ہفتہ، 31 اگست، 2019

سفاک مودی کو سبق سکھانے کے لیے فوج کے ساتھ ہیں

  خوشاب نیوز ڈاٹ کام)پاکستان مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے ضلعی صدر چوہدری شجاع الرحمن ٹیپو نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرکے اس جنت نظیر علاقہ پرجبری قبضے کی کوشش کرتے ہوئے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے والے سفاک مودی کو۔سبق سکھانے کیلئے پوری قوم پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔چوہدری شجاع الرحمن ٹیپو نے مزید کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے پاکستان کے غیور عوام کسی بھی قیمت پر کشمیر کو خود سےجدا نہیں یونے دیں گے۔انہوں نےکہا کہ ہم بھارت کی جانب سے کشمیر میں ہونیوالے مظالم کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور عالمی امن کے دعویداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس قتل و غارت اور خونریزی رکوانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

ٹیکنیکل ماڈل ہائی سکول میں کشمیر پر سیمینار

  خوشاب نیوز ڈاٹ کام)محکمہ تعلیم ضلع خوشاب کے زیر اہتمام کشمیری مسلمانوں اور افواجِ پاکستان کیساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے گورنمنٹ ٹیکنیکل ماڈل ہائی سکول جوہرآباد میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کی صدارت چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن اتھارٹی میاں محمد اسماعیل نے کی جبکہ پنجاب اسمبلی کی رُکن ساجدہ بیگم مہمانِ خصوصی تھیں۔ سیمینار میں ٹیکنیکل ماڈل ہائی سکول کے پرنسپل رانا عبدالروف و محکمہ تعلیم کے افسران و ملازمین کے علاوہ سکول کے تدریسی سٹاف اور طلباء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی رُکن محترمہ ساجدہ بیگم نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت خطے کے اہم ترین ایشو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے اور اس ضمن میں سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ بھارت کو کسی بھی صورت میں 
کشمیر پر تسلط برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اُنھوں نے کہا کہ پاکستان پر امن ملک ہونے کے باوجود ہر قسم کی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارتی مظالم کو کشمیر کی مقبوضہ وادی میں بے گناہ مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر پر صرف اپنی سیاسی دوکانداریاں چمکائیں اور اسے حل کرنے کیلئے کوئی عملی کردار ادا نہیں کیا۔ کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی بحالی اور اس اہم مسئلہ کو اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں حکومت پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سی ای او ایجوکیشن اتھارٹی میاں اسماعیل نے کہا کہ آج کوئی پاکستانی قوم کشمیر ایشو کے حوالے سے ایک پیج پر ہے اور کسی بھی صورت میں کشمیری مسلمانوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گی۔ سیمینار کے اختتام پر کشمیر کی آزادی کیلئے خصوصی دُعا کرائی گئی اور افواجِ پاکستان کے کردار کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔

آج بھی بھٹو زندہ ہے

Image result for rasool bakhsh raees

  رسول بخش رئیس
  یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، ایک تاریخی حقیقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین جو بھی کہیں، وہ امر ہو چکے۔ وہ صحافی، دانشور اور ہزاروں کی تعداد میں سیاست دان اور سیاسی خاندان جو اُس پرآشوب زمانے میں جنرل ضیاالحق کے نعرہ باز اور قلم بردار سپاہی بنے تھے، چار دہائیاں گزرنے کے بعد شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے، ظالم مٹ جاتے ہیں، لیکن مظلوموں کی یاد اور ان کے دکھ سب میں نہیں تو بھی کچھ دلوں میں ضرور زندہ رہتے ہیں۔ سندھ جائیں‘ عام لوگوں سے ملیں اور بھٹو کے بارے میں بات تو کریں۔ فرصت ہوتو گڑھی خدابخش کا سفر کریں؛ بھٹو کا مزار ایک زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سندھ کے مختلف علاقوں کے علاوہ بلوچستان، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ حاضری دیتے ہیں۔ مجھے بھی وہاں جانے کا شرف حاصل ہے۔ اسے میں اپنے لیے سعادت اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ کئی روز سے بھٹو صاحب کا خیال دل میں ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگا رہا تھا۔ یہ کیفیت اُس وقت پیدا ہوئی جب ضیاالحق کی برسی کے موقع پر کئی ایک ہم عصر مبصرین کے مضامین نظر سے گزرے۔ مردِ مومن کے لازوال کارناموں، قومی خدمات اور آہنی قوتِ فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے کئی ایک نے بھٹو صاحب کو اپنے روایتی انداز میں لتاڑا۔ اس ضمن میں خاموشی بزدلی اور مصلحت کوشی ہوگی۔ سو چند باتیں، اور چند یادیں آپ کی نذر کہ تاریخ مسخ نہ ہو اور نئی نسل کے لیے ظالم اور مظلوم کی پہچان آسان ہو۔ ویسے تو بھٹو صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا، لیکن صرف دو مستند کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک پروفیسر سٹینلے والپرٹ اور دوسری انوار حسین سید کی۔ سید صاحب بہت اعلیٰ پائے کے محقق، استاد اور مصنف ہیں۔ اُنھوں نے امریکی جامعات میں زندگی گزاری ہے۔ کئی بار اُن کی بھٹو سے ملاقات ہوئی، اُن کے انٹرویو کیے، پاکستانی تاریخ، ادب اور سیاست پر اُن کی بہت گہری نگاہ ہے۔ وہ بھٹو صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک کثیرالجہت انسان تھے۔ یعنی اُن کی شخصیت کے کئی پہلو تھے‘ کمال کی ذہانت، وسیع مطالعہ، عمیق فہم و ادراک اور علم و دانش سے بے پناہ شغف۔ وہ کوئی معمولی تعلیم یافتہ انسان نہیں تھے۔ وہ آکسفورڈ، کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے سے فارغ التحصیل تھے۔ اُس زمانے میں بہت کم سیاسی خاندانوں کے بچے یہ معراج حاصل کرسکتے تھے۔ قانون، سیاسیات اور فلسفے کے علاوہ فنِ تقریر اورعوامی جذبات کو سمجھنے میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کئی دہائیاں گزر چکیں، سیاست کے میدان میں بھٹوصاحب کے پائے کا کوئی عالم فاضل اور قابل سیاست دان دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی تعلیم اور تربیت بھی بھٹو صاحب نے اپنے خوابوں کی روشنی میں کی۔ زندگی نے مہلت نہ دی کہ وہ بے نظیرکی مزید رہنمائی کرتے، اور اپنے سیاسی سائے میں اُنہیں پھلتا پھولتا دیکھتے۔ بے نظیر بھی اپنے بہادر باپ کی طرح بہادر نکلیں۔ آمر کو للکارا اور آخرکار وہ بھی شہادت کا درجہ پاگئیں۔ طالب علمی کے زمانے کی بات ہے۔ جب کالج کی زندگی میں ہم دو، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، کچھ وقت میں نے بھٹو مخالف طلبہ تنظیم میں گزارا۔ دیہاتی پسِ منظر، دانشور ی کا شوق، سیاست سے لگائو، اور ملک سے محبت اور اس کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ، اور سب سے بڑھ کر اس کے نظریاتی سدھار کا عزم۔ دوست بھی کمال کے تھے۔ مسیح اﷲ جامپوری اور عاشق بزدار، جن سے بحثوں کا میدان رات کو سجتا تھا۔ جامپوری صاحب صحافت سے وابستہ ہیں، اور اسی میں ساری زندگی کھپا دی۔ بزدار صاحب سرائیکی زبان کے مشہور شاعر، ادیب ہیں اور سرائیکی ثقافت کی آبیاری کرتے ہیں۔ میں اُس زمانے میں بی اے کا طالب علم تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں ایک سال سے زیادہ عرصہ بھٹو صاحب کی وکالت کی۔ اُن کے انتخابات کیلئے ہم نے والہانہ انداز میں مہم چلائی۔ چند سال بعد ملازمت شروع کی تو عملی سیاست کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ بھٹو صاحب کا دور بہت قریب سے دیکھا، لیکن اس وقت موضوع بھٹو دور نہیں، اُن کی ذات ہے۔ پروفیسر رفیق افضل بہت بڑے تاریخ دان ہیں، مگر درویش منش مزاج پایا اور خاموشی سے زندگی بسر کی۔ سیاسی تاریخ پر اُن کے حوالے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ وہ بہت مظلوم انسان تھے۔ جب اُن کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اُن کی پارٹی کے لوگ غائب ہوگئے۔ جس جرأت و بہادری کی مثال بھٹو خود تھے، اُن کے نام نہاد حامیوں میں اُس کا عشر عشیر بھی دکھائی نہ دیا۔ کچھ بدل گئے، کچھ کھسک گئے، بہت کم تھے جو ثابت قدم رہے۔ آخر میں بھٹو تنہا تھے۔ بیگم نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور اُن کے وکیل یحییٰ بختیار ہی دکھائی دیتے تھے‘ باقی سب فصلی بٹیرے ثابت ہوئے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سیاسیات پر پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا۔ ساری دنیا میں اس فیصلے پر تنقید ہورہی تھی۔ جنرل صاحب نے کچھ دانشور سپاہیوں کا انتخاب کیا اور اُنہیں امریکی جامعات اور دیگر فورمز پر سرکاری خرچے پر روانہ کیا تاکہ دنیا کو قائل کیا جا سکے کہ یہ ایک منصفانہ فیصلہ تھا۔ ہمارے نزدیک بھٹو مظلوم تھے کیونکہ فیصلے پر ریاست کی خواہش اور مداخلت غالب تھی۔ امریکہ میں میرے ہم جماعتوں اور اساتذہ نے بھٹو کی سزا منسوخ کرانے کیلئے ایک پٹیشن تیار کرکے جنرل ضیاالحق کو ارسال کی۔ یہ سند میرے پاس محفوظ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ساری دنیا میں اساتذہ، طلبہ، صحافی اور دانشور بھٹو کی جان بچانے کیلئے متحرک تھے، لیکن پاکستان کے اندر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ارد گرد نظر دوڑائیں، آج کے سیاست دانوں کو دیکھیں کہ ان میں سے کتنے ہی ضیاالحق کے شریکِ اقتدار رہے۔ کچھ نے اگر موقف تبدیل کیا تو بھٹو کو پھانسی ملنے کے بعد۔ نہ جانے بھٹو پر کس قسم کے لغو لیبل لگائے جاتے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے المیے نے ساری قوم کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ہوا کیسے؟ کاش اُس وقت ذرائع ابلاغ پر آمریت کے پہرے نہ ہوتے۔ بھٹو نے بہت کم وقت میں نئے پاکستان کی تعمیر کی۔ پانچ سال کے عرصے میں جو کام بھٹو نے کیا وہ کوئی اور سیاسی اور فوجی قیادت کئی دہائیوں تک نہ کر سکی۔ لکھنے سے پہلے کچھ تحقیق کرلی جائے تو بہتر ہے۔ شاید ذہن سے تعصب کی کچھ گر د صاف ہوجائے۔ کچھ اداروں کی تشکیل کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی اُنھوں نے قومی شناختی کارڈ کی سکیم کا اعلان کیا۔ میں اُس وقت جامعہ پنجاب میں زیرِ تعلیم تھا۔ ہماری ترقی پسند تنظیم نے ہر جگہ، دیواروں پر نعرے لکھوائے کہ شناختی کارڈز ملک میں فسطائیت پیدا کرنے کے لیے جاری کیے جا رہے ہیں۔ آج اس کی افادیت پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جامعات سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے رضاکار تنظیم بنائی جس کا اعادہ پنجاب حکومت انٹرن شپ پروگرام کی صورت کررہی ہے۔ میں نے خود اپنی پہلی نوکری کا آغاز بطور محقق رضاکار دوسو پچاس روپے ماہوار پر کیا تھا۔ رزلٹ کے دوسرے ہی دن روزگار کا بندوبست ہوگیا۔ اسلام آباد میں لوک ورثہ ہماری قومی ثقافت کی حفاظت، ترویج اور اس کی نمائش کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ بھٹو صاحب نے ہی قائم کیا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ صرف دو سال کے عرصے میں اس ادارے کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد، انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز، قائدِ اعظم یونیورسٹی، اور پانچ ایریا سٹڈی سنٹر پانچ مختلف قومی جامعات میں قائم کیے۔ تاریخ کی تحقیق کے لیے اُنھوں نے نیشنل کمیشن فار ہسٹریکل ریسرچ، قائد اعظم یونیورسٹی میں قائم کیا۔ میں نے اپنی علمی اور تحقیقی زندگی کا آغاز دوماہ جامعہ پنجاب میں رضاکار محقق رہنے کے بعد ہسٹری کمیشن سے کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اس وقت کے مشہور مورخ خورشید کمال عزیز کو سوڈان سے ترغیب دے کر بلایا، اور اس ادارے کی سربراہی سونپی تھی۔ بعد وہ بھی جنرل ضیاالحق کے غیظ وغصب کا شکار ہوئے، اور اپنے خلاف انکوائریاں بھگتتے رہے۔ بھٹو صاحب کی علمی کاوش کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے تباہ کردیا۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھٹو صاحب کو ہمیشہ تعصب کی نظر سے دیکھا۔ اُن میں سے زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا، یا جن کا تعلق اُن مذہبی سیاسی جماعتوں سے تھا جو بھٹو کو پاکستان کا نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ قوم کو متفقہ آئین دینا تھا۔ وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ پائیدار سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ اکثریت پارلیمانی نظام کے حق میں تھی۔ بھٹو صاحب کی خارجہ امور اور قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بصیرت غیر معمولی تھی۔ ''موہوم آزادی‘‘ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے چھ سال پہلے لکھی تھی۔ اس میں طاقت اور خوف کے توازن کے حوالے سے ایک باب ہے، جس میں اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ بھارت کا مقابلہ پاکستان صرف جوہری ہتھیار بنا کرہی کرسکتا ہے۔ یہ بات تاریخ کا مطالعہ اور عالمی واقعات پر گرفت رکھنے والا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ عوام کے اجتماع، یا اقوامِ متحدہ میں بات کرتے تو اُن کا انداز منفرد اور عالمی معیار کا ہوتا۔ بھٹو صاحب ایک خاص وقت میں ابھرے، اور قومی زندگی پر ایسا نشان چھوڑ گئے کہ کوئی مٹانا چاہے تو ناکامی اُس کا مقدر ٹھہرے گی۔ سیاسی مخالفین، اور جنرل ضیا نے اُنہیں مہلت نہ دی ورنہ پاکستان میں اصلاحات کا عمل ہوتا، ادارے بنتے اور فعال ہوتے، اور یقینا ہم ایک نارمل اور جدید ریاست بن کر آج دنیا میں باعزت مقام پر ہوتے۔ ناانصافی کا شکار ہونے والے بھٹو صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ بھٹو صاحب کی علمی کاوش کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والی حکومتوں نے ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے تباہ کردیا۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے بھٹو صاحب کو ہمیشہ تعصب کی نظر سے دیکھا۔ اُن میں سے زیادہ تر وہی ہیں جنہوں نے ضیاالحق کا ساتھ دیا تھا، یا جن کا تعلق اُن مذہبی سیاسی جماعتوں سے تھا جو بھٹو کو پاکستان کا نظریاتی دشمن سمجھتی ہیں۔ بھٹو صاحب کا ایک اور کارنامہ قوم کو متفقہ آئین دینا تھا۔ وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے، مگر وہ جانتے تھے کہ پائیدار سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے کہ سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ اکثریت پارلیمانی نظام کے حق میں تھی۔ بھٹو صاحب کی خارجہ امور اور قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بصیرت غیر معمولی تھی۔ ''موہوم آزادی‘‘ اُنھوں نے اقتدار میں آنے سے چھ سال پہلے لکھی تھی۔ اس میں طاقت اور خوف کے توازن کے حوالے سے ایک باب ہے، جس میں اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ بھارت کا مقابلہ پاکستان صرف جوہری ہتھیار بنا کرہی کرسکتا ہے۔ یہ بات تاریخ کا مطالعہ اور عالمی واقعات پر گرفت رکھنے والا کوئی شخص ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ عوام کے اجتماع، یا اقوامِ متحدہ میں بات کرتے تو اُن کا انداز منفرد اور عالمی معیار کا ہوتا۔ بھٹو صاحب ایک خاص وقت میں ابھرے، اور قومی زندگی پر ایسا نشان چھوڑ گئے کہ کوئی مٹانا چاہے تو ناکامی اُس کا مقدر ٹھہرے گی۔ سیاسی مخالفین، اور جنرل ضیا نے اُنہیں مہلت نہ دی ورنہ پاکستان میں اصلاحات کا عمل ہوتا، ادارے بنتے اور فعال ہوتے، اور یقینا ہم ایک نارمل اور جدید ریاست بن کر آج دنیا میں باعزت مقام پر ہوتے۔ ناانصافی کا شکار ہونے والے بھٹو صاحب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

