اس لیے پہلی فرصت میں خوشاب کی مشہورسوغات ڈھوڈالے کر آپ کی خدمت میں جاپہنچا۔ٹیکسی پہ جب میں آپ کے گھر پہنچاتو آپ باہر کھڑے میراانتظارکررہے تھے۔گیٹ کے باہر نیم پلیٹ پہ ”افسانہ منزل“لکھادیکھ کر آپ کی افسانے سے محبت نظرآرہی تھی۔اندربیٹھے تو رسمی ساتعارف کرواتے ہوئے میں نے کہا”سرمیں خوشاب سے احمدندیم قاسمی اورواصف علی واصف کی سرزمین سے،یہ آپ کے لیے خوشاب کا ڈھوڈالایاہوں“چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری پھر خلامیں جھانکتے ہوئے بولے ”ہاں وہ مجھے تم سے اُن کی خوشبو آرہی تھی۔“ چائے کے ساتھ گپ شپ رہی۔میری زیادہ تر گفتگو کا موضوع ان کا مشہورڈراما”راہیں“تھا۔اُن دنوں وہ پنجابی ناول”ٹانواں ٹانواں تارا“کو اُردومیں ڈھال رہے تھے۔ان کی اسسٹنٹ کمپیوٹرپہ کمپوزکررہی تھی مگر میں نے منشایادکے اندرکمپیوٹرپہ کام کے حوالے سے زیادہ دلچسپی دیکھی جب میں نے انھیں بتایاکہ میں اپنے علاقے میں کمپیوٹر ٹرینر رہ چکا ہوں تو وہ مجھ سے کمپیوٹر کے حوالے سے کئی باتیں پوچھنے لگے ان کا شوق اوردلچسپی مجھے ان کی شخصیت سے مزید متاثر کررہی تھی۔اس ملاقات میں منشایادنے مجھے اپنامجموعہ ”شہرِفسانہ“اپنے دستخط کرکے دیاتوخوشی کی انتہانہ رہی۔واپسی کے سفر میں سارے رستے میں اپنی قسمت کو داددیتا رہا۔اس کے بعد جب بھی اسلام آبادکاچکرلگتا میری کوشش ہوتی ان سے ملاقات ضرور کروں۔اگر وہ مصروف ہوتے تو فون پہ بتادیتے۔ایک دن ان کونیشنل بُک فاؤنڈیشن جاناتھااورمیں اس دن اسلام آبادتھا۔میں نے ملنے کی درخواست کی توانھوں نے بتایاکہ وہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن سے فارغ ہوکرمطلع کردیں گے۔مجھے کسی کام کی وجہ سے واپس جلدآناپڑاجب میں ابھی راستے میں ہی تھاتوانھوں نے اپنے موبائل سے مجھے کال کی کہ میں اب فارغ تھاتو آپ ملنے آسکتے ہیں۔میں نے معذرت کی تو بڑے پیارسے کہنے لگے چلوکوئی بات نہیں پھر کبھی سہی۔ محبت بھرے اس تعلق کو ابھی کچھ ہی عرصہ گزراتھاکہ۵۱۔اکتوبر۱۱۰۲ء کوایک دوست کی کال آئی کہ ٹی وی پہ خبر آئی ہے کہ منشایاداسلام آبادمیں انتقال کرگئے ہیں۔یہ خبر سن کر شدید صدمے سے دوچارہوا۔بارباران کا محبت بھراچہرہ سامنے آجاتا۔دل اُن کے جانے کو تسلیم ہی نہ کرتا۔اُن کی ذات میرے لیے سایہ پدری کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے آج تک کبھی خود کو اُن کی ذات سے الگ نہیں کرپایا۔ ممتازمفتی نے الکھ نگری میں قدرت اللہ شہاب کی وفات پہ لکھاتھاکہ مرنے کے بعدبھی شہاب نے مجھے اکیلا نہیں ہونے دیا۔اُلٹاوفات کے بعدوہ میرے اندر رَچ بس گیا ہے۔ میرے اورقریب آگیا ہے کہ قدرت اللہ زندگی میں مجھ سے ملا،یہ میرے اللہ کی مجھ پر سب سے بڑی کرم نوازی ہے کہ وفات کے بعد بھی اس نے میراساتھ نہیں چھوڑا۔“ میں سمجھتا ہوں کہ ممتازمفتی کے لیے جو شہاب تھے وہ میرے لیے منشایادتھے۔۱۱۰۲ء سے لے کر آج تک کبھی یہ نہیں ہواکہ کبھی وہ مجھ سے جداہوئے ہوں۔یہی وجہ ہے کہ ۵ستمبر کو جب افسانہ منزل اسلام آباد،راولپنڈی،لاہور اور دیگربڑے شہروں کی اَدبی تنظیموں کے تحت منشایادکایومِ پیدائش منایاجارہاہوتا ہے وہیں ضلع خوشاب کے چھوٹے سے شہر جوہر آبادمیں بھی اُن کی سالگرہ کا کیک کاٹاجارہاہوتاہے۔ یہ سب کی اُن کی عطا کی گئی محبت کا اثر تھاکہ ۰۱ مئی ۰۱۰۲ء کو افسانہ منزل پہ جانے والا حافظ محمدنعیم عباس تھا مگر وہاں سے واپس آنے والا نعیم یادؔتھا۔صاحبومیں کتنا خوش نصیب انسان ہوں۔
 حوالہ جات: (۱) منشا یاد، شہر فسانہ، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۳۰۰۲ء، ص ۱۱ (۲) اسلم سراج الدین، منشا یاد،شخصیت اور فن، اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد، ۰۱۰۲ ء، ص۸۲ (۳) اسلم سراج الدین،منشا یاد،شخصیت اور فن، ص ۵۱