اتوار، 1 نومبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ دوم)

محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی

محمد خان آف ڈھرنال


کچھ عرصہ امن سے گزر گیا محمد خان دنگے فساد سے دور پر سکون زندگی گزارنے کی جدوجہدمیں مگن تھا کہ حالات نے کروٹ لی سکندر مرزا کو ہٹا کر محمد ایوب خان بر سر اقتدا آ چکے تھے اکتوبر 1958ء کو جب فیلڈ مارشل ایوب خان کر سی اقتدار پر بیٹھے تو ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان بن گئے وقت کا گھوڑا مخصوص رفتار سے دوڑتا رہا کہ مئی 1959ء کی ایک رات ڈھرنال کی زمین انسانی خون سے سرخ ہو ئی اس خوفناک اور لرز دینے والے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مولا بخش پارٹی نے حالات سے سبق سیکھنے کی بجائے انتقام لینے کا منصوبہ بنایا‘ محمد خان اپنے بھائی ہاشم خان کے ہمراہ گھر بیٹھا تھا 15 مئی کی رات کافی گرم تھی 9 بج چکے تھے اور دونوں بھائی کسی خاندانی مسلہ پر بات کر رہے تھے کہ اچانک مکان کے باہر سے کچھ لوگ پکانے لگے باہر نکلے بڑے سورمے بنے بیٹھے ہو باہر نکلو اس نے یہ آوازیں سنیں باہر جھانک کر دیکھا تو 30,40 افراد کے کا محاصرہ کیے کھڑے تھے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں محمد خان حالات کی نزاکت کو بھانپ گیا اس نے اس لڑائی کو ٹالنے کی بہت کوشش کی ہمسائیوں کے ذریعے انہیں کہلوایا کہ وہ واپس چلے جائیں اور خود ایک دیوار کی اوٹ سے بلند آواز سے انہیں کہا کہ وہ یہ خونی کھیل نہ کھیلیں وہ ابھی رہا ہو کر آیا ہے وہ خود بھی زندہ رہیں اور انہیں بھی زندہ رہنے دیں وہ رات کے 3 بجے تک یہی جدوجہد کرتا رہا کہ کسی طرح خطرہ ٹل جائے لیکن دشمن نے ان کوششوں کو کمزوری سمجھا اور بندوقوں کے منہ گولیاں اگلنے لگے انہوں نے دو اطراف سے فائرنگ شروع کر دی‘ وہ اس میں بری طرح پھنس گئے تھے کہ نہ گھر میں جان محفوظ تھی اور نہ باہر نکل کر کہیں چھپ سکتے تھے تنگ آمد یجنگ آمد کے مصداق جب کوئی چارہ کار نہ رہا تو رات کے پچھلے پہر محمد خان نے بھی دشمن کا مقابلہ کرنے کافیصلہ کیا بندوقین لیں اور دونوں بھائیوں نے گھر کے اندر مورچے سنبھال لئے‘ مخالف فریق دائیں اور بائیں جانب سے فائرنگ کر رہا تھا دائیں جانب محمد خان رائفل اور ڈھیر ساری گولیاں لے کر بیٹھ گیا اور بائیں جانب اس کا بھائی ہاشم خان ، وہ مکان کے اندر سے باہر کھڑے مسلح افراد کی ہر حرکت کو دیکھ سکتے تھے لیکن خود ان کی نگاہوں سے اوجھل تھے جب ان دونوں نے تاک تاک کر انہیں گولیاں سے بھوننا شروع کر دیا آن کی آن میں 9 افراد اسی جگہ مو ت کے گھاٹ اتر گئے 9 افراد نے ان کی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا اور بہت سے خمی ہوئے یہ دیکھ کر باقی لوگوں میں بھگدڑ مچ گئیں اور وہ بدحو اسی میں جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے‘ گھر کے باہر گلی میں 9 افراد کی لاشیں بے گورو کفن پڑی تھیں اور زمین گرم خون سے سرخ ہوگئی تھی‘ سارے گاؤں میں بھونچال آ گیا اس گاؤں مں کیا کسی بھی جگہ ایک وقت میں اتنے قتل ہوئے ہوں‘ ڈھرنال گاؤں کے بچے اپنی ماؤں کی چھاتیوں سے چمٹ گئے تھے نولاشیں خون اور مٹی لت پت ساری رات گلی میں پڑی رہیں‘ محمد خان اور ہاشم خان گھر کے مورچوں میں بیٹھے رہے اتفاق کی بات ہے کہ انہیں ایک چھرا تک بھی نہیں لگا شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ گھر کے اندر مورچہ بند تھے اور دشمن گھر کے باہر وہ دونوں دشمن کی ہر حرکت کو نوٹ کررہے تھے جبکہ دشمن انہیں اندھیرے کے باعث دیکھ بھی نہیں سکتا تھا‘ انہیں یہ تو پتا چل گیا تھا کہ گولیاں کس سمت سے آرہی ہیں لیکن وہ ان کی گولیوں کی زد سے باہر تھے صبح ہوئی تو وہاں ایک کہرام برپا تھا کہ آج تک گاؤں میں اتنا بڑا تصادم نہیں ہوا تھا ڈھرنال ایک طرح کا میدان جنگ بن گیا تھا دہشت اور خوف نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ محمد خان نے اپنے بندوں کو کہا کہ وہ خاک و خون میں لوٹتے زخمیوں کو تلہ گنگ کے ہسپتال میں پہنچا دیں اب وہ ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھے‘ محمد خان نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ملتان میں بڑے بھائی رن باز خان کو اس حادثہ کی اطلاع کردی‘ وہ 14مئی کی شام ڈھرنال پہنچ گیا اس روز تلہ گنگ کا انسپکٹر سید مرتضیٰ شاہ پولیس کی بھاری نفری لے کر گاؤں جائے وقوعہ پر پہنچ گیا یہ انسپکٹر مقتولین کا رشتہ دار اور پیر صاحب کا خاص آدمی تھا اس نے سر سری تفتیش کے بعد جو کیس تیار کیا اس میں مخالف فریق کے بے قصور قرار دیتے ہوئے حادثہ کی تمام تر ذمہ داری نہ صرف دونوں بھائیوں پر ڈال دی بلکہ ان افراد کو بھی قتل کیس میں ملوث کر لیا‘ جو موقع پر موجود نہیں تھے‘ انصاف کی آنکھوں میں ریت بھر جائے مفادات کی افیون دے کر ضمیروں کو موت کی نیند سلا دیا جائے تو انسانی جسموں میں روحیں مر جاتی ہیں اخلاق کا جنازہ نکل جاتا ہے‘ اسے ابتداء ہی سے معاشرتی ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ جھوٹے مقدمات میں الجھایا گیا ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا اور اس مرتبہ تو ظلم و زیادتی کی حد کر دی گئی قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ انصاف کے منہ پر تھپڑ رسید کئے گئے آپ حیران ہوں گے اس کوڑھی نظام میں زخم کس طرح ناسور بن جاتے ہیں ایک شریف انسان کس طرح ڈاکو بنا دیا جاتا ہے اس سے چل جائے گا کہ پولیس نے محمد خان کے بہنوئی ملک علی خان جو حضرہ میں سکول ہیڈ ماسٹر تھے اور ڈیوٹی پر حاضر تھے انہیں بھی مقدمہ میں دھر لیا یاد رہے حضرہ گاؤں سے 133 میل دور ہے یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ ملک علی خان لڑائی کے دن ڈیوٹی پر حاضر تھے‘ بڑے بھائی رن باز خان کو اس نے خود تصادم کی اطلاع دے کر بلوایا اور وہ اسی شام گھر آئے تھے پولیس نے انہیں بھی 302 چالان کر دیا اس کے علاوہ انکا ایک نوکر محمد عارف کو بھی قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا حتیٰ کہ بہنوئی کے بھائی محمدصادق بھی پولیس کے ظلم کا نشانہ بن گئے۔ اس مجرمانہ حمایت پر ان کی پولیس انسپکٹر کے ساتھ جھڑپ ہو گئی اور انہوں نے اپنی گرفتاری نہیں دی ان کا موقف تھا کہ قتل میں ملوث افراد کو ہی پکڑا جائے جو بے گناہ ہیں انہیں مقدمے میں نہ الجھایا جائے اس نے کھلے بندوں قتل کا اعتراف کر لیا لیکن پولیس انسپکٹر اپنی ضد پر ڈٹا رہا اس نے محمد خان اس کے بھائی ہاشم خان کے علاوہ بڑے بھائی رن باز خان‘ محمد عارف‘ ماسٹر علی خان‘ محمد صادق پر قتل کا نامزد پرچہ درج کر لیا اور انہیں گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا جبکہ مخالف پارٹی کے ایک شخص کو بھی ہتھکڑی نہیں پہنائی گئی حالانکہ انہوں نے گھر کا محاصرہ کیا تھا اور گھیرے میں لے کر انہیں مارنے کی کوشش کی تھی ان کی زبردست فائرنگ سے گھر کے درو دیوار پر گولیوں کے بے انتہاء نشانات موجودتھے دشمن فریق کی لاشیں ان گھر کے آگے پڑی تھیں اور جائے واردات کے سر سری معائنے میں ہی یہ بات ثابت ہو جاتی تھی کہ قصور مولابخش کے آدمیوں کا ہے اور اس قتل کے ذمہ دار وہ خود ہیں لیکن ظلم کی حد ہے کہ ان میں سے ایک آدمی بھی گرفتار نہیں کیا گیا یہ جانب داری کی انتہا تھی قانون شکنی اور بے ضمیری تھی پولیس محمد خان کیخلاف پارٹی بن گئی تھی اثر و رسوخ حرکت میں آچکا تھا ٹیلی فون کی کالیں گونج رہی تھی دولت اپنا جادو جگا رہی تھی ظالم مظلوم بن گئے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر محمد خان اور ہاشم خان مفرور ہو گئے اور بھاگ کر وادی سون کے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے کچھ عرصہ بعد اسکے بڑے بھائی رن باز خان کی فوج سے چٹھی آ گئی کہ وہ نوکری پر حاضر ہو جائے اب پولیس کی آنکھ کھلی اور انہیں مقدمہ سے ڈسچارج کر دیا گیا وہ ملتان ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے دیگر افراد کا چالان کر کے پولیس نے انہیں متعلقہ جیل بھیج دیا‘ کیمبل پور سیشن کورٹ میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی دو سال تک مقدمہ چلتا رہا حتیٰ کہ 1961ء کے سال نے زندگی کے صحنقدم رکھا اس کے بڑے بھائی ہر پیشی پر عدالت حاضر ہوتے تھے۔ کہ بے رحم وقت نے ظلم کا ایک اور باب کھول دیا‘ ہوایوں کہ سال