جمعہ، 30 اگست، 2019

گرلز ہائی سکول نورپور تھل میں یکجہتی کشمیر کی پروقار تقریب

  خوشاب نیوز ڈاٹ کام) گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نورپورتھل کی طالبات نے بھی کشمیریوں کے ساتھ بھرپور طریقے سے اظہار یکجہتی کیا۔ اس سلسلہ میں پرنسپل محترمہ فرزانہ حبیب کی زیرصدارت ایک تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ جس میں معلمات اور طالبات نے بھرپورشرکت کی۔ اس موقع پر تقاریر، ملی نغمے اور ٹیبلو پیش کرکے کشمیریوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیاگیا جبکہ مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ظلم وبربریت کی پرزور مذمت کرتے ہوۓ مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راۓ کا حق دیا جاۓ اور نہتے کشمیریوں پر مظالم کاسلسلہ بند کیاجاۓ۔ اس موقع پر طالبات نے انسانی ہاتھوں کی زنجیربنا کر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

کمزور احتجاج کرتا ہے ،، طاقتور بدلہ لیتا ہے

Image may contain: Malik Rauf Awan, text
)کمزور احتجاج کرتا ہے،، طاقتور بدلہ لیتا ہے،، کبھی گاؤں کے چودھری کو احتجاج کرتے دیکھا؟؟؟ احتجاج کمی کرے گا ہمیشہ،،، کبھی اسرایئل نے احتجاج کیا،، آپ ہولو کاسٹ پر بیان دیں، اسرائیل احتجاج نہیں کرے گا لیکن آپ کے ملک میں آپ کی لاش ملے گی،، اسے کہتے ہیں طاقت،، 
نبی کریمؐ نے کبھی احتجاج کیا؟؟؟ نہیں،،کعب بن اشرف آپؐ کی ہتک کرتا تھا، ابھی مکہ فتح نہیں ہوا تھا،، مسلمان کمزور تھے، لیکن احتجاج نہیں کیا،، صحابہ ؓ سے پوچھا تم میں سے کون کعب کو اس کے گھر یعنی علاقہ میں قتل کر کے آۓ گا،، ایک صحابی گۓ اور اس گستاخ کو اس کے اپنے علاقے میں جہنم واصل کیا، یہ ہے سنت محمدؐ

اور یہی ہے کافر کا علاج،،


یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ان مغربی اقوام کی تعریفیں کرتا ہے کہ یہ بڑی دیانتدار، ایماندار، وقت کی پابند، وعدے کی پابند، معاملات میں کھرے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو میرا خون کھول جاتا ہے کیونکہ بچپن سے اب تک ان " مہذب " اقوام کو ہم نے بڑے بڑے جرائم میں ہی ملوث پایا ہے۔ یہ انکی ظاہری دیانت داری تجارتی Commercial ذہن کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ یہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ Honesty is the best policy.
یعنی ایمانداری سے کام اس لئے کریں کہ اس میں مادی فوائد ہیں۔ یعنی ایماندار اس لئے نہیں بنیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور یہ کہ ہمیں آخرت میں جواب دہی کرنی ہے۔
اس کے علاؤہ آپ نے چند ممالک کی مثال دی ہے۔ اسرائیل کے خلاف کتنی قرار دیں سلامتی کونسل نے پاس کی ہیں لیکن کسی ایک پر بھی اس نے عمل نہیں کیا اور اسرائیل نے دنیا کو مسیج دیا کہ ہم صرف ایک ہی اصول جانتے ہیں کہ
Might is right
جس کی لاٹھی اسکی بھینس۔

ہمیں یاد ھے_ذراذرا

یہی سیکیورٹی کونسل تھی اور یہی تم پانچوں وڈے چودھری(۔امریکا۔فرانس۔برطانیہ۔چائنہ۔روس)
کیس لیکر آنے والا امریکا تھا اور جس پر کیس تھا وہ صدام حسین تھا۔ کون تھا۔۔؟؟ صدام حسین۔ یاد ہے نہ۔ 
جھوٹی دلیلوں، فیک ڈاکیومینٹس، غلط ثبوتوں پر بنا ہوا ماس ڈسٹرکشن ویپنس کا تاریخ کا کمزور ترین کیس۔ مگر تم نے حملہ کرنے کے لیئے ریزولیشن پاس کردی تھی۔ اور تم پانچوں امریکا کی سربراہی میں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر چڑھ دوڑے تھے۔
انبیاء کرام کی اس سرزمین پر انسانی خون کی ندیاں بہادی گئیں۔ بچوں اور عورتوں کی چیخیں آسمان ہلانے لگیں۔ عراق کو نسلی اور مسلکی بنیادوں پر ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔زمیں کا چپا چپا چھانا گیا مگر ماس ڈسٹرکشن ویپنس کا کہیں نام نشان بھی نہ تھا۔ 
پھر تمہارے ہی اک چوہدری برطانیہ کے وزیراعظم نے ٹی وی پر آکر قبول کیا کے ہم پروپیگینڈہ میں آگئے تھے اور غلط کردیا۔۔۔۔۔آہ

یہی سیکیورٹی کونسل تھی،
پھر کیس لیکر آنے والا امریکا تھا اور جن پر کیس تھا وہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن تھے۔ 
وہ ہی جھوٹی گواہیاں، وہی جھوٹے ثبوت کے اسامہ نے ٹون۔ٹاورس پر حملہ کیا ہے اور ملا عمر اس کو امریکا کے حوالے نہیں کررہا۔
تم نے پھر حملہ کرنے کی ریزولیشن پاس کردی۔ اک بار پھر امریکا دنیا کی بیالیس ملکوں کی جدید فوج جو پوری دنیا کی آرمی کا ساٹھ فیصد ہے کو لیکر غریب افغانیوں پر چڑھ دوڑا۔ اور پھر جو کچھ ہوا وہ بھی اک تاریخ ہے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کے ٹون۔ٹاورس حملہ تم نے خود کروایا تھا۔

اور پھر یہی سیکیورٹی کونسل تھی
کیس مشرقی تیمور اور دوسرا پھر جنوبی سوڈان کا تھا۔ تم نے دنوں کے اندر رائیٹ آف سیلف ڈٹرمینشن کے تحت رائے شماری کرواکر، دونوں مسلم ریاستوں کے ٹکڑے کرکے اپنی عیسائی ریاستیں قائم کروا دی۔

اور پھر کل
یہی کونسل اور وہی تم پانچ، کیس لیکر آنے والا پاکستان تھا اور مجرم نریندر مودی تھا۔ 
سچے ثبوتوں اور ٹھوس گواہیوں پر مبنی کیس کے انڈیا نے کشمیر کی تاریخی حیثیت کو ختم کیا ہے، پورے خطے کے امن کو داو پر لگادیا ہے۔ کشمیر میں انڈین آرمی روزانہ معصوم عورتوں کی عصمت دری کرتی ہے، وہاں روزانہ نوجوانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ پچھلے پندرہ روز کرفیو کی وجہ سے لوگوں کے کھانے کی چیزیں اور دوائیاں ناپید ہوگئی ہیں، مریض تڑپ رہے ہیں۔

