ﻋﯿﺪ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﺁﻣﺪ ﺗﮭﯽ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ . ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﻮﭦ ﭘﮩﻨﮯ ﭨﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ . ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ . ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﮌﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ . ﺟﻮ ﺑﮑﺮﺍ ﮐﭽﮫ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻡ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮐﻮ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ . ﺩﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺪ ﺗﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺑﮑﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮐﻢ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﻠﮯ ﮨﻮﮞ . ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮑﺮﺍ ﭘﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ ﻣﻼ . ﺍﺑﮭﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻟﯽ ﻗﻄﺎﺭ ﺁﺩﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﺁﺝ ﻧﻤﭩﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﮭﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮑﺎﻥ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﮍﮬﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﮑﺌﯽ ﮐﮯ ﺳﭩﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ . ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﮯ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ . ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﻮﻻ . ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺭﮐﮯ، ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﯿﺎ، ﺑﮑﺮﺍ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ . ﺩﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺗﮭﮯ ... ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﺑﻮ ﻻ ﻧﮩﯿﮟ . ﮐﭽﮫ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ . ﺍﺏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭽﮯ ﮔﺎ .... ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺲ ﺍﺱ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ...... ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮔﺪﮬﺎ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ .... ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪ ﺩﻭ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮑﺮﺍ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ... ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ .... ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﺪﮬﺎ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺎﺕ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ... ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﮔﺪﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﭩﺎ ﺑﮑﺮﺍ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .. ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮯ، ﺭﺳﯽ ﺗﮭﺎﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﺩﯾﮯ ...... ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺁﮔﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﮍﮮ ﺗﻮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺋﺐ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺪﮬﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ، ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ....... ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ... ﮔﺪﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺠﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ . ﻭﮨﺎﮞ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﺎ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ .. ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ ... ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ .. ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ .. ﺍﮔﺮ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺑﮑﺮﺍ، ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ
..........................................
ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایکہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہاکہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔
اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہاکہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔
........................................................................