1961ء کا تھا رن باز خان مقدمہ پیشی کے لئے کیمبل پور کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھا جمعہ کا دن تھا وہ کیمبل پور کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے بعد مسجد سے نکل رہا تھاس کہ پیر صاحب کے بندوں نے رن باز خان پر اچانک فائرنگ کر دی رن باز اسی جگہ جان کی بازی ہار گیا‘ انسپکٹر پولیس مرتضیٰ شاہ ان دنوں ڈی ایس پی کیمبل پور تھا اس قتل کے تیسرے روز عدالت سے نو افراد قتل کیس میں گرفتار شدگان تمام افراد بری ہو گئے ان پر قتل ثابت نہ کیا جا سکا البتہ محمد خان اور ہاشم خان کو قتل کے کیس میں مفرور قرار دے دیا گیا دوسرے ہی روز اس کے بندوں نے پہاڑوں میں اس کے بھائی کے قتل کی اطلاع دی تو محمد خان کے دل بجلی سی گر گئی اسے شک تھا کہ مولا بخش کے آدمیوں نے اس کے بھائی رن باز خان کے خون سے ہاتھ رنگے ہو ں گے لیکن جب پتہ چلا کہ مرتضی شاہ نے یہ سازش تیار کی تو اس کے سینے میں شعلے بھڑک اٹھے اور دماغ انتقام کی آگ میں جلنے لگا وہ اور ہاشم خان مرتضیٰ شاہ سے اس قتل کا بدلہ لینے کی ترکیب سوچنے لگے کہ کسی طرح اسے ان کے اس ارادے کا پتہ چل گیا اس نے ایک دوست کے ذریعے پیغام بھیجا کہ رن باز کے قتل میں اس کا ہاتھ نہیں ہے ساتھ ہی اس نے قسم بھی دی کہ آئندہ وہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی بھی نہیں کرے گا‘ اس کے بعد انہوں نے اس کاپیچھا چھوڑ دیا اگر یہ نہ ہوتا تو وہ لازماً اسے کسی نہ کسی طرح موت کے گھاٹ اتار کر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرتے اور یہ بات مرتضیٰ شاہ بھی جانتا تھا کیونکہ ان دنوں ارد گرد تمام علاقوں میں محمد خان کی زبردست دہشت پھیلی ہوئی تھی اور لوگ اس کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے تھے 

ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار شخص کی داستان ہوشربا(حصہ اول)


اس کے نام کی پورے پاکستان میں زبردست دھوم ہی نہیں تھی بلکہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی ایک عرصہ تک اس شخص سے متعلق سنسنی غیر معاملات نشر کرتے رہے۔ اس شخص نے حکومت کے ہوتے ہوئے اپنی الگ حکومت قائم کر رکھی تھی وادی سون تحصیل چکوال تحصیل پنڈی گھیب اور تلہ گنگ میں صرف اس کا حکم چلتا تھا۔ ان علاقوں پر مشتمل اس نے اپنی ریاست بنا رکھی تھی۔ جس کا یہ بے تاج باد شاہ تھا عدالتیں قائم تھیں۔ سینکڑوں سپاہی اور ہزاروں کارندے تھے جن میں بیشتر مسلح ہوتے۔ علمائے کرام کی موجودگی میں باقاعدہ ملزموں کے مقدمات کی سماعت ہوتی۔ فیصلے سناتے جاتے اور موقعہ پر اپنے سامنے عمل در آمد کرایا جاتا۔ اخبارات میں اس شخص کو وادی سون کا بے تاج بادشاہ لکھا جاتا تھا اس کی دہشت اتنی زیادہ تھی کہ ایک طویل عرصہ تک سرگودہا سے راولپنڈی کو رات کے وقت بسیں نہیں چلتی تھی یہ اپنے دور کا نامی گرامی اور خطرناک ترین شخص محمد خان ڈاکو کے نام سے مشہور ہوا۔ اسے مختلف مقدمات میں پانچ بار سزائے موت اور ایک سو پچاس سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔

محمد خان ڈھرنالیہ ۔۔۔ تحریر و تحقیق محمد علی اسد بھٹی


ابتدائی حالات اور خاندان

l


ضلع اٹک تحصیل تلہ گنگ میں ڈھرنال نام کا موضع ہے جس کی آبادی یہاں زیادہ تر اعوان اور سید آباد ہیں۔ محمد خان کے داد فوج میں دفعہ دار تھے پہلی جنگ عظیم کے وقت اس کے والد ملک لال خان فوج کے شعبہ رسالہ میں ملازم تھے۔ جو ملازمت کے بعد زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے زرعی رقبہ کافی تھا اور بڑی خوشحالی سے زندگی بسر ہو رہی تھی اس کا گھرانہ کٹر دینی گھرانہ تھا ماں‘ باپ‘ بہن‘ بھائی سب نمازی پرہیز گار تھے وہ بھی بچپن سے نماز پڑھنے کا عادی تھا۔ ایک بہن اور پانچ بھائی تھے۔ ایک بہن اور تین بھائی محمدخان سے بڑے تھے جبکہ ایک چھوٹا تھا۔ بڑا بھائی رن باز خان فوج میں بٹالین حوالدار اور میجر تھا اور حافظ قرآن تھا ‘ اس سے چھوٹا علی خان‘ پھر ہاشم خان چوتھے درجے پر محمد خان اور اس سے چھوٹے بھائی کا نام محمد بشیر تھا۔ رن باز خان اور علی خان کو مخالف فریقین نے قتل کر دیا جبکہ محمد خان سے بڑا ہاشم خان 1963ء میں دوران مفرور طبعی موت مرا۔ اس کے تینوں بھائی فوج ملازم تھے۔ بڑے اطمینان سے وقت گزر رہا تھا۔ جب کہ 1940ء میں دوسری جنگ عظیم لگی تو اس وقت محمد خان کی عمر 14 سال تھی۔ اس کے چچا ملک اللہ یار خان ان دنوں یو پی میں تھے یہ سیون راجپوت یونٹ کے حوالدار تھے وہاں کھلی بھرتی ہو رہی تھی۔ محمد خان کو بھی فوج میں بھرتی ہو کر خدمات سر انجام دینے کا بہت شوق تھا اسی شوق کے حصول کی خاطر وہ اپنے چچا جان کے پاس یوپی چلا گیا اور فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے عہدے میں ایک درجہ ترقی ہو گئی اور 1947ء تک وہ وہیں رہا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ اٹھا ون پنجاب رجمنٹ
میں چلا گیا۔ اس کا زیادہ وقت کشمیر کے محاذ پر گزرا۔ 1950ء تک اسی محاذ پر رہا۔ محمد خان ایک ذمہ دار محب وطن سپاہی کی حیثیت سے نمایاں پوزیشن کا حامل تھا اس نے کبھی اپنے افسروں کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ زندگی کی شاہراہ پر سانسوں کا کارواں چل رہا تھا۔ محمد خان کے خاندان کے کسی کے ساتھ جدی پشتی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی اس کے خانادن میں کبھی لڑائی جھگڑا ہوا تھا۔ اس کے والد بھی بڑے مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے کسی قسم کا فکر اور غم نہیں تھا۔ 1950ء میں وہ دو ماہ کی چھٹی لے کر گھر آیا تو حالات کے بے رحم سائے اس کے سروں پر بھوکی چیلوں کی طرح منڈلانے لگے۔موضع ڈھرنال کے نمبردار ملک لال خان اور محمد خان کے بڑے بھائی ہاشم خان کی سیاسی دھڑے بندیوں کی وجہ سے آپس میں ان بن ہو گئی نمبردار جس دھڑے کی سپورٹ کرتا تھا ہاشم خان اس کے مخالف دھڑے کا حمایتی تھا اس وقت الیکشن کا معاملہ چل رہا تھا دونوں کو پکا کرنے کی مہم جاری تھی۔ ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت نمبردار کی پشت پناہی کررہی تھی۔ سردیوں کا موسم تھا رات کے 12 بج رہے تھے۔ محمد خان اپنے گھر والوں کے ہمراہ کسی بھی سازش سے بے نیاز اپنے گھر سو رہا تھا اس کی چھٹی ختم ہونے میں تین دن باقی تھے کہ نمبردار لال خان نے پولیس سے ساز باز کر کے ایک ڈرامہ کھیلا اس