مگر تم نے کوئی ریزولیشن پاس نہیں کی، کوئی آفیشل مذمتی اسٹیٹمینٹ تک جاری نہ کیا، سوائے تشویش ظاہر کرنے کے۔
اگر یہی کیس لیکر آنے والا
کوئی مائیکل یا ڈیوڈ یا کمار ہوتا اور ملزم احمد، محمد یا عبداللہ ہوتا تو پوری دنیا میں جنگ کے نقارے بج چکے ہوتے اور اس وقت تک تمہاری نیٹو کے ایف سیونٹین اڑان بھر چکے ہوتے۔۔۔۔

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات۔انیکا حل اور طرلقہ وہی ہیے جو حضور پاک نے غزوہ بدر میں 313 جانثاروں اور جانبازوں نے اس وقت کے فرعون نمرود قرلیش مکہ کی رعنیویت کو خاک میں ملا دیا یہ عربی اپنے ہاتھ سے کھودے ہوے کنوہیں میں گرے گے اور برباد ہونگے آج چوبیسواں روز ہو گیا کرفیو لگے نوے لاکھ کلمہ گو مقبوضہ کشمیر کے بچے عورتیں بیمار اس بلیک آوٹ میں ہزاروں دختران کشمر اپنی عزت آبرو گنوا بیھٹی ہیں ایک لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو عقوبت خانوں اندھا کرکے شہید کردیا گیا ہیے ان عربوں کی تباہی اور بربادی اللہ کریم نے لکھ دی ہیے ہمارے سپہ سالار کو پورے ملک میں ایمرجنیسی کا نفاذ کرنا چاہیے انشااللہ فوجی ٹرنییگ کیمپوں میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان فوجی ٹرنییگ لینے کے لیے تیار ہیں یہ سیاسی قیادتیں اب دھرنوں ہڑتالوں اور ریلیوں کا ڈرامہ ختم کرہیں عمران خان کو پہل کرنی چاہیے اپنے دونوں بچوں کو فوجی ٹرنینگ کے لیے والنٹیرز کرے خاندان شرلفیآ کے ٹنوں منوں اور تمام نوجوان اسی طرح خاندان زرداری کے بلاول انیڈ کمپنی فضل الرحمان انیڈ بردارز کو تو رانی توپ چلانے کی ٹرنییگ دہینی چاہیے اور ہر ہفتے ایل او سی باڈرز پے جا کر مکار گھٹیا نازی مودی کو للکارنا چاہیے اور اس طرح ہمارے ان جری بہادر افواج کو بھی یقین ہوگا کہ اس آر پار کی جنگ میں ہمارے شانہ بشانہ پوری 22کڑور عوام اور سیاسی قیادت بھی کھڑی ہیے 

...........
 مصنف ملک عبدالروف اعوان فری لانس انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کالم نگار ممبرز ایمنسٹی انٹرنشنیل و سوشل میڈیا بلاگرز صدر سول سوساہیٹئ ہیں 

ڈی ایچ او ان ایکشن لیبارٹریاں،کلینک،زچہ بچہ سنٹر سیل


خوشاب نیوز ڈاٹ کام)ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر راؤ گلزار یوسف نے اتا ئیت کے خلاف چلائی جانیوالی مہم کے دوران چھاپے مار کر ایک زچہ بچہ سنٹر ایک کلینک سیل  کردیا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر راؤ گلزار یوسف نے اتا ئیت کے 
خلاف چلائی جانیوالی مہم کے دوران چھاپے مار کر ایک زچہ بچہ سنٹر ایک کلینک اور دو لیبارٹریوں کو سیل کر دیا، سربمہر کی جانیوالی لیبارٹریوں اور ہسپتالوں میں صدیق لیب’ رشید لیب’ رانی میٹرنٹی  ہوم اور سہیل کلینک شامل ہیں۔

یہ 38 علما ضلع خوشاب میں داخل نہیں ہوسکتے

No photo description available.
 خوشاب نیوز ڈاٹ کام)ڈپٹی کمشنر خوشاب مسرت جبیں نے محرم الحرام کے دوران امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے مختلف مسالک کے 38شعلہ بیان مقررین کے ضلع خوشاب میں 60روز تک داخلہ پر پابندی عائد کر دی، ان میں مولانا عطاء اﷲ بندیالوی’محمد رفیق جامی’محمد عمر حیدری’نذیر احمد مخدوم’عبدالحمید وٹو’عبدالغفار تونسوی’مسعود الرحمن عثمانی’طالب الرحمن’عبدالغفور جھنگوی’اکرم طوفانی’عبدالغفور قاسمی’عالم طارق ’خادم حسین ڈھلوں’عبید الرحمن ضیاء’احمد لدھیانوی’قاری عصمت اﷲ ’محمد الیاس دھمن’محمد معاویہ’محمد یوسف رضوی’محمد یٰسین معاویہ’سلیم اﷲ’اورنگزیب فاروقی’محسن رضا فاروقی’سیف الدین عثمانی’مسرور نواز ’کلیم اﷲ آف کبیر والا’خضر حیات’محمد حسین ڈھکو’افتخار حسین نقوی’سبطین قاسمی’ساجد نقوی’غضنفر عباس تونسوی، غلام عباس ’حسنین رضا شاہ موسوی’اقارب حسین سید کسراں’احمد علی حیدری اور غلام حسین ہاشمی شامل ہیں۔

سرچ آپریشن، اسلحہ برآمد

Image may contain: 9 people, people standing and people sitting
خوشاب نیوز ڈاٹ کام)رانا شعیب محمود ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر خوشاب کے حکم پرمحرم الحرام میں امن و امان کو قائم رکھنے اور سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر ڈی ایس پی صدر سرکل فرخ سہیل سندھو کی زیرنگرانی ایس ایچ او تھانہ صدر جوہرآباد اور سٹی جوہرآباد کا ایلیٹ فورس اور لیڈیز پولیس کے ہمراہ وسطٰی شیر والی اور اس کے مضافات میں کامیاب سرچ آپریشن. سرچ آپریشن کے دوران مختلف گھروں اور مشکوک افراد کو چیک کیا گیا۔ سرچ آپریشن کے دوران 1 پمپ ایکشن، 1 رائفل 7 ایم ایم، 1 رائفل 12بور، 1 پسٹل 30 بور اور 1 پسٹل 32 بور اسلحہ ناجائز برآمد کر کے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کر لیے۔

نہتے مظلوم کشمیریوں پر بھارتی بربریت کیخلاف ضلع خوشاب کی عوام باہر نکل آئی

Image may contain: 4 people, people smiling, people standing, outdoor and close-up
 رکن قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی آئی محترمہ جویریہ ظفر آہیرکشمیریوں سے یکجہتی ریلی میں شریک
خوشاب نیوز ڈاٹ کام)پاکستان میں شہر شہر، قریہ قریہ کشمیر آور منانے کیلئے لوگ سڑکوں پر نکل آئے، ضلع خوشاب میں بھی کشمیریوں سے اظہار
 یکجہتی اور وادی میں مظالم کیخلاف بھارت کیخلاف شدیدا حتجاج کیا گیا۔ شرکا نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پوری قوم کشمیریوں کی آواز بن گئی، کشمیری بھائیوں سے اظہا ریکجہتی کیلئے ملک بھر میں کشمیر آور منایا گیا۔ضلع خوشاب  کے تمام شہروں  ، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلیاں نکالی گئی، طلبا اور مختلف مکاتب فکر کے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ شرکا کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے رہے۔ مین بازار جوہرآباد میں ایک ریلی نکالی گئی۔ریلی کی قیادت ڈپٹی کمشنرخوشاب مسرت جبیں نے کی۔ریلی میں ایم پی اے ساجدہ بیگم،اے ڈی سی (جی)نادیہ شفیق،اے ڈی سی (آر) عدیل حیدر،اسسٹنٹ کمشنر خوشاب افتخارحسین بلوچ،سابقہ چیئرمین ضلع کونسل امیر حیدر سنگھا،سکول ایجوکیشن،ہیلتھ،فنانس اینڈ ڈویلپمنٹ،انوائر نمنٹ،لائیو سٹاک،وائلڈ لائف، پولیس،سوشل ویلفیئر،سپورٹس،سپیشل ایجوکیشن،تمام سرکاری محکموں کے افسران و سٹاف،کالج و سکولز کے طالب علموں،پی ٹی آئی کے عہدیداروں اور ورکرز،تاجران کے علاوہ دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ریلی سرور شہید لائبریری چوک سے شروع ہو کر مین بازار،کالج چوک سے ہوتی ہوئی ماڈل بازار جہاز چوک پر اختتام پزیر ہوئی۔ریلی کے شرکاء نے کشمیریوں کے حق اور ان کی آزادی کے بینرز،پلے کارڈ،پاکستان اور کشمیر کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔اس دوران جوہرآباد شہر ریلی کے شرکاء کے فلک شگاف نعروں سے گونجتا رہا۔ریلی کے اختتام پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔پاکستان اور کشمیر کے ترانے چلائے گئے۔ ڈپٹی کمشنرنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج قوم نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا اظہار کر کے فیصلہ کر دیا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔انہوں نے تمام سرکاری محکموں اورریلی کے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ایم پی اے ساجد ہ بیگم نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی آواز پر اور اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے تمام شہر ی باہر نکلے اورر یلی میں شرکت کی انہوں نے ضلع خوشاب کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی اور ایک جھنڈے تلے جمع ہوئے۔سابق چیئرمین ضلع کونسل امیر حیدر سنگھا نے کہا کہ کشمیری جدوجہد آزادی میں تنہا نہیں ہیں پوری قوم ان کے ساتھ ہے ریلی کے شرکاء پاکستان کی سلامتی اور کشمیر کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے اور انڈیا کے وزیراعظم مودی اور بھارتی فوج کی بربریت کے خلاف سخت نعرہ بازی کی اور انہیں بددعائیں دیں۔آخر میں مولانا سلیم الرحمن نے پاکستان کے سلامتی،ترقی و خوشحالی اور کشمیرکی آزادی کے لئے دعا کروائی۔
 گورنمنٹ ٹیکنیکل ماڈل ہائی سکول جوہرآباد کے پرنسپل رانا عبدالروف کی قیادت میں سٹاف وطلبا کی ریلی
 گورنمنٹ ٹیکنیکل ماڈل ہائی سکول جوہرآباد کے پرنسپل رانا عبدالروف کی قیادت میں سٹاف وطلبا کی ریلی
Image may contain: 7 people, people smiling, outdoor
 گورنمنٹ ہائی سکول چک نمبر 47 ایم بی کے  سٹاف وطلبا کی ریلی
Image may contain: one or more people, people standing, crowd and outdoor
 گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پرنسپل محمد ارشد اعوان کی قیادت میں   سٹاف وطلبا کی ریلی
Image may contain: 12 people, crowd نور پور تھل میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی
 گورنمنٹ ہائی سکول نوشہرہ وادی سون کے اساتذہ و طلبا کی  کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی
Image may contain: 6 people, people smiling, crowd and outdoor
گورنمنٹ کالج جوہرآباد  کے  پرنسپل کی قیادت میں اساتذہ و طلبا  کی نکالی گئی ریلی

