ہفتہ، 26 ستمبر، 2015

ٹوٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید اسپیشل


ﻋﯿﺪ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﺁﻣﺪ ﺗﮭﯽ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ . ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﻮﭦ ﭘﮩﻨﮯ ﭨﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ . ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ . ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﮌﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ . ﺟﻮ ﺑﮑﺮﺍ ﮐﭽﮫ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻡ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮐﻮ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ . ﺩﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺪ ﺗﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺑﮑﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮐﻢ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﻠﮯ ﮨﻮﮞ . ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮑﺮﺍ ﭘﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ ﻣﻼ . ﺍﺑﮭﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻟﯽ ﻗﻄﺎﺭ ﺁﺩﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﺁﺝ ﻧﻤﭩﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﮭﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮑﺎﻥ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﮍﮬﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﮑﺌﯽ ﮐﮯ ﺳﭩﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ . ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﮯ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ . ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﻮﻻ . ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺭﮐﮯ، ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﯿﺎ، ﺑﮑﺮﺍ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ . ﺩﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺗﮭﮯ ... ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﺑﻮ ﻻ ﻧﮩﯿﮟ . ﮐﭽﮫ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ . ﺍﺏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭽﮯ ﮔﺎ .... ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺲ ﺍﺱ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ...... ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮔﺪﮬﺎ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ .... ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪ ﺩﻭ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮑﺮﺍ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ... ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ .... ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﺪﮬﺎ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺎﺕ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ... ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﮔﺪﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﭩﺎ ﺑﮑﺮﺍ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .. ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮯ، ﺭﺳﯽ ﺗﮭﺎﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﺩﯾﮯ ...... ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺁﮔﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﮍﮮ ﺗﻮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺋﺐ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺪﮬﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ، ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ....... ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ... ﮔﺪﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺠﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ . ﻭﮨﺎﮞ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﺎ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ .. ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ ... ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ .. ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ .. ﺍﮔﺮ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺑﮑﺮﺍ، ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ 

..........................................
ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایکہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہاکہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔
اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے 
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہاکہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔

........................................................................