نے اپنے تین آدمیوں کو لوڈ کی ہوئیں بندوقیں دیں اور ہدایت کی کہ وہ آدھی رات کے وقت اس کے گھرفائرنگ شروع کر دیں‘ وہ ایک بہت کھلی حویلی میں رہتا تھا جو گاؤں کے وسط میں واقع تھی ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا لوگ اپنے اپنے گھروں میں نیند کے مزے لوٹ رہے تھے آدھی رات ہوئی تو گولیاں چلنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں کوئی نہیں جانتا تھا کہ گولیاں کیوں چل رہی ہیں۔ صبح ہوئی تو ڈھرنال کے ملحقہ لاوہ میں محمد خان اور اس کے بھائی ہاشم خان پر 307 ارادہ قتل 392 ڈکیتی کانامزد پرچہ درج کر دیا گیا۔ کہانی یہ بنائی گئی کہ یہ دونوں بھائی مسلح ہو کر لال خان کے گھراسے قتل کرنے اور ڈاکہ ڈالنے گئے۔ لال خان ہاتھ نہ لگ سکا تو مال لوٹ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ اس من گھڑت کہانی نے محمد خان کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے یہ سراسر زیادتی اور ظلم تھا لیکن کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا پولیس نے موقع ملاحظہ کر کے ملزموں کی تلاش شروع کر دی۔ محمد خان کی چھٹی ختم ہو گئی تھی اور اسے ایبٹ آباد نوکری پر حاضر ہونا تھا اس نے بھائی ہاشم خان اور ایک دوست فتح شیر خان سے کہا کہ وہ چکوال ریلوے اسٹیشن پر اسے ریل میں سوار کرا آئیں‘ نمبردار لال خان نے چکوال کے تھانے دار کو جوا س کا کلاس فیلو تھا ان کی گرفتاری کا پیغام بھجوا دیا وہ پولیس کی بھاری نفری لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔وہ جونہی ریل میں سوار ہونے لگے پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا بعدازاں چکوال کی حوالات میں بند کر دیا اور تینوں کاچالان کر کے متعلقہ جیل بھیج دیا گیا۔ تھانے دار نے محمد خان پر رائفل‘ اس کے بھائی پر پستول اور فتح شیر خان پر برچھی کی جعلی برآمدگی ڈال دی حالانکہ وہ تینوں خالی ہاتھ تھے‘ محمد خان کرائے اور خرچے کیلئے گھر سے پانچ سو روپے لایا تھا پولیس نے اس رقم کو ڈاکے میں لوٹی ہوئی رقم قراردے کر برآمدگی ڈال دی اور انہیں کیمبل پور منتقل کر دیا گیا فرضی ڈاکے کی کہانی تو گھڑ لی گئی اور حویلی کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات بھی اس ڈرامے کی کڑی ثابت کئے گئے لیکن اس میں نہ حویلی کا کوئی تالہ ٹوٹا ‘ نہ کسی دروازے کو نقصان پہنچا۔حویلی کے اندر بندھے ہوئے ڈھور ڈنگر بھی محفوط رہے کسی شخص کو معمولی خراش بھی نہ آئی۔ لیکن اس

کے باوجود علاقے کی ایک معروف سیاسی شخصیت اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان پر ڈاکہ ثابت کر دیا گیا‘ مجسٹریٹ نصراللہ وڑائچ کی عدالت مں چھ ماہ مقدمہ چلا اور آخر اس کیس میں دونوں بھائی تین تین سال قید بامشقت کی سزا ہو گئی‘ اس موقع کا مدعی نمبردار ملک لال خان تھا جو بطور گواہ بھی عدالت میں پیش ہوا‘ دوسرا گواہ اس کی بیوی تھی اور اس کا ذاتی چوکیدار اور اس کے علاوہ کوئی وار گواہ عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا تھا‘ بہر حال تین سال کی سزائیں سے ڈیڑھ سال کی معافی مل گئی بقیہ ڈیڑھ سال سزا بھگت کر 1952ء میں دوبارہ رہا ہو کر جیل سے باہر آ گئے‘ اس دوران وہ کیمبل پور اور پنڈی جیل میں رہے‘ ابھی انہیں جیل سے رہا ہوئے چھ ماہ ہوئے تھے کہ نمبردار نے ایک خطر ناک منصوبہ بنایا‘ محمد خان کا خیال تھاکہ انہیں جھوٹے مقدمے میں سزا دلانے کے بعد ملک لال خان کے ضمیر میں خلش پیدا ہوگئی ہو اور اسے ظلم کا احساس لازماً ہو گا جو اس نے بے گناہ بھائیوں پر کیا تھا کیونکہ جن لوگوں کے ضمیر مردہ نہ ہوچکے ہیں‘ سینوں میں ایمان کی چنگاری سلک رہی ہو ان کی اپنی کی ہوئی زیادتیوں پر شرمندگی ضرور ہوتی ہے۔ وہ واقعتا یہی سوچ رہا تھاس کہ پیر مکھڈ شریف کے کہنے پر ملک امیر محمد خان کے حمایتی ہونے کی سزا جو انہیں دی جا رہی تھی یہ غلط سیاسی دشمنی ترک کر دی جائے گی کیونکہ ملک لال خان تو محض ایک پتلی تھا اس کی ڈوری بااثر سیاسی افراد کے ہاتھ میں تھی۔ ملک امیر محمد خان سابقہ گورنر مغربی پاکستان اور پیر مکھڈ شریف کی درینہ دشمنی چلی آرہی تھی پاکستان بننے سے قبل انگریز کے زمانے میں ملک امیر محمد خان نے اس کے والد لال باز شاہ کو قید کی سزا دلوائی تھی‘ اس کے دل میں یہ چھبن زخم بن کر محسوس ہوئی تھی ملک لال خان اس کا سیاسی حلیف تھا‘ دونوں ایک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جبکہ محمد خان کا خاندان ر‘ رشتہ دار اور دوست احباب ملک امیر محمد خان کے زبردست حامی تھے‘ ’’ محمد خان‘ ملک امیر محمد خان کو اپنے والد کا دجہ دیتا تھا ان کی بے انتہاہ عزت کرتا تھا پیر مکھڈ شریف کے سیاسی اثرر سوخ کو ختم کرنے کیلئے وہ سرگرم کا رکنوں کی طرح کام کرتے تھے یوں کہنا چاہیے کہ ملک امیر محمد خاں جس شخص کے بارے میں یہ خواہش

رکھتے کہ اس کی سیاسی حمایت کی جائے محمد خان اور اس کی برداری کی بنیاد پر بھی اور فرد افراد ابھی اس کے لئے کمر بستہ ہو جاتے تھے یہ بات مکھڈ شریف کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف تھی وہ بنفس نفیس تو ان کی مخالفت میں سامنے نہیں آتا تھا اپنے مہروں سے کام لیتا تھا‘ محمد خان نواز آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کو نیک سیرت بااصول اور نہایت روشن فکر انسان سمجھتا تھا‘ مقامی سیاست میں بہت کچھ ہوتا ہے بڑے پر خطر راستوں سے گزرنا پڑتا ہے‘ بعض اوقات یہی مقامی سیاست ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے والی ہوتی ہے پھر معاملہ جذباتی اور جذباتی اور نظریاتی وابستگی کا ہوتا ہے کوئی نہیں چاہتا اس کا اثر ختم ہورداں سکے کھوٹے بن جائیں کچھ لوگ تو یہاں تک گوارا نہیں کرتے کہ ان کے سامنے کوئی سر بھی اٹھا کر چلے‘ پیر مکھڈ شریف اور اسکے سیاسی حلیف محمد خان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسے راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی‘ محمد خان اور اس کا خاندان لڑائی جھگڑے سے دامن بچاتے رہے مگر ملک لال خان ان پر جھپٹتا رہا‘ محمد خان اور اس کا خاندان لڑائی جھگڑے سے دامن بچاتے رہے مگر ملک لال خان ان پر جھپٹتا رہا‘ محمد خان کو ابھی رہا ہوئے چھ ماہ ہوئے تھے‘ گرمیوں کے دن تھے اسکا بڑا بھائی ہاشم خان اکثر گر دے کے درد کی وجہ سے بیمار رہا کرتا تھا محمد خان اسے گاؤں کے قریب واقع ہسپتال میں دکھانے لے جایا کرتا اس کا حال یہ ہوگیا تھا کہ دوا کھاتا رہتا تو درد رکا رہتا ورنہ شدید تکلیف ہوا کرتی‘ اس لئے ہسپتال کے ڈاکٹر سے مسلسل رابطہ رکھنا پڑتا تھا ایک دن سخت گرمی تھی دوپہر کے دو بج چکے تھے‘ ہاشم خان کے گردے میں سخت تکلیف تھی محمد خان اس کو ساتھ لے کر اور ڈاکٹر سے دوا لینے کیلئے گھر سے پیدل گاؤں کے ہسپتال کی جانب جا رہے تھے ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ نمبردار کے تین آدمیوں نے ان کا راستہ روک لیا‘ انہیں کسی نے اطلاع کر دی تھی اور وہ ان کا راستہ روک کر بیٹھ گئے تھے جونہی وہ ان کے قریب سے آگے بڑھنے لگے تو ان تین آدمیوں نے انہیں للکارا‘ وہ اس وقت بالکل خالی ہاتھ تھے‘ اور ان کے ذہن میں قطعی ایسی کوئی بات نہیں دشمنی تو ضرور تھی البتہ یہ علم بھی نہیں تھا کہ ملک لال