پھر گھروں میں محصور ہوئے کشمیریوں کو کون یادرکھے گا

نصرت جاوید 
ایک شاعر نے کہا تھا کہ چند باتیں جو بیان کرنا لازم ہیں ’’فسادِ خلق‘‘ کے خوف سے نظرانداز کردی جاتی ہیں۔گفتنی ناگفتنی رہ جاتی ہے۔’’حق گوئی‘‘ کا ایک زمانے میں مجھے بھی بہت شوق تھا۔فقدانِ راحت کے ڈر سے مگر اپنی محدودات کو بتدریج دریافت کرہی لیا۔ لفظوں کو احتیاط میں لپیٹ کر ادا کرتا ہوں۔کولہو میں جتے بیل کی مانند آنکھوں پر کھوپے چڑھارکھے ہیں۔دائرے میں سفر کی مشقت سے تیل اپنا ہی برآمد ہوتا ہے جو بازار میں سستے داموں میسر ہے۔
فدویانہ رویے کا عادی ہوجانے کے باوجود یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ بدھ کے روز رانا ثناء اللہ کے خلاف بنائے کیس کی سماعت کے دوران Whatsappکی بدولت جو داستان تخلیق ہوئی ہمارے سامنے نہ آتی تو بہتر تھا۔یہ کہنے کے باوجود مجھے قوی امید ہے کہ اس داستان کو جلد فراموش کردیا جائے گا۔واقعہ اتنا بھی سنگین نہیں ہے جو ارشد ملک کے وڈیو کی صورت دھماکے کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ وہ خیروعافیت سے گزرگیا۔بدھ کے روز چلی کہانی بھی جلد بھلادی جائے گی۔
میرے اور آپ جیسے دیہاڑی دار اور ماہانہ تنخواہ کی طلب میں آنکھوں پر کھوپے چڑھائے بیلوں کے لئے بدھ کے روز ویسے بھی دل دہلادینے والی حقیقی خبر یہ تھی کہ 1979-80کے مالیاتی سال کے بعد 2018/19کے اختتام پر ہماری تاریخ میں ریکارڈ خسارہ دیکھنے کو ملا ہے۔خسارے کی یہ خبر کسی دشمن نے نہیں پھیلائی۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے خلقِ خدا کے سامنے روبرو لائے ٹھوس اعدادوشمار نے یہ پریشان کن خبر بنائی ہے۔
مذکورہ خبر کا سنگین تر پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے ذ ریعے خسارے کی جو شرح ہمارے سامنے لائی گئی ہے وہ IMFکے تیارکردہ نسخے کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔یہ اپنے مقام پربرقرار رہی تو ہمیں بیل آئوٹ پیکیج کی آئندہ قسط دینے سے قبل ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شبرزیدی کو مزید ٹیکس لگانے کو مجبور کیا جائے گا۔وہ یہ ٹیکس لگانے سے گھبرائیں گے تو حکومتی آمدنی میں اضافے کے لئے بجلی،گیس اور پیٹرول کے نرخ بڑھانا ہوں گے۔ یہ نرخ بڑھے تو ہماری حقیقی آمدنی مزید سکڑجائے گی۔ حکومت خلقِ خدا کی بھلائی کے لئے کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کر پائے گی۔ کاروباری افراد نے پہلے ہی ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔جن کے پاس وافر رقوم ہیں وہ ان کے ذریعے اپنا کاروبار پھیلانے یا نئی سرمایہ کاری کے بجائے سونے کی ڈلیاں خریدنا شروع ہوگئے ہیں۔اسی باعث سونے کی فی تولہ قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان کی معیشت میں کسادبازاری، بے روزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافے کے تناظر میں 5اگست سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوا عذاب مزید تکلیف دہ محسوس ہورہا ہے۔ایک وسیع وعریض جیل میں محصور ہوئے 80لاکھ انسانوں کو دُنیا سے کٹے ا ٓج 24واں دن شروع ہوگیا ہے۔ہمیں امید تھی کہ بھارتی وزیر اعظم سے فرانس میں حالیہ ملاقات کے دوران امریکی صدر اپنے ’’یار‘‘ سے ہتھ ہولا رکھنے کی استدعا کرے گا۔ موصوف نے 45 منٹ لمبی ملاقات کے دوران شاید اس جانب بھی توجہ دلائی ہوگی۔بھارتی وزیر اعظم نے مگر اسے قائل کردیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بھارتی سرکار کے ’’قابو‘‘ میں ہیں۔موبائل اور لینڈ لائن والے فونوں کو بند کرکے جو لاک ڈائون لاگو ہوا ہے اس کی وجہ سے وادیٔ کشمیر میں احتجاج اس شدت سے رونما نہیں ہورہا جس پر قابو پانے کے لئے قابض افواج کو لاشیں گرانا پڑیں۔ انسانی جانوں کے ’’تحفظ‘‘ کی خاطر یہ لاک ڈائون لہذا ضروری ہے۔
ڈونلڈٹرمپ کو ویسے بھی’’انسانی حقوق‘‘ کی زیادہ پرواہ نہیں۔وہ دھندے کا بندہ ہے۔America Firstکے جنون میں مبتلا۔بھارت کے ساتھ تجارت میں اس کے ملک کو سالانہ 60ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔نریندرمودی نے کمال مکاری سے اس کو یہ امید دلائی کہ بھارتی حکومت امریکی خسارے میں کمی لانے کے لئے ٹھوس اقدامات لینے کو تیار ہے۔فرانس سے اپنے وطن لوٹنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے ’’غیر ملکی سرمایہ کاری‘‘ میں آسانی لانے کے لئے کچھ اعلانات کروائے ہیں۔ان کے ذریعے ٹرمپ کو یہ باور کروایا جائے گا کہ اس کے سرمایہ کار دوستوں کے لئے بھارت میںمنافع کمانے کے لئے مذکورہ اعلانات کافی ہوں گے۔
دریں اثناء بھارت کو یہ امید بھی ہے کہ عالمی میڈیا وقت گزرنے کے ساتھ Kashmir Storyکو بھلانا شروع ہوجائے گا۔ ہانگ کانگ میں ہر ویک اینڈ پر چینی حکومت کے خلاف جلوس نکلتے ہیں۔گزشتہ ہفتے اسے ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے طاقت کے بھرپور استعمال سے روکنے کی کوشش کی۔بظاہر کامیابی نہیں ہوئی۔ چین کے کئی دشمن اب یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اگر ہانگ کانگ کی ’’خودمختار‘‘ انتظامیہ اپنے تئیں ہنگاموں پر قابو پانے کو ناکام رہی تو بالآخر چینی صدر امن وامان کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے اپنے ملک کی فوج کو وہاں بھیجنے کو مجبور ہوجائیں گے۔ ایسا ہوا تو عالمی میڈیا کو ’’انسانی حقوق‘‘ کے تناظرمیں ’’ہرپل کی خبر‘‘ دینے والی صحافت کی ضرورت محسوس ہوجائے گی۔ہانگ کانگ میں چلی لاٹھی،گولی اور آنسوگیس مقبوضہ کشمیر کو لاک ڈائون کے ذریعے قبرستان بنانے والی’’خبر‘‘ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ’’ڈرامائی‘‘ ہوجائے گی۔
مقبوضہ کشمیر کے حقائق سے توجہ ہٹانے کے لئے طالبان کے ساتھ دوحہ میںجاری مذاکرت کے انجام کا بھی بے چینی سے انتظار ہورہا ہے۔نظر بظاہر معاہدہ ہوچکا ہے اس کا محض اعلان ہونا باقی ہے۔ممکنہ اعلان کو ستمبر کے پہلے ہفتے کے اختتام کے بعد مزید ٹالا نہیں جاسکتا۔
طالبان کے ساتھ معاہدے کا اعلان ہوگیا تو اس کا ’’ردعمل‘‘ بھی ضروری ہے۔کئی افغان گروہ متوقع اعلان کے بعد امریکہ پر یہ الزام لگائیں گے کہ امریکہ نے انہیں طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاہے۔اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئی صف بندیاں شروع ہوگئی ہیں۔
’’افغان جہاد‘‘ کی پہلی دودہائیوں میں گل بدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو افغانستان کے پشتوبولنے والوں کا اصلی تے وڈاترجمان سمجھاجاتا تھا۔حکمت یار کی مزاحمت کے لئے تاجک احمد شاہ مسعود سے پناہ کے طلب گار ہوئے۔افغانستان کو سوویت یونین سے ’’آزاد‘‘ کروالینے کے بعد حکمت یار اور مسعود کے حامیوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔کابل شہر کی حقیقی تباہی ان کے مابین خانہ جنگی کی بدولت ہوئی۔خانہ جنگی سے پریشان ہوئے افغانوں کو حوصلہ دینے کے لئے بالآخر طالبان نمودار ہوئے۔ اپنے عروج کے ایام میں بھی وہ مگر افغانستان کے شمال میں موجود احمد شاہ مسعود کے زیرنگین علاقوں پر قبضہ نہ کرپائے۔حکمت یار البتہ طالبان سے جان بچانے ایران چلاگیا۔
دوحہ میں جاری مذاکرات کا انجام ابھی ہمارے سامنے نہیں آیا ہے مگر حکمت یار کی جماعت نے طالبان سے ممکنہ اتحاد کی بات چیت شروع کردی ہے۔اقتدار میں اپنی واپسی کو یقینی تصور کرتے ہوئے طالبان نے افغان حکومت کے تنخواہ دار ملازموں،سپاہیوں اور فوجیوں کو یہ بتانا شروع کردیا ہے کہ وہ ’’پالتوسرکار‘‘ کی نوکری چھوڑ کر ان کی پناہ میں آجائیں تو ان کی ماضی کی خطائیں معاف کردی جائیں گی۔
طالبان اور حکمت یار کے مابین’’دوستی‘‘ کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرانس کی خبررساں ایجنسی AFPکی بدولت ا حمد شاہ مسعود کا بیٹا اپنے باپ کے ’’سیاسی وارث‘‘ کے طورپر ’’اچانک‘‘ نمودار ہوگیا ہے۔یاد رہے کہ فرانس نے ہمیشہ احمد شاہ مسعود کو ’’افغان جہاد‘‘ کے حقیقی ہیرو کے طورپر پیش کیا۔ اس کی جماعت کو سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران اس ملک کے فوجی مشیر’’گوریلاجنگ‘‘ کو توانا تربنانے کے مشورے دیا کرتے تھے۔طالبان کے عروج کے بعد فرانس،بھارت اور ایران نے یکجاہوکر احمد شاہ مسعود کی ’’خودمختاری‘‘ بچائے رکھی۔ امریکہ-طالبان معاہدے کے بعد افغانستان میںتاریخ خودکو مزید خوفناک انداز میں دہرابھی سکتی ہے۔ایسا ہوا تو گھروں میں محصور ہوئے کشمیریوں کو کون 
 یاد رکھے گا؟
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

جمعرات، 29 اگست، 2019

کنڈیاں دی واڑ۔۔۔۔از محمد نعیم یاد


مبصر:عقیل شافی۔لاہور

اَدب کے ہر فیشن کی طرح افسانچہ نگاری بھی مغرب سے ہی اُٹھ کر آئی ہے۔اُردواَدب میں پہلی بار اس کا تجربہ سعادت حسن منٹو نے کیا،اورپھر ان کے بعد جوگندرپال نے ان کے کام کو آگے بڑھا یا۔رفتہ رفتہ افسانچوں کی طرف کئی ادباء نے توجہ دی تو محفلِ اَدب میں یہ چھوٹے چھوٹے قمقمے جگمگاکر قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔افسانچہ تخلیق کرنا افسانے سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے،جو بات آپ دس صفحات میں بیان کرتے ہیں اُسے چار پانچ جملوں میں کہہ کر دس صفحات کا تاثر پیداکرنا،آسان نہیں۔پاکستان میں اَفسانچہ نگاری کو اچھی نظر سے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا،اس کے باوجود چند قلمکار ایسے ہیں جو افسانچے تخلیق کررہے ہیں۔ان میں ہی ایک نام محمد نعیم یاد کا بھی ہے جو پچھلے کئی برسوں سے افسانے کے ساتھ ساتھ افسانچوں پہ کام کررہے ہیں۔نعیم یاد کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اُردو زبان کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی افسانچوں کو پیش کیا۔اور کم عمری میں افسانوں اورافسانچوں پہ مبنی اب تک سات کتب لکھ چکے ہیں۔ حال ہی میں پنجابی اَفسانچوں پہ مبنی ان کی کتاب ”کنڈیاں دی واڑ“منظر عام پرآئی۔”کنڈیاں دی واڑ“میں نعیم یاد نے معاشرے کی سچائیوں کو بڑی چابک دستی سے افسانچوں کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔ان کی تحریر میں ایک خاص قسم کی جاذبیت ہے جو پڑھنے والے کوچونکا دیتے ہیں۔زندگی کے نشیب وفراز،حرام وحلال،صحیح وغلط،دغابازی،دوغلہ پن،سیاسی شعبدہ بازیاں،قول وفعل کا تضاد،مفلسی اوربھوک جیسے کئی عوامل ہیں جنھیں نعیم یاد نے افسانچے کے قالب میں اس فن کاری سے ڈھالاہے کہ افسانچہ قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔پنجابی میں صاف ستھری زبان میں یہ افسانچے زبان کی بھول بھلیوں میں نہیں بھٹکاتے بلکہ اس جھٹکے سے ختم ہوجاتے ہیں کہ قاری کے ذہن پر دیر پااثرات قائم کرتے ہیں۔مجموعی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ نعیم یاد کے یہ افسانچے پنجابی اَدب میں ایک لطیف جھونکے کی مانند ہیں جو ہر قاری کے ذہن و دل کو تازگی بخشتے ہیں۔
ناشر:طٰہٰ پبلی کیشنز،اُردوبازار،لاہور
قیمت:300روپے

