جمعرات، 24 ستمبر، 2015

پتھر روتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تعارف


اردو میں افسانچہ کی روایت باضابطہ طور پر سعادت حسن منٹو سے شروع ہوتی ہے۔ جوگندر پال نے اس صنف کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ خواجہ احمد عباس، رام لعل، بشیشر پردیپ، ش مظفر پوری، رتن سنگھ، عطیہ پروین، الیاس احمد گدی، انجم عثمانی، عظیم راہی، نذیر فتح پوری، مناظر عاشق ہرگانوی اور درجنوں افسانہ نگاروں نے افسانچے لکھے ہیں۔ 

ایک نیانام جوافسانچہ کے ادب میں اس وقت روشناس ہوا ہے وہ محمد نعیم یادؔ (جوہرآباد،ضلع خوشاب) کا ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان قلمکار ہیں جوگزشتہ کچھ عرصے سے، خاموشی کے ساتھ اپنی ذاتی لگن اور دلچسپی سے افسانچے پہ کام کررہے ہیں۔ستمبر 2014ء میں جب ان کاپہلاافسانچوی مجموعہ’’اک خواب جو ٹوٹ گیا‘‘کے عنوان سے منظرِعام پہ آیاتو اسے نہ صرف پاکستان کے ادبی حلقوں میں بلکہ پڑوسی ملک بھارت کے ادبی حلقوں میں بھی خوب پذیرائی ملی۔افسانچوں کے اس مجموعے میں کل ۸۰ افسانچے شامل تھے۔ایک سال سے کم دورانیہ میں افسانچوں اورافسانوں پرمشتمل ان کادوسرامجموعہ ’’پتھرروتے ہیں‘‘کے عنوان سے بھی شائع ہوچکا ہے۔ان افسانچوں میں اسلوب و تکنک کی جدت کے ساتھ موضوعات کا زبردست تنوع ملتا ہے۔ خاص طور سے طبقاتی ، کشمکش ، عریبی ، ناداری اور افلاس سے پیدا ہوئے مسائل پر بڑے خوبصورت افسانچے ملتے ہیں۔