ایسی گھٹیا حرکتوں پر اتر آئیگا اور بیماری کی حالت میں بھی ان پر حملہ کروا دے گا ان تینوں میں ایک سے جب ایک شخص چاقو پکڑے ہاشم خان پر جھپٹ پڑا تو محمد خان نے اسے منع کیا اس وقت وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ وہ اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلے تھے جب وہ باز نہ آیا تو محمد خان نے تیزی کے ساتھ اس کو پکڑ کر چاقو چھین لیا دوسرے دو افراد نے جب یہ دیکھا تو ان دونوں نے ان پر ڈنڈوں کی بارش کر دی‘ ہاشم خان گردے میں درد کی وجہ سے پہلے ہی نڈھال تھا وہ لڑ کھڑا کر ایک جانب گرنے لگا تو محمد خان نے اسے سنبھالا دیتے ہوئے ایک جانب کھڑاکر دیا خود جہان خان نامی شخص پر ٹوٹ پڑا‘ اس نے اسکی ٹانگوں اور رانوں پر تین چار چاقو پوری قوت سے مارے وہ زخمتی ہو کر اسی جگہ گر گیا جب گاؤں کے دوسرے افراد نے یہ لڑائی دیکھی تو انہوں نے بیچ بچاؤ کریا‘ وہاں سے گھر چلے گئے اس روز ان پر 307 ارادہ قتل کا نامزد پرچہ درج کروایا گیایہ محمد خان کے ساتھ زندگی میں ہونا والا دوسرا شدید ظلم تھا‘ ان راستہ مخالف پارٹی کے آدمیوں نے روکا اس نے لڑائی کو ٹالنے کیلئے ہزار جتن کئے حملہ انہوں نے ان پر کیا‘ وہ تو اپنے بھائی ہاشم خان کو ہسپتال لے کر جا رہا تھا لیکن ارادہ قتل کاپرچہ دونوں بھائیوں پر ہوگیا‘ محمد خان کو جب پتہ چلا تو اس نے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی اس وقت ہاشم خان گردے میں تکلیف کی وجہ فوج چھوڑ چکے تھے اور انہیں پنشن مل رہی تھی‘ اس کیس میں پولیس نے چالان کر کے انہیں جیل بھیج دیا‘ کیملپور کے مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا‘ دونوں بھائیوں کو تین تین سال قید بامشقت کی سزاہو گئی جبکہ مخالف فریق کا ایک شخض بھی قید نہیں ہوا اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور ہائی کورٹ نے انہیں باعزت طور پر بری کر دیا تین ماہ جیل میں رہنے کے بعد جب دونوں بھائی رہا ہوئے تو محمد خان کے ذہن میں نمبر دار ملک لال خان کے بارے میں ایک طوفان بپا تھا اس کے سینے میں نفرت کے الاؤد ہک رہے تھے‘ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ابھی انہیں گھر آئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ محمد خان کے بڑے بھائی رن باز خان بھی چھٹی آ گئے گاؤں کے عام لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب محمد خان اور ملک لال

خان کی کوئی بہت بڑی لڑائی ہو گی کہ اچانک حالات نے ایسا رخ بدلا کہ انہیں روایت اور صبر کے امتخان میں پورا اترنا پڑا‘ ہوا یوں کہ ملک لال خان گاؤں کے تین چار معززین کے ہمراہ محمد خان کے گھر آگیا اور اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرے گا ان کے ساتھ کئے ہوئے ظلم پر وہ سخت نادم ہوا‘ سب بھائی نے فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے معاف کر دیا اس کے بعد ان کے اور نمبردار کی مخالفت کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا۔گاؤں میں کسی اور کے ساتھ ان کی دشمنی نہیں تھی لال خان سے راضی نامہ ہو چکا تھا اب ان کا خیال تھا کہ اب وہ امن سکون سے رہ سکیں گے اور جو کچھ ہو چکا تھا اسے بھولنے کی کوشش کرنے لگے‘ پیر مکھڈ شریف کو یہ صلح ایک آنکھ نہ بھائی اس نے ان کے نانا کی پارٹی مولا بخش وغیرہ کو اکسایا‘ مولا بخش ننہال کے طرف سے محمد خان کا رشتہ دار تھا مگر اس سے دیرینہ چپقلش چلی آرہی تھی‘ پیر صاحب نے وقت کی راکھ میں دبی ہوئی دشمنی کی چنگاری کو ہوا دی کہ موضع ڈھرنال کی زمین انسانی خون سے رنگین ہونے لگ گئی اور ایک ایسی خوفناک خونی داستان لکھی جانے لگی جسے وقت کبھی فراموش نہیں کر سکے گا اور جسے پڑھتے بھی حساس دل بیٹھنے لگتے ہیں‘ محمد خان 1954 میں مولا بخش کے خاندان کی ایک لڑکی سے شادی ہوئی اس نے یہ شادی اپنے پسند کی تھی یہ لوگ نہ صرف اس شادی کے مخالف تھے بلکہ مولابخش کے خاندان کا ایک فرد بھی اس شادی میں شریک نہیں ہوا تھا انہیں یہ دکھ تھا کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ شادی کیوں ہوئی نانا سے اس خاندان کی پہلے ہی دشمنی تھی اس کی پسند کی شادی نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ محمد خان اور اس کے بھائیوں کے مخالف ہو گئے پیر صاحب کو اس کے بہتر موقع ہاتھ نہیں آ سکتا تھا اس نے مولابخش اور اس کے خاندان کو اتنا بھڑکا دیا کہ وہ ان کے خون کے پیاسے ہو گئے پیر مکھڈ شریف اور دوسرے مخالف سیاسی عناصر نے انہیں کہا کہ وہ دونوں بھائیوں ہاشم خان اور محمد خان قتل کر دیں اور یقین دلایا کہ انہیں نہ صرف کیس سے بری کروایا جائیگا بلکہ ہر طرح کی امداد بھی دی جائیگی پیر صاحب کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا‘ ابھی محمد خان کی شادی کو چار ماہ ہوئے تھے کہ 90

افراد کو ایک جگہ جمع کیا اس اکٹھ کیلئے اس نے یہ ڈرامہ کھیلا کہ اپنے خاندان میں فوری ایک شادی طے کروا دی جس میں اپنے خاص آدمیوں کو بھی مدعو کیا ان میں خاص سے خاص افراد کی ایک خفیہ میٹنگ بلا کر دونوں بھائیوں کے قتل کی سکیمیں تیار ہونے لگیں اس نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ انہیں اس منصوبے کا علم نہ ہو سکے کیونکہ گاؤں میں اگر عام حالات میں 80,90 افراد جمع کیا جائے تو لازمی محمد خان کو شبہ ہو جاتا یا ان کے بندوں کو اس کی سکیم کا پتہ چل جاتا شادی والے گھروں میں اجتماع ہوا ہی کرتے ہیں پھر اس نے یہ سب کچھ اتنی راز داری سے کیا کہ اس کے منصوبے کا قطعی قبل از وقت علم نہ ہو سکا اور انکے عزیز و اقارب میں سے کوئی اس شادی میں شریک نہیں تھاورنہ تھوڑی بہت بھنک کانوں میں ضرور پڑ جاتی کہ مولا بخش خطر ناک کھیل کھیلنے والا ہے روز صبح اپنے کھیتوں پر جانا محمد خان کا معمول تھا اس دوران و ہ ہسپتال کا بھی چکر کاٹاکرتا تھا اس کے ہاتھ میں صرف بید کی ایک چھڑی ہوا کرتی تھی کوئی ساتھی یا محافظ بھی ساتھ نہیں ہوتا اگرچہ لائسنس کا اسلحہ تو اس کے پاس موجود تھا مگر ذہن میں یہ بات ہی نہیں تھی کہ مولابخش اسے قتل کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے ظاہر ہے اس کا علم ہوتا تو وہ کبھی اکیلا اور نہتاصبح سیر کو نہ نکلا کرتا‘ اس نے فوج میں نوکری کی تھی اور وہ جانتا تھا کہ دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے لیکن یہاں تو مسئلہ ہی اور تھا اسے اپنے دشمن کی سن گن ہی نہیں تھی۔ وہ پسند کی شادی کرنے پر ان کی ناراضگی کو اچھی طرح جانتا تھا اور محتاط بھی رہا کرتا تھا البتہ یہ ہر گز نہیں جانتا تھا کہ پیر صاحب کے کہنے پر وہ اس کی جان لینے پر تل گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس روز بھی وہ حسب معمول صبح اٹھا ہاتھ میں بید کی چھڑی پکڑی اور تمام خطرات سے بے نیاز کھیتوں کی جانب نکل کھڑا ہوا‘ اس کا پھوپھی زاد بھائی فتح شیر اپنی زمینوں میں کام کر رہا تھا محمد خان اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا حقہ پیا دونوں بھائی گپیں ہانک رہے تھے کہ سامنے سے ایک شخص سخت بدحواسی کے عالم میں ان کی جانب دوڑ تا ہوا دکھائی دیا وہ اس کے قریب آیا اس کے چہرے کا رنگ اڑ اہوا تھا سینے میں سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اس شخص کو محمد خان کی ساس نے اطلاع کیلئے بھیجا کہ

کھیتوں سے واپسی پر وہ دوسرے راستے سے گھر آئے کیوں کہ کم و بیش 90 مسلح افراد نے اسے قتل کرنے کیلئے بڑے راستے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ محمد خان نے 1954ء کے آخری مہینے میں شادی کی تھی اور وہ 1955ء کا تیسرا مہینہ مارچ تھا علاقہ میں گندم کی فصل پک کر تیار کھڑی تھی زمینداروں کیلئے انتہائی مصروفیت کے دن ہوتے ہیں لیکن مولابخش کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی ابھی اس کی شادی کو چار ما ہ ہی ہوئے تھے کہ ان 90 دن مسلح افراد نے گاؤں کے عین وسط میں اسے گھیر لیا یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اتنے زیادہ لوگ کو اس کے قتل پر کیوں مامور کیا گیا ہے یہ ٹھیک ہے کہ وہ بچپن ہی سے نڈر‘ بے خوف‘ خطرات سے کھیلنے والے انسان تھا لیکن آج تک اس نے کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا تھا کہ لوگوں کے دلوں پر اس کی دھاک بیٹھ جاتی پھر مسلح آدمی بھی اس کے ساتھ نہیں ہوتے تھے حتیٰ کہ اپنی بندوق بھی پاس نہیں رکھتا تھا ممکن ہے انہوں نے اسے مار کر بلوے یا ڈاکے کا پروگرام بنا کر اس کے قتل پربری الذمہ ہونے کا سوچا ہو بہرحال یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی‘ اس نے اپنے پھوپھی زاد بھائی فتح محمد سے بھی اس کا ذکر کیا تھا کہ اگر یہ اعلان سچ ہے تو پھر وہ اس کی بوٹیاں نوچ کر کھا جائیں گے اور قتل کا سراغ تک نہیں ملے گا‘ فتح محمد اسی خدشے کے پیش نظر ایک برچھی لے کر اس کے ساتھ ہو لیا‘ محمد خان کا ذہن ابھی تک اس اطلاع پر یقین نہیں کر رہا تھا کیونکہ اتنی بڑی دشمنی تو کسی کے ساتھ نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ اس ن گھر کو آتے وقت دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ اسی راستے سے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ ہم اس کے دل کے کسی گوشے میں خوف کی ایک لہر ضرور موجود تھی وہ اور فتح خان بڑے محتاط انداز میں دائیں بائیں دیکھتے گھر کی جانب جارہے تھے جونہی گاؤں کے درمیان پہنچے تو چھڑیوں‘ کلہاڑیوں اور بندوقوں سے مسلح دس ‘ دس‘ پندرہ‘ پندرہ آدمی مختلف پوزیشنیں سنبھال کر چھپے بیٹھے تھے‘ انہوں نے اس کے گھر کے راستے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی تھی‘ اب اسے خطرے کا احساس ہوا مسلح افراد میں سے ایک شخص نے اسے للکارا وہ اسی جگہ رک گیا وہ ہاتھ میں برچھی پکڑے سیدھا محمد خان کی