پرانا ملتان اور نازو بگھیلا

خالد مسعود خان 
ملتان کیسا ہے؟ برادر بزرگ نے ایئر پورٹ پر پہلا سوال یہی کیا۔ ہم چھوٹے شہر والوں کا یہ مسئلہ بڑا مشترکہ ہے۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں‘ ہمارا شہر ہمارے اندر ہی بسا رہتا ہے۔ ہم ملتان والے اگر ملتان سے دنیا کے کسی اور کونے میں بھی چلے جائیں ‘ ملتان ہمارے اندر سے نہیں نکلتا۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ملتان ایک نشے کا نام ہے۔ یہ ایک طرح سے Addiction ہے۔ لگ جائے ‘تو چھوڑنا مشکل ہو جاتی ہے۔ جو دوست بھی نوکری یا کاروبار کے سلسلے میں ملتان آیا ‘اسے آتے وقت بڑا روتے دیکھا کہ کس جگہ آ گیا ہوں۔ دو چار سال گزرنے کے بعد جب جانے کا وقت آیا ‘تب پہلے سے بھی زیادہ روتے دیکھا کہ ملتان چھوڑ کر جانا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ اب برادر بزرگ کو ہی دیکھیں۔ تقریباً ہر سال ملتان آتے ہیں۔ سب عزیزوں‘ رشتہ داروں اور دوستوں سے ملتے ہیں۔ سارا ملتان گھومتے ہیں‘ مگر ملتے ہی سب سے پہلا سوال ملتان کے بارے میں کیا کہ ''ملتان کیسا ہے؟‘‘۔
برادرِ بزرگ اعجاز احمد سے دوستی بھی بڑے عجیب طریقے سے ہوئی۔ ان کا بھائی مسعود احمد میرے بچپن کا دوست ہے۔ مسعود میرے ایک دوست مظفر محمود کا ہم جماعت تھا۔ اب یہ لفظ ہم جماعت بھی قریب قریب متروک ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ ''کلاس فیلو‘‘ نے لے لی ہے۔ مظفر کی والدہ میری والدہ کی بڑی پرانی دوست تھیں۔ مظفر کا گھر شاہ رسال روڈ پر نواب صادق قریشی کی پرانی کوٹھی ''وائٹ ہائوس‘‘ کے پاس تھا۔ یہ ہمارے گھر سے سمجھیں آدھا کلو میٹر دُور تھا۔ بھلا تب آدھا کلو میٹر ہوتا ہی کتنا تھا؟ اٹھے اور چلے گئے۔ مسعود احمد ہمیں مظفر محمود کی دوستی کے جہیز میں ملا تھا۔ برسوں گزرے ایک روز مسعود احمد کا فون آیا کہ ان کے ماموں امریکہ سے آئے ہیں اور وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ''ست بسم اللہ‘‘ آپ کے ماموں ایک لحاظ سے ہمارے ماموں لگے۔ مسعود ہنسا اور کہنے لگا : ہیں تو میرے ماموں! لیکن بس چار چھ سال ہی بڑے ہیں۔ میں نے کہا: رشتے سن و سال سے نہیں‘ اپنے درجے کے محتاج ہوتے ہیں۔ میں اب اس جنریشن سے تعلق رکھتا ہوں ‘جہاں دوستی‘ رشتوں کی طرف جاتے ہوئے رشتوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب میرے مرحوم بڑے بھائی کا کوئی بھی دوست ہو‘ وہ میرا بڑا بھائی ہے اور میرے ہر دوست کا بڑا بھائی میرا بڑا بھائی ہے۔ اس کی بہترین مثال جاوید ہاشمی ہے ‘جس کا چھوٹا بھائی مختار ہاشمی مرحوم میرا دوست تھا اور اس ناتے جاوید ہاشمی میرے بڑے بھائیوں جیسا ہے۔ کچھ لوگوں کو گمان ہے کہ جاوید ہاشمی میرے دوست ہیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں ہے‘ کیونکہ وہ By Default میرے دوست بننے کی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔
مسعود کہنے لگا '' لیکن ماموں‘ دراصل میرے دوست بھی ہیں‘‘۔ میں نے کہا: تو یہ تعارف پہلے کیوں نہیںکروایا؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا '' تم پہلے تعارف کو بھول جائو اور یہ یاد رکھو کہ اعجاز احمد میرا دوست بھی ہے اور بڑے بھائیوں جیسا بھی‘‘۔ میں نے کہا: نو بجے میرے دفتر آ جائو۔ صبح عجب ہوا‘ میں نو بجے تک تو سوتا ہی رہ جاتا‘ اچانک پونے نو بجے مسعود کا فون آیا کہ دفتر پہنچ گئے ہو؟ میں نے کہا: میں تو تمہارے فون کی گھنٹی سے اٹھا ہوں‘ ایسا کرو تم دس بجے آ جائو۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کیا‘ چھلانگ لگا کر بستر سے نکلا اور باتھ روم میں گھس گیا۔ایسا کم ہی ہوا ہے کہ میں کسی کو وقت دوں اور پھر اس کا پابند نہ رہا ہوں۔ میں دو چار منٹ میں نہا کر باہر نکلا اور ناشتہ کیے بغیر دفتر دوڑ لگا دی۔ راستے میں ‘میں نے مسعود کو فون کیا کہ آپ دفتر آ جائیں میں بھی ساڑھے نو بجے سے پہلے وہاں پہنچ جائوں گا۔ میں دفتر پہنچا ہی تھا کہ پانچ چھ منٹ بعد مسعود اپنے ماموں نما دوست کے ساتھ میرے دفتر آن پہنچا۔ یہ اعجاز احمد سے میری پہلی ملاقات تھی۔
ملاقات مزیدار رہی۔ گمان تھا کہ یہ ملاقات ایک آدھ گھنٹہ جاری رہے گی‘ مگر دو تین گھنٹے گزر گئے اور وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ اٹھنے سے پہلے اعجاز احمد نے کہا کہ صبح آپ کے سوئے رہنے کا سن کر از حد غصہ آیا اور طے کیا کہ جس شخص کو وقت کا احساس نہیں‘ اس سے مل کر کیا کرنا ہے؟ لیکن جیسے ہی آپ نے کہا کہ آپ فوراً دفتر آ رہے ہیں اور جس طرح بیس پچیس منٹ کے اندر اندر نہا کر اور تیار ہو کر بھاگم بھاگ آپ دفتر پہنچے‘ اسی وقت یہ احساس ہوا کہ آپ کے بارے میں پہلا فیصلہ درست نہ تھا۔ سو‘ اس فیصلے سے فوری رجوع کیا ‘لوح دل پر یہ درج کیا کہ بندہ ٹھیک ہے۔ ادھر اعجاز احمد نے اپنے دل پر لکھا کہ بندہ ٹھیک ہے ‘ادھر میں نے بھی پہلی ہی ملاقات میں اپنے دل پر لکھا کہ بندہ ٹھیک ہے۔
چھوٹتے ہی پوچھنے لگے: ملتان کیسا ہے؟ میں نے کہا: ابھی گزشتہ سال ہی آپ ملتان سے ہو کر آئے ہیں۔ بھلا اس دوران ملتان نے کیا تبدیل ہونا تھا؟ چھوٹے شہروں میں تبدیلی تھوڑی آہستہ آہستہ آتی ہے۔ ملتان تو ویسے بھی روایتی شہر ہے۔ با مروت‘ رکھ رکھائو اور تعلقات کو نبھانے والوں کا شہر۔ یہاں تو لوگ جلد تبدیل نہیں ہوتے بھلا شہر نے کیا تبدیل ہونا ہے؟ کہنے لگے: بس عادتاً پوچھ لیتا ہوں۔ ملتان اب اس طرح جانا نہیں ہوتا کہ اس ملتان سے گلے مل سکوں‘ جس کو چھوڑ کر گیا تھا۔ اندرون پاک گیٹ والا گھر جب سے نہیں رہا‘ تب سے میرے لیے تو سارا ملتان ہی بدل گیا ہے۔ گزشتہ بار ڈیرہ اڈہ چوک سے گزرا تو گولی والی بوتلوں کی ایک چھوڑ کر ساری دُکانیں بند ہو چکی تھیں۔ خدا معلوم اب وہ اکلوتی دُکان بھی چل رہی ہے یا بند ہو گئی ہے؟ حرم گیٹ کے باہر الحرم ہوٹل اور اس کے نیچے دو بھائیوں کی مشہور تیل دھنیا والی دُکان نظر نہیں آئی۔ خدا جانے دُکانیں کہاں چلی گئی ہیں؟ میں نے کہا: اب ایک کی بجائے دو دُکانیں ہو گئی ہیں ؛ایک حرم گیٹ تھانے کے سامنے اور دوسری حرم دروازے کے اندر۔ پوچھنے لگے: ماموں چنے والا موجود ہے یا نہیں؟ میں نے کہا: موجود ہے‘ لیکن خدا جانے کیا بات ہے‘ پہلے والی بات نہیں۔ کہنے لگے: سچ کہا۔ اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ دو چار سال پہلے میں نے نازو ربڑی والے سے ربڑی لے کر کھائی تھی۔ پہلے والی بات ہی نہیں تھی۔ نہ وہ مزہ اور نہ وہ سواد تھا۔ دوبارہ کھانے کو دل ہی نہیں کیا۔ کیا زمانہ تھا پیالہ بھر کر ربڑی کھا لیتے تھے اور دل کرتا تھا کہ اور ایک پیالہ کھا لیں۔ میں ہنسا اور کہا: برادر عزیز ! تب آپ کو نہ دل کی طرف سے کوئی خوف ہوتا تھا اور نہ ہی کولیسٹرول بڑھنے کا مسئلہ تھا۔ نہ شوگر کا خوف تھا اور نہ ہی کیلوریز کو گننے کا جھنجھٹ تھا۔ مزہ تو آنا ہی تھا۔ برادر بزرگ ہنسے اور کہنے لگے : کہتے تو ٹھیک ہو۔ پھر کہنے لگے :ایک اور نازو ہوتا تھا تمہیں یاد ہے؟ میں نے کہا بھلا نازو بگھیلا کسے یاد نہیں ہوگا؟ وہ آج سے پچیس تیس سال پہلے والے ملتان کا ایک عجیب کریکٹر تھا۔ پہلے پہلوان تھا اور پھر پہلوانی سے ریٹائر ہو کر فقیر بن گیا۔ ہاتھ میں سبز جھنڈا اور سارے شہر میں پیدل گشت۔ نہ بیوی نہ بچے۔ گول مٹول‘ بچوں جیسی معصومیت اور ہمہ وقت مسکراہٹ۔ برادر بزرگ کہنے لگے ‘یہ ''بگھیلا‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا: اگر میں غلط نہیں تو بگھیلا سرائیکی میں شیر کے بچے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ بگھیلا دراصل ہندی لفظ ''باگھ‘‘ سے نکلا ہے۔ یہ شیر کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ نازو بگھیلا جوانی میں بڑا دلیر اور بے خوف ہوا کرتا تھا‘ اوپر سے پہلوان۔ اس کا نام ''بگھیلا‘‘ اسی وجہ سے پڑا تھا۔ اب نہ نازو بگھیلا ہے اور نہ بگھیلے جیسا کوئی اور شخص!
اسی دوران ملتان سے ایک کالم نگار دوست کا فون آیا۔ کہنے لگا: یار کیا کروں؟ میں نے پوچھا خیر ہے؟ کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں سیاست پر لکھنے والا آدمی ہوں اور میرا اخبار چاہتا ہے کہ میں صرف حکومت کی پکڑ میں آئے ہوئے لوگوں از قسم میاں نواز شریف‘ حمزہ شہباز‘ آصف زرداری‘ فریال تالپور اور شاہد خاقان عباسی وغیرہ کو مزید تازیانے ماروں ۔ آپ سینئر ہو‘ تجربہ کار ہو‘ کوئی مشورہ دو۔ کیا لکھوں؟ میں نے کہا: فی الحال تم یوں کرو کہ نازو بگھیلے کے بارے میں پرانے لوگوں سے معلومات لو اور اس کے بارے میں لکھو۔نازو بگھیلا ان لوگوں سے کم بڑا نہیں تھا‘ جن کے بارے میں تم لکھنا چاہتے ہو اور بوجوہ لکھ نہیں پا رہے۔ دوست نے سمجھا میں مذاق کر رہا ہوں اور اس نے فون بند کر دیا۔ ایمانداری کی بات ہے میں نے اسے پر خلوص اور صحیح مشورہ دیا تھا۔ اللہ جانے ہم لوگ مٹی سے جڑے ہوئے لوگوں کے بارے میں لکھنے سے کیوں جھجکتے ہیں ‘ جیسے نازو بگھیلا ہو گیا۔
کٹہرا۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ دنیا