میں نے اپنے اُردو کے لیکچرار دوست کو فون کرکےآفس بلا یا اور پرجوش آواز میں کہا’اُردو لکھنا پڑھنا جانتے ہو؟وہ غصے سے مجھے گھورنے لگا‘میں نے طنزیہ لہجے میں سوال دوبارہ دہرایا‘وہ غرایا’’کیا یہی مذاق کرنے کے لیے بلایا ہے؟میں نے قہقہہ لگایا’نہیں جانی!بس آج تمہاری اردو کا امتحان لینا ہے‘بولو کتنے کی شرط لگاتے ہو؟اس نے دانت پیسے’شرط لگانا حرام ہے‘اب کی بار میں نے اسے گھورا’اگر میں ثابت کردوں کہ .شرط. حرام نہیں تو؟اس کی آنکھیں پھیل گئیں’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کرو ثابت‘میں نے اطمینان سے کہا’’ کیا نماز کے لیے وضو شرط نہیں‘کیا شادی کے لیے نکاح شرط نہیں؟میری دلیل سنتے ہی اُس نے پہلے اپنے بال نوچے پھر میز پر پڑا پیپر ویٹ اٹھا کر میرے سر پر دے مارا لیکن میں چوکنا تھا لہذا اس کا نشانہ خطا گیا’چلو اگر تمہیں شرط منظور نہیں تو شرط کا نام انعام رکھ لیتے ہیں‘کچھ بحث و تمہید کے بعد یہ تجویز اسکو پسند آگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری جیب میں اب رقم آنے والی ہے۔طے پایا کہ اگر اس نے اُردو بوجھ لی تو میں اُسے ہزار روپے دوں گا اور اگر وہ ناکام رہا تو اُسے ہزار روپے دینا ہوں گے۔اسکو یقین تھا کہ وہ یہ مقابلہ ہار ہی نہیں سکتا کیونکہ اُردو سے اس کا بڑا پرانا تعلق ہے اور وہ اِس زبان کا ماہر ہے۔میں نے سرہلایا اور پوچھا’کھاتہ ترتیبات‘‘ کسے کہتے ہیں؟اسکا رنگ اُڑ گیا’’کیا کہا؟ پھر سے کہنا‘میں نے اطمینان سے دوبارہ کہا’کھاتہ ترتیبات‘وہ سرکھجانے لگا‘ میں مزے سے سیٹی بجارہا تھا‘اس کی طرف سے جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے اطمینان سے کہا’’بیٹا اس کا مطلب ہے Account Settings ۔چلواب یہ بتاؤ’رازداری رسائی‘‘ کسے کہتے ہیں؟وہ مزید ہڑبڑا گیا۔یہ کون سی زبان بول رہے ہو؟میں مسکرایا’’بیٹا یہ اُردو ہے‘ خالص اُردو‘اس کا مطلب بھی سن لو‘اس کا ترجمہ ہے ''Privacy settings'' اب بتاؤ کہ’’ربط کا اشتراک‘ کیا ہوتا ہے؟اُس کے پسینے چھوٹ گئے‘ ہکلاکر بولا’’نہیں پتا‘میں نے میز بجایا’’میرے پیارے اس کا مطلب ہوتاہے Share link ۔وہ بے بسی سے اپنی ہتھیلیاں مسلنے لگا۔ میں نے سگریٹ سلگا کر ایک کش لگایا اور آگے کو جھکتے ہوئے پوچھا’’فیس بک استعمال کرنا جانتے ہو؟وہ اچھل پڑا’’کیا مطلب؟ تم جانتے تو ہو کہ میں چار سال سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں ‘ میں نے دھواں اس کے منہ پر پھینکا’’اچھاتو پھر یہ بتاؤ آخری دفعہ تم نے’تجدید کیفیت‘کب کیا تھا؟اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور دھاڑ کر بولا’’میں کوئی تمہاری طرح بے غیرت نہیں‘ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا‘‘میں نے حیرت سے پوچھا’’کون سا کام؟وہ گرجا’’یہی جو تم پوچھ رہے ہو‘‘میں نے قہقہہ لگایا’’ابے یہ Status Update کی اُردو ہوتی ہے.اچھایہ بتاؤ تمہارے کتنے’پیروکار‘ہیں؟یہ سنتے ہی اُس نے مجھے گردن سے دبوچ لیا’’کیا بکواس کر رہے ہو میں کوئی پیر بابا ہوں‘میرے کہاں سے پیروکار آگئے؟میری چیخ نکل گئی‘ میں نے بمشکل اپنی گردن چھڑائی اور دو قدم دور ہٹ کر چلایا’’کمینے ! پیروکار سے مراد’Followers ‘‘ ہوتے ہیں۔ایک موقع اور دیتا ہوں‘ بتاؤ جب تم فیس بک پر کوئی تصویر لگاتے ہو تو اسے کسی سے’’منسلک‘‘ کرتے ہو؟کبھی تمہیں’’معاونت تختہ‘‘کی ضرورت پیش آئی؟تم’مجوزہ صفحات‘‘ کھولتے ہو؟تم نے کبھی اپنی ’’معلومات کی تجدید‘‘ کی؟کبھی ’’اپنے’واقعات زندگی‘ کو’’عوامی‘‘ کرکے’’پھیلایا؟اسکے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہوگئے تھے‘ یوں لگ رہاتھا جیسے کچھ ہی دیر میں وہ خالق حقیقی سے جاملے گا۔اس نے میرے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے اپنے ناخن چبانے شروع کر دیے۔میں نے پراعتماد لہجے میں کہا۔تم ہار گئے ہو۔نکالوایک ہزار‘‘۔ اُس نے نفی میں سرہلادیا’’نہیں۔۔۔پہلے ثابت کرو کہ یہ اُردو کہیں استعمال بھی ہوتی ہے‘مجھے پتا تھا کہ وہ یہ سوال ضرور کرے گا لہذا اطمینان سے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر فیصل کے سامنے کردیا جہاںTagکی اردو ’’منسلک‘‘ لکھی تھی۔Support Dashboard کو ’’معاونت تختہ‘‘ لکھا ہوا تھا‘ Recommended Pages کا ترجمہ ’’مجوزہ صفحات‘‘ کیا گیا تھا‘Life eventsسے مراد’’واقعاتِ زندگی‘‘ تھے اور Everyone کی اردو ’’عوامی‘‘ کی شکل میں دستیاب تھی۔ وہ کچھ دیر ہونقوں کی طرح میری ’’اُردو مارکہ فیس بک‘‘ دیکھتا رہا‘ پھر خاموشی سے پرس نکالا‘ پانچ پانچ سو کے دو نوٹ نکال کر میری ٹیبل پر رکھے ‘ اپنے آپ کو ایک عجیب و غریب سائنسی قسم کی گالی دی اور تیزی سے باہر نکل گیا ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اب تک اردو ہماری قومی زبان تو نہ بن سکی لیکن فیس بک کی زبان ضرور بن گئی ہے تاہم فیس بک والے ’’واجب القتل‘‘ قرار دے دینے چاہئیں جنہوں نے ابھی تک بے شمار الفاظ کا اردو ترجمہ نہیں کیا‘ مثلاً ٹائم لائن‘ ای میل‘ پاس ورڈ‘ سرچ انجن‘ پروفائل‘ فیس بک‘ کوکیز‘ایپلی کیشنز‘موبائل‘ لاگ اِن اور لاگ آؤٹ جیسے بدیسی الفاظ تاحال یہاں موجود ہیں حالانکہ ان کا ترجمہ انتہائی آسان ہے ‘ میری رائے میں ‘ Facebook کو ’’متشکل کتاب‘۔Timeline کو’’وقت کی لکیر‘۔Emailکو’’برقی چٹھی‘۔Password کو’’لفظی گذرگاہ‘۔Cookies کو’’چھان بورا‘۔Application کو ’’عرضی‘۔ Mobile کو’’گشتی‘‘ ۔Search Engine کو ’’مشینی تلاشی‘۔Video کو ’’متحرک تصاویر‘۔ Profileکو ’’شخصی ڈھانچہ‘۔ Log out کو ’’خروج‘‘ اورLogin کو ’’دخول‘‘ کردینا چاہیے۔
اردو کی ترویج و ترقی کے لیے انگریزی کو بے لباس کرنا بہت ضروری ہے.

...................................................................................
ایک لڑکے نے انتہائی خوشی سے اپنی ماں کو کہا:امی! مجھے ایک لڑکی سے پیار ہوگیا ہے اور میں اب شادی کرنے والا ہوں۔کل میں تین لڑکیوں کے ساتھ آؤنگا اور آپ کو ان میں سے پتہ کرنا ہے کہ وہ ایک لڑکی کون ہے جس سے میں شادی کرنے والا ہوں!اگلے دن وہ تین خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ گھر آیا ، تینوں نے تھوڑی تھوڑی دیر اسکی ماں کے ساتھ وقت بِتایا۔آخر میں اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اب بتائیں کہ میں کس لڑکی سے شادی کرنے والا ہوں؟اسکی ماں نے فوراً کہا کہ وہ لڑکی جس نے نیلا لباس پہنا ہوا ہے۔بچے نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ امی آپ کو کیسے معلوم ہوا؟اسکی ماں بولی:.....کیونکہ وہی لڑکی مجھے زہر لگ رہی ہے۔