جانب دوڑتا ہوا آیا اب محمد خان نہ پیچھے مڑ سکتا تھا نہ گھر جا سکتا تھا یہاں چھپنے کیلئے کوئی جگہ بھی نہیں تھی مخالف پارٹی کے آدمیوں نے تمام اطراف سے اسے گھیر رکھا تھا جب اس نے دیکھا کہ موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے تو اس کے ذہن نے برق رفتاری سے ایک فیصلہ کیا جب مرنا ہی تو بزدلوں کی طرح جان کیوں دی جائے زندگی کوئی تحفہ نہیں جو دوسروں کی جھولی میں ڈال دی جائے‘ چنانچہ اس نے فح محمد سے برچھی لے لی اور جونہی وہ شخص تیزی سے بھاگتا ہوا برچھی لہراتا آگے بڑھا اس نے برچھی مارنے کیلئے فضا میں بلند کیا ہی تھا کہ آنافانا محمد خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی برچھی اس ک سینے میں اتار دی‘ برچھی اس کے دل کوچیرتی ہوئے دوسری جانب نکل گئی اس شخص نے نام مہر خان تھا اور وہ مسلح افراد کا لیڈر تھا‘ خون کی ایک تیز دھار زمین کو سرخ کر گئی وہ زور دار چیخ کے ساتھ اسی جگہ ڈھیر ہوگیا۔ یہ محمد خان کی زندگی کا پہلا قتل تھا جو حفاظت خو د اختیاری کے تحت مجبوراً کیا گیا‘ مہر خان کے مرتے ہی شور برپا ہوا آس پاس چھے افراد شور و غل کرتے اور للکارتے ہوئے پاگلوں کی طرح محمد خان پر ٹوٹ پڑے اتنے سارے وگوں سے جان بچانا بہت مشکل تھا اس جگہ فوج کی ٹریننگ اس کے کام آئی جن لوگوں کے پاس بندوقیں تھی جب انہوں نے اس پر گولیوں کی بارش کر دی اور وہ زمین پر لیٹ گیا اور رینگتے ہوئے ایک جانب پناہ لینے کیلئے کہنیوں کے بل بھاگا لیکن وہ خود کو گولیوں کی زد سے محفوظ نہ کر سکا اس اثناء میں تین گولیاں سنسناتی ہوئی اس کی شلوار میں سوراخ کرتے ہؤے گزر گئیں اتفاق کی بات ہے کہ کوئی گولی اسے نہیں لگی حالات نے اس کی بہت مدد کی وہ اس طرح گلہاڑیوں اور برچھیوں والے ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ محمد خان ان کی اوٹ میں تھا اگر بندوق بردار اسے گولیوں کا نشانہ بنانا چاہتے تو ان کے اپنے آدمی ان کی فائرنگ کی زد میں آجاتے جب وہ ایک جانب کو ہونے لگتے تو وہ پیچھے مڑ کر ان کی برستی گولیوں کے آگے کر دیتااس حالت میں گولیوں سے بچتے بچتے وہ ایک رشتہ دار کے ڈیرے پر پہنچ گیا اور دروازہ بند کر کے ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا وہ مسلح افراد کلہاڑیاں فضا میں اچھالتے اور لگا تار فائرنگ کرتے

ہوئے ڈیرے پر آگئے اور انہوں نے مکان کو گھیرے میں لے لیا‘ پورے گاؤں میں قیامت کاسماں تھا‘ بچے‘ بوڑھے سب ڈر کے مارے گھروں میں چھپ گئے لوگوں ک دل حلق میں اٹک کر رہ گئے تھے‘ دن کے دس بچ چکے تھے انہوں نے مکان کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے پھر چند افراد چھت پر چڑھ گئے تاکہ چھت پھاڑ کر اندر داخل ہو سکیں جب وہ ایسا نہ کر سکے تو سب نے مل کر دروازے کو توڑ دیا‘‘ وہ دیوار سے لگ کر کھڑا تھا لگا تار فائرنگ ہو رہی تھی گولیاں اس کے سر کے اوپر سے ہوتی ہوئی سامنے بڑی دیوار میں لگ رہی تھیں وہ اس وقت جرات کرتے تو اندر داخل ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار سکتے تھے لیکن کسی کو اندر آنے کا حوصلہ نہ ہوا غالبا ان کا خیال تھا کہ اسکے پاس مہلک ہتھیار ہیں ان میں سے چند لوگوں نے کہیں سے سوکھی ہوئی جھاڑیاں منگوائیں انہیں دروازے کے ساتھ رکھ کر آگ لگانے کی کوشش کی وہ مکان کو آگ لگا کر اسے اندر جھلس کر دینا چاہتے تھے یہ تو خدا کا کرم ہوا کہ اسی روز تیسرا تھا انہیں کہیں سے نہ تیل مل سکا نہ ماچس ہی میسر آسکی‘ اس منصوبہ میں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے ایک اور چال چلی وہ یہ کہ ایک ادھیڑ عمر عورت مہر بھری کو مکان کے اندر جانے پر آمادہ کر لیا مہر بھری سے کہا گیا کہ وہ اندر جاتے ہی محمد خان کو پکڑے اور شور مچا دے پھر مشتعل ہجوم مکان میں داخل ہوکر محمد خان کو پکڑے گا اور کسی دوسری جگہ لے جا کر قتل کر دیا جائیگا‘ مہر بھری‘ مہر خان کی چچا زاد بہن اور اچھی عورت نہ تھی‘ ان کاخیال تھا کہ علاقے کے رواج کے مطابق محمد خان عورت پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور پکڑا جائیگا لیکن وہ ان کی چال کو تاڑ گیا جو نہی مہر بھری نے مکان کی دہلیز عبور کی محمد خان نے اسے برچھی مار کر موت کے گہری نیند سلا دیا جب ان کا یہ حربہ ناکام رہا تو ہجوم مزیدبپھر گیا‘ اس اثناء میں محمد خان کے بھائی ہاشم کو حالات کا پتہ چل گیا اوروہ اسی وقت بہت سے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ پر پہنچ گئے دونوں طرف سے زبردست فائرنگ کاتبادلہ ہوا آخر کار مخالف پارٹی مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑی ہوئی جاتے ہوئے انہوں نے محمد خان کے پھوپھی زاد بھائی فتح محمد اور چچا زاد بھائی عزیز خان کو گولی مار کر

ہلاک کر دیا اور دو رشتہ داروں محمد خان اور زور خان کو شدید زخمی کر دیا البتہ محمد خان اور ہاشم خان کی جان بچ گئی گاؤں کے چوراہے میں مہر خان کی اور ڈیرے پر مہر بھری کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی جبکہ محمد خان کے دو بھائیوں کی لاشیں بھی کچھ فاصلے پر پڑی تھیں اس کے دو گھنٹے بعد تھانہ لاوے کا ایس ایچ او پولیس کی گارد لے گاؤں آگیا‘ ہاشم خان تو گھر چلا گیالیکن محمد خان بھاگ کر تلہ گنگ آگیا یہاں سے اس نے آئی جی پنجاب‘ علاقہ مجسٹریٹ‘ اور کمشنر کو اس حادثہ سے متعلق تاریں ارسال کیں جن میں لکھا کہ پولیس مخالف فریقین سے ملی ہوئی ہے اس لئے سپیشل کرائم برانچ سے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں اس نے تاروں اور درخواستوں میں مخالف پارٹی کے 22 افراد کے نام لکھے تھے اور حکام سے استدعا کی تھی کہ انکا بھی چالان کیا جائے کیونکہ اسے علاقے سے پولیس سے انصاف کی توقع نہیں تھی پولیس نے لاشیں اپنے قبضہ میں لے لیں تیسرے دن کرائم برانچ کا انسپکٹر گاؤں میں پہنچ گیا تحقیقات شروع ہوئیں‘ محمد خان اور اس کے بھائی ہاشم پر قتل کا پرچہ درج ہو گیا اور چوتھے روز انہیں گرفتار کر لیا گیا جبکہ مخالف پارٹی کے 22 افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا سب کا چالان کر کے متعلقہ جیل میں بند کر دیا گیا‘ کیمبل پور کے سیشن کورٹ کی عدالت میں سال مقدمہ چلا آخر میں محمدخان کو 14 سال قید بامشقت کی سزاہو گئی‘ البتہ ہاشم خان بری ہو گیا‘ مخالف پارٹی کے 22 افراد کو 48,48 سال کی سخت سزائے قید ہوئی یہ 1956ء کا دور تھا اس وقت ہائی کورٹ پشاور میں تھی ہاشم خان نے محمد خان کو سزا کیخلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی اس مقدے کی پروری نامور وکیل پیرا بخش نے کی جبکہ پیر صاحب کے کہنے پر مخالف پارٹی کا کیس خان عبدالقیوم خان مرحوم نے لڑا‘ کیس جسٹس حبیب اللہ خان کی عدالت میں لگا‘ یہ وہی حبیب اللہ خان تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سینٹ کے چیئر مین بھی رہے پہلی پیشی پر ہی یہ بیمار ہو گئے اور کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی‘ ان حالات کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عزیز احمد اور ایک انگریز جج پشاو میں اس مشہور قتل کیس کی سماعت کیلئے حکومت نے تعینات کیے اس سپیشل جج کے رو بروآٹھ
ماہ تک مقدمہ کی سماعت جاری رہی سپیشل جج نے دونوں فریقین کو بری کر دیا‘ محمد خان رہا ہو کر گھر پہنچا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ گیا‘ اب وہ دشمن کی جانب سے محتاط رہنے لگا تھا سب مخالفین کے چہرے محمد خان کی نظروں کے سامنے تھے 6 ماہ نہایت امن و سکون کے ساتھ گزرے نہ اس نے کوئی چھیڑ کی نہ مخالف فریقین نے کوئی سازش کی۔