بجلی کی 12کروڑ70لاکھ روپے کی86سکیمیں منظور

خوشاب نیوز ڈاٹ کام) رکن قومی اسمبلی ملک احسان اللہ ٹوانہ نے کہا ہے کہ  این اے  94 میں بجلی کی 12کروڑ70لاکھ روپے کی86سکیموں کی منظوری ہوچکی ہے جن کاپیپرورک مکمل ہوچکاہے جلد کام شروع ہوگا منظورشدہ سکیموں میں رنگپوربگھور کی محلہ کمہارانوالہ۔موچیانوالہ۔ڈیرہ حاجی احمدپلواں۔محسن بمب۔ڈیرہ جات پناہ خیل۔ڈیرہ جات شاہی فقیر۔محلہ سجادآباد اور ڈیرہ جاڑیانوالہ جبکہ یونین آدھی کوٹ کی ڈیرہ سامورانہ چن۔ڈیرہ مرادکھیمٹہ آدھیکوٹ۔ڈیرہ بلوچاں والہ۔ڈیرہ غلام احمدبگھور۔جناح کالونی اضافی آبادی۔اور ڈیرہ محمد رمضان۔قاسم بگھور 
شامل ہیں۔سیکنڈ فیز میں 100سکیمیں شامل ہیں جن کا پیپرورک شروع کردیاگیا ہے۔

رانا عبدالروف نے پرنسپل ٹیکنیکل ماڈل سکول جوہرآباد کا چارج سنبھال لیا

Image may contain: 1 person, sitting
خوشاب نیوز ڈاٹ کام)ضلع خوشاب کے معروف ماہر تعلیم راناعبدالروف نے گورنمنٹ ٹیکنیکل ماڈل ہائی سکول جوہرآباد کے پرنسپل کا چارج سنبھال لیا ہے ۔ پنجاب ٹیچرز یونین ضلع خوشاب کے عہدیداروں  قنبر رضا خان بلوچ،ملک امتیاز اعوان، شوکت شاہی ، بشارت سعید اعوان ، ملک شوکت اعوان ، عظیم پبلک ہائی سکول کے ڈائریکٹر چوہدری ندیم رضا کے علاوہ ضلع خوشاب کے اساتذہ اور سماجی و تعلیمی حلقوں نے رانا عبدالروف کو مبارکباد پیش کی۔

معذور افراد سے مالی امداد کے لیے درخواستیں طلب

خوشاب نیوز ڈاٹ کام)ڈپٹی کمشنر خوشاب مسرت جبیں نے خصوصی افراد کی بحالی اور ٹریننگ کمیٹی کے ضلعی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پنجاب کے احکامات کی روشنی میں خصوصی افراد کو ان کی بحالی کے لئے مالی امداد،ہیرنگ ایڈاور ویل چیئرزدی جائیں گی اس ضمن میں خصوصی افراد سے باقاعدہ طور پر درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں،درخواستیں دینے کی آخری تاریخ 15 ستمبر ہے۔درخواستیں ڈپٹی ڈائر یکٹر سوشل ویلفیئر کے دفتر میں جمع ہوں گی۔درخو استوں کی چھان بین 20ستمبر تک کی جائے گی۔اجلاس میں ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر امتیاز احمد مانگٹ،اسسٹنت ڈائریکٹر لیبر ویلفیئر غلام شبیر اور خصوصی افراد کے فوکل پرسنز موجود تھے۔ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر نے بتایا کہ وہ خصوصی افراد جن کے پاس محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے جاری کردہ معذوری سٹریفیکیٹ ہو گا وہ درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔علاہ ازیں وہ خصوصی افراد جو کسی اور ادارہ کی جانب سے پہلے ہی مالی امداد لے چکے ہیں وہ درخواست دینے کے اہل نہ ہوں گے۔امیتاز احمد مانگٹ نے بتایا کہ حکومت پنجاب کی ہدایت پر خصوصی افراد کو فنی تربیت دینے کے لئے ٹریننگ سنٹرکا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ 

یکجہتی کشمیر ریلی کی تیاریاں مکمل

خوشاب نیوز ڈاٹ کام)ڈپٹی کمشنر خوشاب مسرت جبیں نے کشمیر یوں سے یکجہتی کے حوالے سے ایک منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 30اگست بروز جمعتہ المبارک کو دن ساڑھے گیارہ بجے سرور شہید لائبریری چوک جوہرآباد سے مین بازارکالج چوک تک ایک ریلی نکالی جائے گی۔ریلی کے اختتام پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جائیگی،پاکستان وکشمیر کے قومی ترانے لگائے جائیں گے کشمیر کے حوالے سے تقاریر اور گفتگو ہو گی۔اجلاس میں ایم پی اے ساجدہ بیگم،اے ڈی سی (جی)نادیہ شفیق،اے ڈی سی (آر)عدیل حیدر،اسسٹنٹ کمشنرخوشاب افتخار حسین بلوچ،ہیلتھ اور ایجوکیشن کے سی اوز ڈاکٹر امان اللہ اور میاں محمد اسماعیل،ایڈیشنل ڈائریکٹر لائیوسٹاک ڈاکٹر نائلہ مقصود،ڈسڑکٹ وائلڈ لائف آفیسر عامر خان کے علاوہ ایمرجنسی ریسکیو 1122،پولیس،سوشل ویلفیئر اور متفرق محکموں کے افسران اور نمائیندگان موجود تھے۔ڈپٹی کمشنر نے تمام محکموں کے سربراہان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے تمام سٹاف ممبرز سمیت گیارہ بجے سرورشہید لائبریری چوک پر اکٹھے ہوں جہاں تمام محکموں کے افسران اور عملہ کی باقاعدہ حاضری لگائی جائے گی۔اس دوران وہاں کوئی بھی آفیسریا سٹاف ممبرغیر حاضر پایا گیا تو اس کے خلاف سخت تادیبی کاروائی ہوگی۔اسسٹنٹ کمشنر افتخار حسین بلوچ تمام محکموں کے افسران اور سٹاف کی حاضری چیک کریں گے۔ڈپٹی کمشنر نے تمام محکموں کو پاکستان و کشمیر کے جھنڈے اور بینرز ہمراہ لانے کی بھی ہدایت کی۔ 

رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کیس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

خوشاب نیوز ڈاٹ کام    
رانا ثناء اللہ کا جیل سے خط ،جج کی تبدیلی سمیت پوری کہانی بیان کر دی
رانا ثناء اللہ صدر مسلم لیگ ن پنجاب
میں کس حال میں ہوں

مجھے منشیات کے کیس میں ایک سازش کے تحت گرفتار کیا کیا گیا ہے جس کی سزا موت ہے اور یہ سازش چھ مہینے پہلے بنائی گئی تھی کیونکہ میں پارلیمان میں سیاسی حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا تھا . مجھے جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور اس کوٹھری میں رکھا گیا ہے جہاں سزائے موت کے مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔ مجھے اپنی فیملی کے علاوہ کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے. جیل کے افسران معائنے کے لئے آتے ہیں. یہ ایک مشکل وقت ہے مگر یہ وقت بھی گزر جائے گا.

میرے خلاف سازش کب تیار ہوئی ؟

مئی کے مہینے میں مجھے ایک خیر خواہ نے بتایا کہ تمہارے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ، یہ وہ خیر خواہ تھے جو فیصلے کرنے والوں میں شامل تھے.کچھ لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایف آئی اے اور نیب کے پاس تمھارے خلاف کوئی ثبو ت نہیں اس لئے ممکن ہے تمھیں سڑک پر کہیں روک لیا جائے گا ، مجھے اس قید کے دوران اس قید کی یاد آتی ہے جب مجھے گرفتار کرکے میری مونچھیں اور بھنویں کاٹ دی گئی تھیں . مجھے ہر وقت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا .

گرفتاری سے پہلے میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا اب خطرہ ٹل چکا ہے یا باقی ہے، مگر جواب نفی میں تھا اور کہا گیا کہ تمھارا 3 یا چار مرتبہ پیچھا کیا گیا مگر پولیس اسکواڈ کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا، اب ہوسکتا ہے کہ تمہاری سکیورٹی واپس لے لی جائے،یہ بات سچ ثابت ہوئی اور مئی کے آخری ہفتے میں میری سکیورٹی واپس لے لی گئی. پاکستان مسلم لیگ ن میں تفرقے پیدا کئے جارہے تھے، ہمارے کئی ارکان کو خرید کر فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں کی جارہی تھیں . میں نے تمام مشکلات کے باوجود اپنے ساتھ پرائیویٹ سکیورٹی اسکواڈ رکھ لیا کیونکہ مجھ پر مذہبی حوالے سے ایک فتنہ انگیز مہم چلائی گئی تھی .

گرفتاری کے روز کیا ہوا؟

گرفتاری کے روز میں فیصل آباد سے لاہور میں پارٹی کے اجلاس میں جا رہا تھا جب اے این ایف کے اسکواڈ نے بیچ سڑک مجھے روک کر میرے ڈرائیور کو گاڑی سے اتار دیا . اے این ایف نے اہکار نے ڈائیونگ سیٹ سنبھال لی اور مجھے اے این ایف پہنچا دیا گیا .مجھے اور میرے سکیورٹی گارڈز کو وہاں نظربند کردیا گیا اور اگلے دن عدالت میں پیش کیا گیا۔ وہاں مجھے اپنی گاڑی سے ہیروئن کی بازیابی کے الزامات کے بارے میں معلوم ہوا ۔اس سے پہلے مجھے نہ تو اس کے بارے میں بتایا گیا تھا اور نہ ہی کوئی تفتیش کی گئی ہے ۔

الزامات کے ثبوت اور جج کو سماعت سے روکنے کا امکان

میرے سیکورٹی گارڈ ابھی تک جیل میں‌ہیں . میرے بارے میں کہا گیا کہ منشیات برآمدگی کی ویڈیو بھی بنائی گئی ہے تاہم ابھی تک ویڈیو پیش نہیں کی گئی .اگر منشیات بر آمدگی کی ویڈیو ہوتی تو میرا بیان دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیا جاتا . مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں منشیات کے ایک عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہوں لیکن کسی کی گواہی کو شامل نہیں کیا گیا . اے این ایف کے اہلکار ہی اس سارے کیس کے شکایت کنندہ اور گواہ ہیں .امکان ہے کہ اے این ایف کے جج کو بھی مقدمے کی سماعت سے روک دیا جائے گا کیونکہ انہیں شک ہے کہ جج قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے میرے بارے میں‌نرم رویہ اختیار کر سکتا ہے .