لیکن پھر ایسا واقعہ ہو گیا کہ گاؤں میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔۔۔ حصہ دوم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

منگل، 29 ستمبر، 2015

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا،وارث کلو



خوشاب نیوز ڈاٹ کام)رکن پنجاب اسمبلی ملک وارث کلو نے اور سیز پاکستانیز کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گاان کے خون پسینے کی کمائی گئی رقم کا تحفظ کر نا اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادو ں پر حل کر نا کمیٹی کے فرائض میں شامل ہے وہ ڈی سی او کانفرنس حال جوہرآباد میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اجلاس میں ڈی سی اوضیاء الرحمن ‘ اسسٹنٹ کمشنر خوشاب رانا محمد حسین ‘ ڈی ایس پی صدر محمد ظفر گلزار دیگر افسران کے علاوہ موذہ ہڈالی کی متاثر پارٹیوں کے ممبران فیض محمد عر ف جانی اور مضر حسین وغیرہ موجود تھے دونوں پارٹیو ں کے مابین ایک کھیوٹ کی تقسیم کے سلسلے میں غور کیا گیا دونوں پارٹیو ں کو ایکشن دی گئی کہ اگر وہ اپنی جانب سے ایک ایک غیر جانب دار اور جو ریونیو معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتا ہو ۔ثالث مقر ر کرسکتے ہیں جس پر دونو ں پارٹیوں نے ثالثی کے ضمن میں دس روز کا وقت مانگا ڈی سی او نے بتا یا کہ اوور سیز کمیٹی میں متاثرہ دونوں پارٹیو ں کی رضا مندی سے ثالثی کی پروسیڈنگ کے دوران ان پر ما نیٹرنگ بھی کی جاتی ہے تاکہ فیصلہ صاف شفاف ہو اور کسی ہی پارٹی کا حق متاثر نہ ہو ں۔ انھوں نے بتا یا کہ یہ فورم وزیر اعلیٰ پنجا ب میاں شہبا زشریف کے احکا مات اور نوٹیفکیشن کے مطابق قائم ہوا ہے جسے قانونی حیثیت بھی حامل ہے ۔ کمیٹی کے فیصلہ پر عملدرآمد کروانا حکومت کاکام ہے لہذا متاثرہ پارٹیاں کمیٹی کے فیصلے کی پابند ہوگی ایم پی اے ملک وارث کلو نے کہا کہ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد لڑائی جھگڑو ں کونسل درنسل متعلق ہونے سے روکنا ہے انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ متاثرہ خاندانو ں کے لڑائی جھگڑو ں فیصلہ میرٹ اور نیک نیتی سے کیا جائے گا ۔ 

خطرناک بوٹی وادی سون کےمکینو ں اور کا شت کا روں کیلئے وبال جا ن بن گئی



نوشہرہ وادی سون (نمائندہ خصوصی)شہر اور اس کے گردونواح میں ایک خا ص قسم کی جنگلی بو ٹی علا قوں کے مکینو ں اور کا شت کا روں کیلئے وبال جا ن بن گئی یہ بو ٹی گا جر بو ٹی کے نام سے پہچا نے جا نے والی یہ جنگلی بو ٹی وادی سون کی سڑکو ں کے اطراف اور کھیتو ں میں اگی ہو ئی ہے اس بو ٹی کو چھو نے والے کا شتکار افراد الرجی اور خا رش کی بیما ری میں مبتلا ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بو ٹی فصلا ت کیلئے بھی قاتل زہر بنی ہو ئی ہے اس بو ٹی کے بڑھتے ہو ئے پھیلا ؤ کے سبب علا قہ کی ذرعی معیشت تباہی کے دھا نے پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے پیدا وار نہ ہو نے کے برابر ہے جس سے کا شتکا روں میں شدید بے چینی اور اضطراب پا یا جا تا ہے علا قہ کے غریب کا شتکا ر اشرف کھلان،محمد شیر ،بہا در خان پٹھا ن ،منصب خان مہر یہ ،فتح خا ن کھلان ،غلام علی ،پیر پھل پیر شاہ ،محمد نواز معموریہ نے حکو مت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس جنگلی گا جر بو ٹی کے تدارک کیلئے اقدامات کیے جا ئیں اگر فوری اقدامات نہ کیئے گئے تو ذرعی معیشت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیا ں بھی خطرے میں گھری ہوئی ہیں اس بو ٹی سے پچیس سے تیس ہزار بیج نکلتے ہیں اور ہر بو ٹی سال میں تین با ر بھی بیج گراتی ہے جس سے محکمہ ذراعت کی جانب سے اس کے تدارک کیلئے اٹھا ئے جا نے والے تمام اقدامات نا کام ہو رہے ہیں جس سے کا شتکا روں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں حکو مت اس کے تدارک کیلئے منا سب اقدامات کر ے تا کہ غریب کا شتکا ر سکھ کا سانس لے سکیں ۔

پیل پدھراڑ میں کھیلو ں کے فر و غ کیلئے ہر ممکن اقدامات کر یں گے،علی ساول

نوشہرہ وادی سون (نمائندہ خوشاب نیوز ڈاٹ کام )پہلا کا شف شاہ تھو بی والی بال ٹورنامنٹ موضع پیل میں ہوا جس میں ضلع خوشاب چکوال کی ٹیمو ں نے حصہ لیا ٹورنامنٹ کے فا ئنل میچ لہو ٹہ کلب پدھراڑ بمقابلہ منا رہ کلب ہوا جس میں لہوٹہ کلب نے منا رہ کلب کو 2,0سے شکست دے کر میچ اپنے نام کر لیا فا ئنل میچ کے مہمانان خصوصی سیاسی رہنما ملک محمد علی ساول، تحریک انصاف ضلع خوشاب کے سابق صدر ملک مزمل اعوان نے رنر اپ اور ونر کیش پرائز بمع ٹرافی انعامات دئیے اس مو قع پر ملک محمد علی ساو ل نے کھلاڑیوں سے خطاب کر تے ہو ئے کہا کہ پیل پدھراڑ میں کھیلو ں کے فر و غ کیلئے ہر ممکن اقدامات کر یں گے نو جو ان نسل کو بے راہ روی سے بچا نے کیلئے کھیلو ں کے میدان آبا د کر نے ضروری ہیں انہو ں نے کہا کہ مجھے ایم این اے ،ایم پی اے کے مقامی ہو نے کے نا طے کھیلو ں کے فروغ کیلئے اقدامات نہیں کئے اگر مجھے آپ لو گو ں نے مو قع دیا تو میں انشاء اللہ کھیلو ں کے فروغ کیلئے گراؤنڈ بنواؤں گااس مو قع پر آرگنا ئزر واصف شاہ ،اشرف خان مہر یہ کو بہترین ٹورنامنٹ کروانے پر کیش پرائز دیا ۔

ہفتہ، 26 ستمبر، 2015

ٹوٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید اسپیشل


ﻋﯿﺪ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﺁﻣﺪ ﺗﮭﯽ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ . ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﻮﭦ ﭘﮩﻨﮯ ﭨﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ . ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ . ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﮌﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ . ﺟﻮ ﺑﮑﺮﺍ ﮐﭽﮫ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻡ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮐﻮ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ . ﺩﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﭘﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺪ ﺗﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺑﮑﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮐﻢ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﻠﮯ ﮨﻮﮞ . ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮑﺮﺍ ﭘﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮧ ﻣﻼ . ﺍﺑﮭﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻟﯽ ﻗﻄﺎﺭ ﺁﺩﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﺁﺝ ﻧﻤﭩﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﮭﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﮑﺎﻥ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﮍﮬﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﮑﺌﯽ ﮐﮯ ﺳﭩﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ . ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﮯ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ . ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺍﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﻮﻻ . ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺭﮐﮯ، ﺑﮑﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﯿﺎ، ﺑﮑﺮﺍ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺗﮭﺎ . ﺩﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺗﮭﮯ ... ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﺑﻮ ﻻ ﻧﮩﯿﮟ . ﮐﭽﮫ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻟﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ . ﺍﺏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭽﮯ ﮔﺎ .... ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺲ ﺍﺱ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ...... ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮔﺪﮬﺎ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ .... ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﺪﮬﺎ ﺧﺮﯾﺪ ﺩﻭ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮑﺮﺍ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ... ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ .... ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﺪﮬﺎ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ... ﺑﺎﺕ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ... ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﮔﺪﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﭩﺎ ﺑﮑﺮﺍ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .. ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮯ، ﺭﺳﯽ ﺗﮭﺎﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﺩﯾﮯ ...... ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺁﮔﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﮮ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﮍﮮ ﺗﻮ ﮔﺪﮬﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﺋﺐ . ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺪﮬﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ، ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ....... ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ... ﮔﺪﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺠﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ . ﻭﮨﺎﮞ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻟﮧ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﺎ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ .. ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ ... ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﮔﺪﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ .. ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ .. ﺍﮔﺮ ﻣﻨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺑﮑﺮﺍ، ﺑﮑﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ 

..........................................
ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایکہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہاکہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔
اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے 
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہاکہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔

........................................................................


میں نے اپنے اُردو کے لیکچرار دوست کو فون کرکےآفس بلا یا اور پرجوش آواز میں کہا’اُردو لکھنا پڑھنا جانتے ہو؟وہ غصے سے مجھے گھورنے لگا‘میں نے طنزیہ لہجے میں سوال دوبارہ دہرایا‘وہ غرایا’’کیا یہی مذاق کرنے کے لیے بلایا ہے؟میں نے قہقہہ لگایا’نہیں جانی!بس آج تمہاری اردو کا امتحان لینا ہے‘بولو کتنے کی شرط لگاتے ہو؟اس نے دانت پیسے’شرط لگانا حرام ہے‘اب کی بار میں نے اسے گھورا’اگر میں ثابت کردوں کہ .شرط. حرام نہیں تو؟اس کی آنکھیں پھیل گئیں’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کرو ثابت‘میں نے اطمینان سے کہا’’ کیا نماز کے لیے وضو شرط نہیں‘کیا شادی کے لیے نکاح شرط نہیں؟میری دلیل سنتے ہی اُس نے پہلے اپنے بال نوچے پھر میز پر پڑا پیپر ویٹ اٹھا کر میرے سر پر دے مارا لیکن میں چوکنا تھا لہذا اس کا نشانہ خطا گیا’چلو اگر تمہیں شرط منظور نہیں تو شرط کا نام انعام رکھ لیتے ہیں‘کچھ بحث و تمہید کے بعد یہ تجویز اسکو پسند آگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری جیب میں اب رقم آنے والی ہے۔طے پایا کہ اگر اس نے اُردو بوجھ لی تو میں اُسے ہزار روپے دوں گا اور اگر وہ ناکام رہا تو اُسے ہزار روپے دینا ہوں گے۔اسکو یقین تھا کہ وہ یہ مقابلہ ہار ہی نہیں سکتا کیونکہ اُردو سے اس کا بڑا پرانا تعلق ہے اور وہ اِس زبان کا ماہر ہے۔میں نے سرہلایا اور پوچھا’کھاتہ ترتیبات‘‘ کسے کہتے ہیں؟اسکا رنگ اُڑ گیا’’کیا کہا؟ پھر سے کہنا‘میں نے اطمینان سے دوبارہ کہا’کھاتہ ترتیبات‘وہ سرکھجانے لگا‘ میں مزے سے سیٹی بجارہا تھا‘اس کی طرف سے جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے اطمینان سے کہا’’بیٹا اس کا مطلب ہے Account Settings ۔چلواب یہ بتاؤ’رازداری رسائی‘‘ کسے کہتے ہیں؟وہ مزید ہڑبڑا گیا۔یہ کون سی زبان بول رہے ہو؟میں مسکرایا’’بیٹا یہ اُردو ہے‘ خالص اُردو‘اس کا مطلب بھی سن لو‘اس کا ترجمہ ہے ''Privacy settings'' اب بتاؤ کہ’’ربط کا اشتراک‘ کیا ہوتا ہے؟اُس کے پسینے چھوٹ گئے‘ ہکلاکر بولا’’نہیں پتا‘میں نے میز بجایا’’میرے پیارے اس کا مطلب ہوتاہے Share link ۔وہ بے بسی سے اپنی ہتھیلیاں مسلنے لگا۔ میں نے سگریٹ سلگا کر ایک کش لگایا اور آگے کو جھکتے ہوئے پوچھا’’فیس بک استعمال کرنا جانتے ہو؟وہ اچھل پڑا’’کیا مطلب؟ تم جانتے تو ہو کہ میں چار سال سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں ‘ میں نے دھواں اس کے منہ پر پھینکا’’اچھاتو پھر یہ بتاؤ آخری دفعہ تم نے’تجدید کیفیت‘کب کیا تھا؟اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور دھاڑ کر بولا’’میں کوئی تمہاری طرح بے غیرت نہیں‘ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا‘‘میں نے حیرت سے پوچھا’’کون سا کام؟وہ گرجا’’یہی جو تم پوچھ رہے ہو‘‘میں نے قہقہہ لگایا’’ابے یہ Status Update کی اُردو ہوتی ہے.اچھایہ بتاؤ تمہارے کتنے’پیروکار‘ہیں؟یہ سنتے ہی اُس نے مجھے گردن سے دبوچ لیا’’کیا بکواس کر رہے ہو میں کوئی پیر بابا ہوں‘میرے کہاں سے پیروکار آگئے؟میری چیخ نکل گئی‘ میں نے بمشکل اپنی گردن چھڑائی اور دو قدم دور ہٹ کر چلایا’’کمینے ! پیروکار سے مراد’Followers ‘‘ ہوتے ہیں۔ایک موقع اور دیتا ہوں‘ بتاؤ جب تم فیس بک پر کوئی تصویر لگاتے ہو تو اسے کسی سے’’منسلک‘‘ کرتے ہو؟کبھی تمہیں’’معاونت تختہ‘‘کی ضرورت پیش آئی؟تم’مجوزہ صفحات‘‘ کھولتے ہو؟تم نے کبھی اپنی ’’معلومات کی تجدید‘‘ کی؟کبھی ’’اپنے’واقعات زندگی‘ کو’’عوامی‘‘ کرکے’’پھیلایا؟اسکے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہوگئے تھے‘ یوں لگ رہاتھا جیسے کچھ ہی دیر میں وہ خالق حقیقی سے جاملے گا۔اس نے میرے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے اپنے ناخن چبانے شروع کر دیے۔میں نے پراعتماد لہجے میں کہا۔تم ہار گئے ہو۔نکالوایک ہزار‘‘۔ اُس نے نفی میں سرہلادیا’’نہیں۔۔۔پہلے ثابت کرو کہ یہ اُردو کہیں استعمال بھی ہوتی ہے‘مجھے پتا تھا کہ وہ یہ سوال ضرور کرے گا لہذا اطمینان سے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر فیصل کے سامنے کردیا جہاںTagکی اردو ’’منسلک‘‘ لکھی تھی۔Support Dashboard کو ’’معاونت تختہ‘‘ لکھا ہوا تھا‘ Recommended Pages کا ترجمہ ’’مجوزہ صفحات‘‘ کیا گیا تھا‘Life eventsسے مراد’’واقعاتِ زندگی‘‘ تھے اور Everyone کی اردو ’’عوامی‘‘ کی شکل میں دستیاب تھی۔ وہ کچھ دیر ہونقوں کی طرح میری ’’اُردو مارکہ فیس بک‘‘ دیکھتا رہا‘ پھر خاموشی سے پرس نکالا‘ پانچ پانچ سو کے دو نوٹ نکال کر میری ٹیبل پر رکھے ‘ اپنے آپ کو ایک عجیب و غریب سائنسی قسم کی گالی دی اور تیزی سے باہر نکل گیا ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اب تک اردو ہماری قومی زبان تو نہ بن سکی لیکن فیس بک کی زبان ضرور بن گئی ہے تاہم فیس بک والے ’’واجب القتل‘‘ قرار دے دینے چاہئیں جنہوں نے ابھی تک بے شمار الفاظ کا اردو ترجمہ نہیں کیا‘ مثلاً ٹائم لائن‘ ای میل‘ پاس ورڈ‘ سرچ انجن‘ پروفائل‘ فیس بک‘ کوکیز‘ایپلی کیشنز‘موبائل‘ لاگ اِن اور لاگ آؤٹ جیسے بدیسی الفاظ تاحال یہاں موجود ہیں حالانکہ ان کا ترجمہ انتہائی آسان ہے ‘ میری رائے میں ‘ Facebook کو ’’متشکل کتاب‘۔Timeline کو’’وقت کی لکیر‘۔Emailکو’’برقی چٹھی‘۔Password کو’’لفظی گذرگاہ‘۔Cookies کو’’چھان بورا‘۔Application کو ’’عرضی‘۔ Mobile کو’’گشتی‘‘ ۔Search Engine کو ’’مشینی تلاشی‘۔Video کو ’’متحرک تصاویر‘۔ Profileکو ’’شخصی ڈھانچہ‘۔ Log out کو ’’خروج‘‘ اورLogin کو ’’دخول‘‘ کردینا چاہیے۔
اردو کی ترویج و ترقی کے لیے انگریزی کو بے لباس کرنا بہت ضروری ہے.

...................................................................................
ایک لڑکے نے انتہائی خوشی سے اپنی ماں کو کہا:امی! مجھے ایک لڑکی سے پیار ہوگیا ہے اور میں اب شادی کرنے والا ہوں۔کل میں تین لڑکیوں کے ساتھ آؤنگا اور آپ کو ان میں سے پتہ کرنا ہے کہ وہ ایک لڑکی کون ہے جس سے میں شادی کرنے والا ہوں!اگلے دن وہ تین خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ گھر آیا ، تینوں نے تھوڑی تھوڑی دیر اسکی ماں کے ساتھ وقت بِتایا۔آخر میں اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اب بتائیں کہ میں کس لڑکی سے شادی کرنے والا ہوں؟اسکی ماں نے فوراً کہا کہ وہ لڑکی جس نے نیلا لباس پہنا ہوا ہے۔بچے نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ امی آپ کو کیسے معلوم ہوا؟اسکی ماں بولی:.....کیونکہ وہی لڑکی مجھے زہر لگ رہی ہے۔

جمعہ، 25 ستمبر، 2015

سیکس کے 26 باتصویر طریقے

افغانی تکہ ۔۔۔۔۔۔ عید الاضحیٰ کے پکوان

Afghani tikka


افغانی تکہ


اجزاء:
گوشت ڈھائی کلو
نمک دوٹی اسپون
ٹماٹر آدھا پاؤ
چربی آدھا کلو
پسی ہری مرچ آدھاپاؤ 

ترکیب:
۔گائے کے گوشت کی چوکور بوٹیاں بنوالیں اور اتنے سائز کی چربی کی بوٹیاں بھی بنوائیں مثلاً اگر ڈھائی کلو گوشت ہے تو آدھا کلو خالص چربی ہواور گوشت ایسی جگہ کا لیں جو جلد گل جائے۔
2۔گوشت کو دھو کر اس میں نمک اور پسی ہوئی ہری مرچ لگائیں اور خوب مکس کر یں۔
3۔دو گھنٹے کے لئے رکھ دیں جس وقت سیخ لگانی ہو پہلے ایک بوٹی پھر چربی اور اس کے بعد ٹماٹر کا چوکور ٹکڑا اسی طرح باقی سیخ پر جتنی بوٹیاں آسکیں ، چڑھا لیں اور کوئلوں پر سرخ کر لیں مزے دار افغانی کباب تیار ہیں۔ قندھاری نان کے ساتھ سرو کر یں۔ 