بارہ سالہ گھریلو ملازمہ کوزیادتی کا نشانہ بنا کر زہر دیدیا

خوشاب نیوز ڈاٹ کام)نیو سیٹلائٹ ٹائون جوہرآباد میں جنید نامی ایک نوجوان نے گھریلو ملازمہ 12سالہ بچی  کو نشہ آور دوائی پلا کر جنسی تشدد کا نشانہ بنا دیا اور اپنے جرم کی پردہ پوشی کیلئے اُسے زہر کھلا دی۔ بارہ سالہ علینا کو ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال جوہرآباد منتقل کر دیا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں کی سر توڑ کوششوں کے بعد متاثرہ بچی کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور اب اسکی حالت خطرے سے باہر بیان کی جاتی ہے سٹی پولیس جوہرآباد نے علینا کے والد  کی رپورٹ پر ملزم جنید کے خلاف زیر دفعات376 اور 337j ت پ مقدمہ درج کر کے اُسے گرفتار کر لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق رحمن کالونی کی رہائشی بارہ سالہ بچی نیو سیٹلائٹ ٹائون جوہرآباد میں ایک خاتون شمیم زوجہ حاجی کے ہاں ملازم تھی اور اس کے گھریلو کام کاج کرتی تھی۔ اس دوران شمیم کے بھتیجے جنید نے تنہائی میں اُسے کوئی نشہ آور چیز کھلا دی اور اُسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور زہر دے کر قتل 
کرنے کی کوشش کی۔ 
نوٹ:صحافتی ضابطہ اخلاق کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کی تصویر ، نام یا شناخت شائع نہ کرنا خوشاب نیوز ڈاٹ کام کی پالیسی ہے

کشمیر کو کوئی پاکستان سے جدا نہیں کرسکتا، امیر حیدر سنگھا


خوشاب نیوز ڈاٹ کام) سابق چیئر مین ضلع کونسل خوشاب ملک امیر حیدر سنگھا نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کا بدترین کریک ڈاؤن جاری ہے، جیلوں میں جگہ کم پڑ گئی، وادی میں انسانی بحران ہے، خوراک اور ادویات بھی نہیں مل رہیں مقبوضہ کشمی کا مسلسل 25 روز سے دنیا سے رابطہ منقطع ہے، عوام کرفیو کے باوجود سڑکوں پر ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ یہاں مقامی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ   مسئلہ کشمیر کے حل کا ایک ہی راستہ ہے، کشمیر کے معاملے کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ امیر حید ر سنگھا نے مزید کہا کہ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے،ہمار اجینا مرنا اور دکھ سکھ سانجھے ہیں، کشمیر کو کوئی پاکستان سے جدا نہیں کرسکتا، کل وزیراعظم عمران خان کی اپیل پر کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے عوام باہر نکلیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمعے کے روز پاکستانی عوام کشمیریوں سے محبت اور یکجہتی کا بھرپور اظہار کریں گے۔

بدھ، 28 اگست، 2019

کیا بھارت کو نیوکلیئر حملے کی سفارتی حمایت مل گئی ہے؟


 سید سردار احمد پیرزادہ
پاکستان کو بھارت کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ہمیشہ سے محسوس ہوتا آیا ہے۔ بھارت پر پاکستان کے شک کی وجوہات محض خیالی نہیں بلکہ منطقی اور عملی ہیں۔ سفارتی و معاشی میدانوں سے لے کر سازشی حربوں تک بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بھارت کے پاس اس کی جو بھی منطق ہو لیکن یہ بات ریکارڈ کی ہے کہ پاکستان کو ہی ہمیشہ بھارت کے ہاتھوں دور رس نقصان ہوا ہے اور نقصان پہنچانے کی اپنی فتح کا اعلان بھی بھارتی حکام نے ہربار بڑی دیدہ دلیری سے کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اپنی جوانی میں مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کروانے کی عملی جدوجہد میں مکتی باہنی کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کا اعتراف ہے۔ بھارت کی عددی برتری اور بین الاقوامی تعلقات میں مختلف وجوہات کی بناء پر گہری دوستیوں کے باعث پاکستان نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایٹمی پروگرام کا سہارا لیا۔ 80ء کی دہائی کے بعد بھارت اپنی خواہش کے مطابق پاکستان کو کوئی جغرافیائی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہوا۔ اس کی وجہ بھارت کا نیک ہو جانا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی نیوکلیئر برابری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں جنرل ضیاء الحق سے لے کر عمران خان تک سب سربراہان بھارت کو نیوکلیئر جنگ کے خطرات سے آگاہ کرتے نظر آئے ہیں۔ اس کا پہلا مظاہرہ جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کے دوران راجیوگاندھی سے ایئرپورٹ پر الوداعی ملاقات کے دوران ہوا۔ اس کے فوراً بعد پاکستان کی سرحدوں پر بڑی تعداد میں موجود بھارتی فوجیں واپس بیرکوں میں چلی گئیں۔ اسی طرح کے بعد میں بھی کئی چھوٹے بڑے مواقع آئے جن میں سے ایک نمایاں بیان وہ تھا جب وزیراعظم نواز شریف نے کارگل کی جنگ کے موقع پر اپنی قومی تقریر میں کہا تھا کہ ایٹمی جنگ میں مرجانے والے خوش قسمت اور بچ جانے والے بدقسمت ہوتے ہیں۔   جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں جب بھارت نے اپنی پوری فوجی تیاری کے ساتھ ایک صبح پاکستان پر زمینی اور ہوائی حملے کا منصوبہ بنا لیا تو چند گھنٹے پہلے جنرل پرویز مشرف کے وائرلیس پر اوپن میسج نے بھارت کو اس مہم جوئی سے باز کردیا۔ گویا یہ کہنا درست ہوگا کہ ایٹمی جنگ کی اشارتاً بات بھی دنیا میں پریشانی پیدا کردیتی تھی جس کے باعث کسی نہ کسی مصالحتی کوشش یا بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے پاک بھارت جنگ کے خطرات کچھ دیر کے لیے ٹل جاتے تھے لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے نیوکلیئر ڈیٹرنس اور ایٹمی خطرے کی بات دنیا کے نزدیک بے معنی ہوتی نظر آرہی ہے۔ بھارت نے 5اگست 2019ء کو جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تو پاکستان کے عوام نے اِسے بڑی فکرمندی سے لیا۔ عوام کے جذبات پر پاکستانی حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی طرح کئی مرتبہ دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ پہلے کی طرح ان بیانات کا نتیجہ یہی نکلنا چاہیے تھا کہ انٹرنیشنل سیانے دونوں ملکوں کے ساتھ رابطے کرکے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے مگر اس حوالے سے یہ بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ دونوں ملکوں کو سمجھانے کی بجائے پاکستان کے موجودہ ایٹمی خطرات کی تشویش کو دنیا نے نظر انداز کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک ڈیویلپمنٹ یہ ہوئی کہ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھارت کی نیوکلیئر وار کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ”بھارت اب تک پہلے نیوکلیئر حملہ نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن تھا لیکن اب اس پالیسی کا تعلق مستقبل کے حالات سے ہوگا“۔ راجناتھ سنگھ کے بیان کو بالکل بھی ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ براہِ راست پیغام تھا۔ بہت زیادہ فکر کی بات یہ تھی کہ بھارتی وزیر دفاع کے اس بیان پر بھی انٹرنیشنل سطح پر کوئی خاص ہلچل نہیں ہوئی۔ اب دونوں طرف کی بیاناتی ڈیویلپمنٹ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف صاف لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی براہِ راست بات کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ 72 برس کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرات پر انٹرنیشنل برادری خاموش ہو بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انٹرنیشنل برادری ایٹمی جنگ کے خطرات کو نظر انداز کرکے بھارت کو سفارتی اور معاشی میدانوں میں زیادہ تقویت دے رہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے حالیہ خطاب میں ایک مرتبہ پھر ایٹمی جنگ کی ہولناکی کی بات کی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ”پاکستان کی فوج اور عوام ہرطرح سے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں“۔ وزیراعظم عمران خان کے اِس بیان کا وہی مطلب ہے جو وہ کہہ رہے تھے لیکن تشویش ناک سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ انٹرنیشنل برادری دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہی بلکہ شاید اِسے صرف دیوانوں کی بڑھک سمجھ رہی ہے یا انٹرنیشنل برادری کے وہ تماش بین جو جنگوں کا مزا لیتے ہیں اور اپنا اسلحہ بیچتے ہیں وہ اِس مرتبہ خدانخواستہ کسی چھوٹی ایٹمی جنگ کا تماشا دیکھنا چاہتے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اِس کے فلمی کلپس بعد کی ہالی ووڈ فلموں میں استعمال کرکے اربوں ڈالر کمائے جائیں۔ معاملہ جو بھی ہے وہ ایک الگ بات لیکن اِس وقت دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے حوالے سے عالمی برادری کی بظاہر بے حسی دونوں ملکوں کی سفارت کاری کے مرہونِ منت ہے۔ اس کو ڈی کوڈ کیا جائے تو ایک یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بھارت اپنے جارحانہ فیصلے کے بعد عرب دنیا میں پاپولر ہوا ہے اور مغربی دنیا میں بھی اُسے کسی خاص سفارتی شکست کا سامنا نہیں ہوا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا سفارتی گراف عرب دنیا میں کم ہوا ہے اور مغربی دنیا میں بھی کوئی خاص شنوائی نہیں ہوئی۔ اس تجزیئے کو سوچا جائے تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ کیا بھارت ایٹمی جنگ کے حوالے سے عرب اور مغربی دنیا کی درپردہ حمایت حاصل کرچکا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا انٹرنیشنل ادارے ایٹمی جنگ کے اثرات کے معیار کی پیمائش کرچکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہوسکتا ہے انہیں پاکستان کی سیکنڈ سٹرائیک کے معیار اور پیمائش کا صحیح اندازہ نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ سب کچھ ایسا ہی ہوا تو بھارت کی جارحیت، عالمی سوداگروں کی بے حسی اور مسلم دنیا کی مفاد پرستی کے موجودہ واقعات کی تاریخ کئی صدیوں بعد لکھی جائے گی کیونکہ برصغیر کی اس ایٹمی جنگ کے اثرات صدیوں تک ساتوں براعظموں پر موجود رہیں گے اور بچ جانے والے تاریخ لکھنے کی بجائے اپنی زندہ رہنے کی بدقسمتی 
پر سسک سسک کر روئیں گے۔

The First Blind Journalist of Pakistan
APNS Best Urdu Column Award Holder
ای میل:saafsaaf@live.com 

دو خواتین اغوا

خوشاب نیوز ڈاٹ کام )خوشاب اور نواحی علاقوں میں دو خواتین کو اغواء کر لیا گیا' اغواء کی پہلی واردات جھوک بادشاہانوالہ خوشاب میں ہوئی جہاں محمد عمران ' شکیل' شیر باز ' جہان خان اور اُن کے ساتھیوں نے ایک شادی شدہ خاتون سائرہ بشیر کو اغواء کیا۔ خوشاب پولیس نے مغویہ کے والد منیر حسین کی مدعیت میں ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اغواء کی دوسری واردات وسطی شیر والی میں ہوئی جہاں محمد رمضان نے اپنے دو نامعلوم ساتھیوں کی معاونت سے محمد افضل کی بیٹی رُخسانہ کو اغواء کیا پولیس نے دونوں وارداتوں کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے تاہم ابھی تک مغوی خواتین بازیافت نہیں ہوئیں۔ 

کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر 4 افراد کیخلاف مقدمہ


خوشاب نیوز ڈاٹ کام )مقامی پولیس نے دو مکانوں کے مالکان اور اُن کے کرایہ داروں کیخلاف پولیس کو اطلاع دیئے بغیر رہائشی مکانات کرائے پر دینے کے الزام میں پنجاب انفارمیشن آرڈیننس کے تحت مقدمات درج کئے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق محلہ بادشاہانوالہ کے محمد عرفان نے اپنا مکان عمر عباس کو جبکہ محلہ حسین آباد خوشاب کے عمر دراز نے اپنا مکان تصور عباس کو کرایہ پر دے رکھا تھا اور پولیس کے پاس اندراج نہیں کرایا تھا۔ 

ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت، زچہ بچہ دونوں جاں بحق

Image may contain: 17 people, people smiling, crowd and outdoor
خوشاب نیوز ڈاٹ کام) تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال خوشاب میں ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت دوران ڈلیوری ماں بچہ جان بحق، لواحقین کا کٹھہ چوک میں میت رکھ کر احتجاج ٹریفک جام ،لواحقین کے مطابق یاسمین زوجہ محمد خان سکنہ پرانا چوک کو ڈلیوری کے سلسلہ میں ہسپتال لایا گیا جہاں پر لیڈی ڈاکٹر نوشین نے مریض کو پرائیویٹ کلینک پر بھیجنے کیلئے زور دیا غریب ہونے کی وجہ سے ہم پرائیویٹ علاج نہ کراسکے ،جس پر ہمیں دو روز مختلف ٹیسٹوں اور خون کی دستیابی کیلئے ذلیل و خوار کیا گیا ،لواحقین وزیر اعلی پنجاب عثمان بازار سے ایم ایس اور متعلقہ ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کشمیریوں کی اذیت، مودی کا شوہد اپن اور وزیراعظم کا خطاب


پیرکی صبح اُٹھ کر حسبِ عادت یہ کالم لکھنے سے قبل اخبارات کی سرخیوں پر نگاہ ڈالی تو اطلاع ملی کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب اس روز کی سہ پہر قوم سے خطاب فرمائیں گے۔ اس خطاب کے لئے ساڑھے پانچ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔ قوم سے خطاب کے لئے انتہائی ہنگامی حالات کے علاوہ ایسا وقت مختص نہیں کیا جاتا۔ کوشش ہوتی ہے کہ شام کے آٹھ سے نو بجے کے درمیان کے 30منٹ چنے جائیں۔ روزمرہّ زندگی کے معمولات سے فارغ ہوکر زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر حکومتی سربراہ کے خطاب کو غور سے سن پائیں۔

ٹی وی چینلوں کے فروغ کے بعد شام سات سے آٹھ بجے کے درمیان لمحات کو ترجیح دینے کی روایت متعارف ہوئی۔ اس کی بدولت رات بارہ بجے تک جاری ٹاک شوزکے اینکر خواتین وحضرات ’’قوم سے خطاب‘‘ کے دوران اٹھائے موضوع پر توجہ دینے کو مجبور ہوئے۔ ٹاک شوز کی ’’افادیت‘‘ نے بتدریج ایسے خطاب کے لئے شام کے ساڑھے چھ بجے کو بہتر وقت قرار دیا۔

ساڑھے پانچ کے انتخاب نے مجھے سوچنے کو مجبور کیا ۔ دو کے ساتھ دو کو جمع کرکے چار نکالنے والی منطق استعمال کرتے ہوئے میں نے اپنی سہولت کے لئے یہ فرض کرلیا کہ وزیر اعظم صاحب نے فرانس میں پیر کے روز ہونے والی ٹرمپ-مودی ملاقات کے اختتام کے فوری بعد قوم سے خطاب کرنے کا ارادہ باندھا ہے۔

ہمارے کئی جید صحافی جنہیں ریاستی ایوانوں تک مؤثر رسائی حاصل ہے گزشتہ چند دنوں سے اپنے کالموں، ٹی وی شوز اور ٹویٹس کے ذریعے ہمیں یہ امید دلارہے تھے کہ کشمیر کے بارے میں ’’اچھی خبریں‘‘ آنے والی ہیں۔’’ذرائع‘‘ کی بدولت انہیں غالباََ بتایا گیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران امریکی صدر مقبوضہ کشمیر میں 5اگست سے مسلط ہوئے لاک ڈائون کے بارے میں تشویش کا اظہار کرے گا۔ نریندرمودی سے یہ وعدہ کروایا جائے گا کہ وہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی خاطر تھوڑی نرمی دکھائے۔

ذاتی طورپر میرا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ موجودہ امریکی صدر ’’انسانی حقوق‘‘ نامی کسی شے سے واقف ہی نہیں۔اپنے ہی ملک کے صحافیوں کو ’’عوام دشمن‘‘ قرار دیتا ہے۔امریکی کانگریس کے لئے باقاعدہ منتخب ہوئی دو مسلم خواتین کو اسرائیل کا ویزا ملنے پر ناراض ہوجاتا ہے۔اپنے جلسوں میں ان کے خلاف Go Backیعنی اپنے (آبائی) ملک واپس جائو کے نعرے لگواتا ہے۔ میں اس سے مقبوضہ کشمیر میں ’’انسانی حقوق‘‘ کی پائمالی کے بارے میں فکرمندی کی ہرگز امید نہیں رکھتا۔

سفارت کاری کے تقاضوں کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے البتہ میں نے اس حقیقت کو ذہن میں رکھا کہ ڈونلڈٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کو بے چین ہے۔اسے گماں ہے کہ اٹھارہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کا بندوبست اسے 2020کا صدارتی انتخاب جیتنے میں بے پناہ آسانی فراہم کرے گا۔ٹرمپ پاکستان کی بھرپور معاونت کے بغیر افغانستان میں اپنی پسند کا امن قائم ہوتا دکھا ہی نہیں سکتا۔مودی سرکار نے مگر 5اگست کے روز بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ اس کے خلاف احتجاج کو روکنے کے لئے وادیٔ کشمیر کو ایک وسیع وعریض جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ پاکستان کشمیریوں پر مسلط ہوئے عذاب کو نظرانداز کرہی نہیں سکتا۔ ہماری ’’شہ رگ‘‘ کو جبر کے دبائو میںرکھتے ہوئے اس توجہ کی امید نہ باندھی جائے جو امریکہ کو افغانستان کے ضمن میں ہم سے درکار ہے۔

خالصتاََ افغانستان سے جڑے حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ باور کرنے کو مجبور ہوگیا کہ مودی کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران امریکی صدر مقبوضہ کشمیر کے ضمن میں ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی درخواست کرے گا۔مودی نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس وعدہ نہ بھی کیا تو ٹرمپ کی جانب سے کشمیر کا بھرپور انداز میں ذکر ہماری سفارتی کامیابی تصور ہوگا۔ غالباََ اسی کامیابی کی امید میں عمران خان صاحب کے قوم سے خطاب کے لئے ساڑھے پانچ بجے کا وقت متعین ہوا۔

پیر کی سہ پہر بالآخر مودی-ٹرمپ ملاقات ہوگئی۔ 45منٹ تک جاری رہی اس ملاقات کے اختتام پر ہمیں ٹرمپ کے منہ سے وہ الفاظ سننے کو ہرگز نہیں ملے جن کی ہمیں امید تھی۔ اس نے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کا باہمی قضیہ قرار دیا اور اطلاع یہ بھی دی کہ بھارتی وزیر اعظم نے اسے بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات اس کے ’’کنٹرول ‘‘ میں ہیں۔

امریکی صدر کے بائیں ہاتھ بیٹھے نریندرمودی نے ہندی زبان میں سوالات کے جواب دئیے۔ ایسا کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے یہ حقیقت بھی رعونت سے نظرانداز کردی کہ وہ جو بات کررہا ہے اسے ترجمہ کے ذریعے ٹرمپ کے کان تک نہیں پہنچایا جارہا۔اس کی ہندی سے پریشان ہوکر ٹرمپ نے برجستہ فقرہ کسا کہ He Speaks Very Good English۔مودی بجائے شرمسار ہونے کے اس فقرے سے بہت خوش ہوا۔ٹرمپ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس پر دوستانہ چپت لگائی۔اس چپت کی بدولت ٹرمپ اور مودی محلے کے کسی تھڑے پر بیٹھے ’’جگری یار‘‘ نظر آئے۔بھارتی وزیر اعظم نے امریکی صدر کے ساتھ اپنی بے تکلفی کو پنجابی زبان والے ’’شوہدوں‘‘ کی طرح آشکار کیا۔ اس کی سینہ پھیلائی اِتراہٹ دیدنی تھی۔ میں اسے دیکھ کر پریشان ہوگیا۔

میرے دل خوش فہم نے اس کے باوجود یہ امید باندھ لی کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب اپنی تقریر میں مودی-ٹرمپ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے 22جولائی کو وائٹ ہائوس میں ہواثالثی کا وعدہ ضرور یاد دلائیں گے۔

گزشتہ 20دنوں سے میں نے ایک لمحے کو بھی ٹی وی نہیں دیکھا تھا۔ مودی-ٹرمپ ملاقات کا احوال اپنے سمارٹ فون کی بدولت دیکھنے کے بعد ریموٹ اٹھانے کو مجبور ہوگیا۔عمران خان صاحب کے خطاب کو اپنے کمرے میں تنہا بیٹھے ہوئے بہت توجہ سے سنا۔مزید مایوسی ہوئی۔جی واقعتا گھبراگیا۔

بنیادی پیغام مجھے یہ ملاہے کہ کشمیریوں پر مسلط ہوئی اذیت کے ازالے کے لئے ہمیں ستمبر کی 27تاریخ تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس روز ہمارے وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ان سے ایک روز قبل وہاںمودی کی تقریر ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی تقاریر کے بعد مگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات کے بارے میں پیش ہوئی کسی قرارداد کی ووٹنگ کے ذریعے منظوری نہیں ہوناہے۔ محض تقاریر ہوں گی۔

کشمیریوں پر نازل ہوئے عذاب میں فی الحال کمی فقط امریکی دبائو کی بدولت ہی لائی جاسکتی تھی۔ٹرمپ کے پاس ہر صورت یہ قوت موجود ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی معاونت کو یقینی بنانے کے لئے بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کم از کم ’’لاک ڈائون‘‘ میں تھوڑی نرمی لائے۔ کشمیر میں زندگی ذرا ’’معمول‘‘ کے مطابق ڈھلتی نظر آئے۔ چند ہنگامے بھی ہوجائیں۔ احتجاجی مظاہرے کسی صورت جاری رہیں تو امریکی دبائو کے تحت ستمبر کے مہینے میں مودی-عمران ملاقات کا بندوبست بھی ہوسکتا تھا۔

ٹرمپ نے مگر مودی کے اس دعویٰ پر اعتبار کرلیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات بھارت کے ’’قابو‘‘ میں ہیں۔ حالات پر اگر نئی دہلی کا کنٹرول ’’برقرار‘‘ ہے ۔ وہ قابو سے باہر جاتے نظر نہیں آرہے تو ٹرمپ اس ممکنہ ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ 5اگست والے بھارتی اقدام کو بلکہ بآسانی ہضم کرلے گا۔پاکستان کو بھی ’’حقیقت پسند‘‘ رویہ اختیار کرنے کو مجبور کیا جائے گا۔

وطنِ عزیز کے بے شمار ’’حقیقت پسند‘‘مفکرین بہت تواتر سے ان دنوں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کا ذکر فرمارہے ہیں۔اس کی روشنی میں جنگ سے گریز کی تلقین ہورہی ہے۔ ’’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ والا مصرعہ بھلادیا گیا ہے۔ FATFکی جانب سے لہرائی تلوار کے تذکرے بھی ہیں۔’’وقت اچھابھی آئے گا‘‘کی امید دلاتے ہوئے ’’غم نہ کرزندگی پڑی ہے ابھی‘‘ والا ماحول بنایا جارہا ہے۔

حالات سے بہت مایوس ہوا میں بدنصیب خود کو فی الوقت عمران خان صاحب کے خطاب پر غیر جانب دارانہ تجزیے کے قابل محسوس نہیں کررہا۔ صرف یہ حقیقت یاد دلاتے ہوئے یہ کالم ختم کرنا ہوگا کہ بوسنیا کی آزادی’’بین الاقوامی رائے عامہ‘‘ کی بدولت نہیں ہوئی تھی۔ ہمارے وزیر اعظم یہ بات فراموش کرگئے کہ امریکہ کا ایک کلنٹن نامی صدر ہوا کرتا تھا۔اس نے سربیا کی نسل پرست حکومت کو فضائی بمباری کا نشانہ بناتے ہوئے بندے کا پتر بننے کو مجبور کیا تھا۔