بھوجیلو گوشت ۔۔۔۔۔۔۔ عید الاضحیٰ کے پکوان

Bhoojelo Gosht


بھوجیلو گوشت


اجزاء:
مٹن ----- ایک کلو ( بون لیس ) ادرک لہسن پیسٹ ------ دو چائے کے چمچ تازہ ادرک ----- ایک انچ کا ٹکڑا ( باریک کاٹ لیں ) ثابت زیرہ ------ ایک چائے کا چمچ کالی مرچ پاؤڈر ------- ایک چائے کا چمچ ثابت دھنیا ----- دو کھانے کے چمچ لال مرچ پاؤڈر ------ ایک چائے کا چمچ شکر ------ ایک چائے کا چمچ ( پسی ہوئی ) نمک ----- حسب ذائقہ کچا پپیتا ------ پچاس گرام ( چھلا پسا ہوا ) سرکہ ------ دو کھانے کے چمچ سویا ساس ------ ایک کھانے کا چمچ تیل ----- تین کھانے کے چمچ

ترکیب:
گوشت کو چربی سے پاک کر کے دھولیں پھر اس کے ایک انچ کے ٹکڑے بنالیں- تمام اجزاﺀ کا پیسٹ بنا لیں- اب تیار آمیزے کو گوشت میں اچھی طرح مکس کریں اور اس مصالحے ملے گوشت کو فریج میں رکھ کر چند گھنٹوں کے لیے میرینٹ کریں- اب کوئلے ڈال کر باربی کیو تیار کرلیں اور سیخوں میں گوشت کی بوٹیاں لگا کر کوئلوں پر اچھی طرح سینکیں تاکہ گوشت گل بھی جائے اور براؤن بھی ہوجائے- تقریباً 20 منٹ پکائیں- گارنش کر کے پیش کریں-

لاہوری پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید الاضحیٰ کے پکوان

Lahori Paye


لاہوری پا ئے


اجزاء:
بکرے کے پائے 4 عدد پیاز 2 عدد لہسن 2/1 کپ سرخ مرچ ا یک چائے کے چمچ ہلدی ا یک چائے کے چمچ دھنی 2/1 کپ ادرک لمبا کٹا ہوا مغز: ١ عدد گرم مصالہ ا یک چائے کے چمچ پانی :حسب ضرورت آٹا ایک کپ

ترکیب:
پا ئے کو ا چھی طرح صاف کرکے آٹے کے ساتھ ر گڑ کر د ھو لیں - پھر پر یشر ککر میں پیاز،لہسن، نمک،مرچ،ہلدی اور پھر پا ئے ڈال د یں اور 5- 6 کپ پا نی ڈال کر پر یشر دیں - پانی خشک ہو نے پر ہلکی آنچ پر بھو نہں - ۔پھر اس کا اپنا تیل اوپر آجائے گا تو مزید 4 کپ پا نی ڈال دیں اور دس منٹ کے لئے دوبارہ پکا ئیں جب گر یوی گاڑی ہو جا ئے تو آنچ سے اتار لیں گرم مصالہ چھرک کر چھرک کر نان کے سا تھھ سرو کرہں

حیدرآبادی غزالہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیدالاضحیٗ کے پکوان

Hayderabidi Ghazla



حیدرآبادی غزالہ




اجزاء:
بکرے کا گوشت۔۔۔۔۔۔۔ ایک کلو
ہری مرچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھا کلو
دہی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کپ
ہلدی پاؤڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک چائے کا چمچہ
دھنیا پاؤڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سے ڈیڑھ کھانے کا چمچہ
گھی۔۔۔۔۔۔۔ آدھا کپ
پیاز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کلو
ادرک لہسن پیسٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو کھانےکے چمچے
پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھ کپ
ہرا دھنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گٹھی
لیموں کا رس۔۔۔۔۔۔۔ آدھا کپ
نمک۔۔۔۔۔۔۔۔ حسب ذوق
گرم مصالحہ پاؤڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سے ڈیڑھ کھانے کا چمچہ 




ترکیب:
آدھی ہری مرچوں کو پیس لیں۔پھر اس میں دہی،ہلدی،نمک کو مکس کریں۔
باقی ہریمرچوں کو درمیان سے لمبائی میں کاٹیں اور گرم تیل میں فرائی کریں۔جب ان کا رنگ تبدیل ہو جائے تو نکال لیں۔
اب اسی آئل میں پیاز گولڈن براؤن کریں۔
پھر اس میں گوشت شامل کرکے براؤن کر لیں اور ساتھ ہی ادرک لہسن،دہی اور تین کپ پانی ڈآلیں۔پھر ڈھک کر ہلکی آنچ پر گوشت گلائیں۔
اس کے بعد دھنیا اور فرائی ہری مرچ ڈال کر پکاتے جائیں،یہاں تک کہ گھی سطح پر آجائے۔
آخر میں گرم مصالحہ چھڑکیں اور پانچ منٹ دم پر رکھیں۔
گرم گرم چپاتی کے ساتھ سرو کریں۔ 

نمکین گوشت ۔۔۔۔ عیدالاضحیٗ کے پکوان

Namkeen Roast





نمکین روسٹ



اجزاء:
گوشت ----- ڈیڑھ کلو
نمک ----- ایک چائے کا چمچ 



ترکیب:
ہانڈی میں گوشت٬ نمک اور دو کپ پانی شامل کر کے تیز آنچ پر پکائیں-
جب ابال آنے لگے تو آنچ دھیمی کر کے سائیڈوں کو آٹے سے سیل کردیں اور 40 منٹ تک پکنے دیں-
آخر میں ڈھکن ہٹا کر پانی خشک کر کے پیش کریں- 

پشاوری کڑاہی ۔۔۔۔ عید الااضحیٗ کے پکوان


Peshawari Karahi



پشاوری کڑاہی


اجزاء:
گوشت (چھوٹی بوٹیاں)۔۔۔۔۔۔۔1کلو
باریک کٹی درمیانی پیاز۔۔۔۔۔۔۔۔4عدد
باریک کٹادرمیانہ ٹماٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔آدھا
پھنیٹی ہوئی دہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1/2کپ
باریک گول کٹی درمیانی ہری مرچ ۔۔۔۔4-6عدد
کٹاہرا دھنیا ۔۔۔۔۔۔۔2کھانے کے چمچے
مکھن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1/2کپ
گھی یا تیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1/2کپ
ماں پشاوری کڑاہی مصالحہ ۔۔۔۔۔۔1پیکٹ


ترکیب:
پہلے 1/2کپ گھی گرم کرکے اس میں 4عدد باریک کٹی درمیانی پیاز کو تیز آنچ پر 5منٹ کچا پکاتل لیں۔
اب اس میں 1کلو گوشت کی چھوٹی بوٹیاں ، آدھا باریک کٹا درمیانہ ٹماٹر اور 1پیکٹ ماں پشاوری کڑاہی مصالحہ شامل کرکے 5سے 6منٹ بھون لیں ۔
اس کے بعد ایک سے دوکپ پانی ڈال کر ڈھکیں اور ہلکی آنچ پر گوشت گل جائے تک پکائیں۔
پھر 1/2کپ مکھن شامل کرکے تیز آنچ پر 2سے 3منٹ کے لیے بھون لیں ۔
اب اس میں 4-6عدد باریک گول کٹی درمیانی ہری مر چ ، 2کھانے کے چمچے کٹاہرادھنیا اور1/2کپ پھینٹی ہوئی دہی ڈال کر اتنا بھونیں کہ مصالحہ گھی چھوڑ دیں ۔ آخر میں مزے دار ماں پشاوری کڑاہی گرم گرم نان کے ساتھ سرو کریں

جمعرات، 24 ستمبر، 2015

پتھر روتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تعارف


اردو میں افسانچہ کی روایت باضابطہ طور پر سعادت حسن منٹو سے شروع ہوتی ہے۔ جوگندر پال نے اس صنف کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ خواجہ احمد عباس، رام لعل، بشیشر پردیپ، ش مظفر پوری، رتن سنگھ، عطیہ پروین، الیاس احمد گدی، انجم عثمانی، عظیم راہی، نذیر فتح پوری، مناظر عاشق ہرگانوی اور درجنوں افسانہ نگاروں نے افسانچے لکھے ہیں۔ 

ایک نیانام جوافسانچہ کے ادب میں اس وقت روشناس ہوا ہے وہ محمد نعیم یادؔ (جوہرآباد،ضلع خوشاب) کا ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان قلمکار ہیں جوگزشتہ کچھ عرصے سے، خاموشی کے ساتھ اپنی ذاتی لگن اور دلچسپی سے افسانچے پہ کام کررہے ہیں۔ستمبر 2014ء میں جب ان کاپہلاافسانچوی مجموعہ’’اک خواب جو ٹوٹ گیا‘‘کے عنوان سے منظرِعام پہ آیاتو اسے نہ صرف پاکستان کے ادبی حلقوں میں بلکہ پڑوسی ملک بھارت کے ادبی حلقوں میں بھی خوب پذیرائی ملی۔افسانچوں کے اس مجموعے میں کل ۸۰ افسانچے شامل تھے۔ایک سال سے کم دورانیہ میں افسانچوں اورافسانوں پرمشتمل ان کادوسرامجموعہ ’’پتھرروتے ہیں‘‘کے عنوان سے بھی شائع ہوچکا ہے۔ان افسانچوں میں اسلوب و تکنک کی جدت کے ساتھ موضوعات کا زبردست تنوع ملتا ہے۔ خاص طور سے طبقاتی ، کشمکش ، عریبی ، ناداری اور افلاس سے پیدا ہوئے مسائل پر بڑے خوبصورت افسانچے ملتے ہیں۔